فاروق طاہر،حیدرآباد
خوشی و غم زندگی کا حسن ہے:۔ شدائد، مصائب، بیماری، وبا، تباہی ،خون ریزی، قتل وغارت گری اور ظلم وستم کی داستانیں بنی نوع انسان کے لیے نئی نہیں ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے یہ تمام اس کے مشاہدات میں رہے ہیں۔ خدائے لم یزل کی جانب سے انسان کی خوشی وغم، آسانی وتنگی، صحت وبیماری کے ذریعے آزمائش ہوتی رہی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دنیا میں ہرانسان کو دو متضاد کیفیات (حالات) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی خوشی تو کبھی غم، کبھی سکھ تو کبھی دکھ، کبھی قہقہے اور آہیں تو کبھی سکون واضطراب، کبھی صحت کی لذتیں تو کبھی بیماری کی آہ و بکا، کبھی فراخی تو کبھی تنگی، کہیں شہنائی تو کہیں ماتم، کہیں نئی زندگی کی آمد پر مبارک باد تو کہیں موت پر تعزیت۔ الغرض زندگی اسی کا نام ہے۔ تصویر کے یہ دونوں رخ دنیاوی زندگی کی فطرت میں داخل ہیں۔ خوشیوں، لذتوں اور مسرتوں سے بھر پور زندگی تو انسان کو بہت دل کش اور بھلی معلوم ہوتی ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ میری کوششوں اور محنت کا پھل ہے لیکن یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سب کچھ ربِ کائنات کا فضل و کرم ہے۔ جب گردشِ زمانہ اور مصائب و آلام کا شکار ہوتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے، چیخنے لگتا ہے۔ چیخ وپکار اور آہ وبکا میں اپنے مالک حقیقی کو بھی بھول جاتا ہے اور گلے شکوے کرنے لگتا ہے۔ آج ساری دنیا موت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ زندگی کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔ ایک نظر نہ آنے والے معمولی سے وائرس نے زندگی کی گہماگہمی کو یک لخت جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ امیر وغریب، سرمایہ دار ومزدور، عالم وجاہل، تندرست ومریض، حاکم ومحکوم اور خواص وعوام سب ہی اس سے متاثر ہیں۔ سماج کا تقریباً ہر فرد اس پریشانی سے دوچار ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ حوادث ومصائب کا سبب انسان کے اعمال ہی ہوتے ہیں۔ ’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب وبائیں پھیل رہی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ ان کو چکھادے تاکہ وہ باز آجائیں‘‘ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور تم کو جو مصیبت پیش آتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سے گناہ تو اللہ معاف ہی کر دیتا ہے‘‘ مصائب، حوادث، بیماریوں اور وباوں کے پھوٹ پڑنے کی وجہ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے انسانوں کا تجاوز کرنا ہے۔ ان مصائب، حوادث، بیماریوں، وباوں اور آزمائشوں کا شکار بے گناہ انسان بھی ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان کے لیے ایسے حالات آزمائش ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا انکشاف بھی سورۃ البقرہ کی آیات مبارکہ سے ہوتا ہے’’ اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔‘‘
آزمائش عدل کا تقاضا ہے:۔’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ‘‘۔دنیا کی زندگی آزمائش ہے۔ زندگی کو حسن اور خوب صورتی ،صبر واستقلال سے حاصل ہوتا ہے۔ دنیا کی عیش وعشرت، آرام وسکون عارضی اور فانی ہیں۔ امام احمد ابن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ آرام کب ملے گا؟ فرمایا ’’تم اپنا پاوں جب جنت میں رکھو گے تب۔‘‘ دنیا حادثات، آلام، فتنوں، مصائب اور آفات کی جگہ ہے۔ یہاں بیماری، مایوسی اور حزن وملال دنیا کے امتیازی نشان ہیں۔ آزمائش ایک سنت الہی ہے۔’’ہم تم کو کسی چیز میں آزمائیں گے‘‘ ہم نے تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی آزمایا ہے۔‘‘یہ عدل کا تقاضا ہے کہ اللہ بندوں کا امتحان لے، انہیں شدت اور آسانی میں آزمائے ان کو دن اور رات کے مختلف احوال سے گزارے۔ آزمائش پر ثابت قدمی ایمان کا حصہ ہے۔ پریشانیوں اور مصائب پر ناراضگی واعراض ایمان کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ آدمی کو مشقت اور آزمائش میں بھی ان کی مقدرت کے مطابق ڈالتا ہے۔ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ’’اللہ تعالیٰ مکلف نہیں بناتا کسی جان کو مگر اس کی طاقت کے بقدر‘‘ شدت کے ساتھ فراخی اور عسر کے ساتھ یسر زندگی کا حسن ہے۔ دعا کی عدم قبولیت بھی خیر ہے۔ راضی بہ رضا رہنا پرسکون اور مطمئن زندگی کا اہم اصول ہے اور اس گنجینہ گراں مایہ کے بارے میں صوفی ابراہیم بن ادہمؒ فرماتے ہیں’’ہماری زندگی ایسی ہے کہ اگر اسے بادشاہ جان جائیں تو وہ ہم سے اس پر تلواروں سے جنگ کریں‘‘ بے جا رنج و غم اور تردد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایک حکیم کی مصیبت پر اس کے بھائی جب اس سے ہمدردی جتانے لگے تو اس نے کہا رنج وغم کیسا کہ میں نے چھ عناصر ملا کر ایک دوا بنائی ہے۔بھائی نے پوچھا کہ وہ کیا ہیں؟ اس نے کہا پہلا اللہ پر بھروسہ، دوسرا مقدر (جو مقدر میں ہے وہ ہو کر رہے گا) تیسراصبر، چوتھا صبر کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں، گھبرا کر کیا ہو گا۔ پانچواں شکر (جس حالت میں اب ہوں، ممکن ہے کہ اس سے بھی برے حال کا سامنا ہوتا) چھٹا وقت کی تبدیلی (آج جو سختی کا وقت ہے وقت کے گزرتے اس سے چھٹکارا بھی حاصل ہوگا) یہ گولی میں روز کھاتا ہوں بھلا مجھے رنج وغم کیوں کر ہو گا؟ جو بھی انسان ان چیزوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرے گا وہ حزن وملال، یاس وغم، مصائب وپریشانیوں، سب وشتم اور ظلم وزیادتی پر رنجور نہیں ہو گا۔ صبر وتحمل گھبراہٹ سے بہتر ہے۔ جو انسان اپنی مرضی سے صبر وتحمل اختیار نہیں کرتا اسے مجبوراً صبر وتحمل پر آمادہ ہونا پڑتا ہے۔
مال واسباب اور وسائل سے کامیابی نہیں ملتی:۔مال واسباب اور وسائل کی فراوانی سے آدمی نہ تو کامیاب ہوا ہے اور نہ یہ چیزیں اسے زندگی میں سکون ومسرت فراہم کر سکتی ہیں۔ اسباب پر تکیہ کرنے کی عادت نے ہی انسانوں کو مصائب، شدائد، غم اور حزن وملال میں جکڑ کر رکھا ہے۔ نمرود، فرعون، ہامان اور قارون اپنے خزانوں، قوت وطاقت اور نعمتوں کی کثرت وبہتات کے باوجود ناکام ہو گئے اور ذلت وخواری ان کا مقدر بن گئی۔انہوں نے مال واسباب اور وسائل پر تکیہ کیا اور مسبب الاسباب سے روگردانی کی۔ مال واسباب اور وسائل کامیابی میں ایک کردار ہی تو ادا کرتے ہیں لیکن کامیابی وسکون عطا کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ اسباب کو استعمال کرتے ہوئے مسبب الاسبا ب سے لَو لگائی جائے تب ہی سکون، راحت، مسرت اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ مال واسباب اور وسائل کی فراوانی نہ تو سکون فراہم کر سکتی ہے اور نہ کامیابی۔ انسان کے پاس اگر دو وقت پیٹ بھرنے کے لیے کچھ موجود نہ ہو، نہ تن ڈھانکنے کے لیے مناسب لباس میسر ہو اور نہ سر چھپانے کے لیے کوئی چھت ہو لیکن ایمان کی دولت اور صبر کی طاقت حاصل ہو تب وہ دنیا کا کامیاب ترین انسان ہو گا۔ آج دولت اور سرمائے کے بل پر ہر چیز خریدنے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے استحصال کا عفریت بھی عام ہو گیا ہے۔ لوگ پیسے کے بل پر زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر دولت کے سہارے زندگی کو بچایا جا سکتا تو دنیا کا کوئی بھی دولت مند انسان موت کے چنگل میں نہ پھنستا۔ دولت اور دوائیں انسان زندگی بچانے میں ایک کردار ادا تو کرتی ہیں لیکن زندگی بچانے پر یہ وسائل قادر نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ دوا شفا دے سکتی ہے نہ تو موت ٹل سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک حکیم حاذق اپنے مطب میں ادویات کی تیاری میں مصروف تھا تبھی ایک شناسا آ دھمکا اور پوچھنے لگا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ حکیم نے جواب دیا کہ وہ تین ایسی گولیاں بنا رہا ہے کہ اگر ایک گولی بستر مرگ پر پڑے ہوئے آدمی کو بھی کھلا دی جائے تو اس میں زندگی کی رمق پیدا ہو جائے گی۔ دوسری گولی سے اس کے اعضاء وجوارح کام کرنے لگیں اور تیسری سے وہ بالکل چاق وچوبند ہو جائے گا۔ آدمی نے کہا محلے کا ایک جوان موذی مرض میں مبتلا ہے کیوں نہ اس کی جان بچائی جائے۔ حکیم اور اس کا دوست مریض کے پاس پہنچے اسے ایک گولی کھلائی اس کی حالت غیر ہو گئی، دوسری میں اور ابتر ہو گئی اور تیسری گولی میں تو اس کی روح پرواز کر گئی۔حکیم بہت رنجور ہوا، رو دھو کر توبہ واستغفار کرنے لگا تب ندا آئی کہ اے حکیم! مایوس کیوں ہوتا ہے تیری گولیاں (دوا) بالکل درست تھیں لیکن دوا میں شفا اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اسے اذن خداوندی ہوتا ہے۔ مریض جوان کی شفاء اللہ کو منظور نہیں تھی اسی لیے دوا کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ مادیت پرستی میں گرفتار آج کے معاشرے کے لیے یہ واقعہ درس عبرت ہے کہ مہنگی دوائیں، قابل ڈاکٹر اور مہنگے دواخانے علاج تو کر سکتے ہیں لیکن شفا اگر تقدیر میں ہوگی تو ہی ملے گی۔ دوا سبب کے درجے میں ہے اور توکل یہ ہے کہ سبب کو اختیار کرنے کے بعد نتائج کو مسبب الاسباب کے حوالے کر دیا جائے۔ انسان اگر یہ بات سمجھ لے تو کوئی بھی اس کا استحصال نہیں کرسکتا نہ ڈاکٹر نہ دواخانے نہ کوئی اور۔
موت میں تاخیر ہو سکتی ہے اور نہ تقدیم :۔ ’’ جب ان کی موت آ جائے گی تو نہ اس میں ایک ساعت کی تقدیم ہو گی نہ تاخیر۔‘‘ (الاعراف:۳۴)’’ کہہ دو جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تمہیں آ کر رہے گی پھر تم حاضر و غائب کو جاننے والے کے پاس لوٹائے جاو گے، پس وہ تم کو خبر کرے گا تمہارے اعمال کی‘‘ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اس کا ایک دن معین ہے۔ اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے نہ تو موت آ سکتی ہے اور نہ وقت مقررہ پر کوئی اس کو روکنے کی قدرت رکھتا ہے۔ بے جا اندیشے وقت اور نعمتوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ گھبرانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بقول غالب
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
قرآن و سیرت النبی کے مطالعے سے آدمی کو شدائد و مصائب کا سامنا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔اس میں صبر کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کا ایک قول ہمارے قلب وذہن کو روشن کرنے اور ایمانی طاقت کو فروغ دینے میں بہت کارگر ثابت ہو سکتا ہے ’’موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا۔ دنیا کے بزدلوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدانِ جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد کو موت بستر پر نہ آتی‘‘ کورونا سے خوف زدہ یا کسی اور مرض و ابتلاء میں گرفتار افراد کے لیے خالد بن ولیدؓ کا یہ قول بے جا اندیشوں، خوف واضطراب سے نکلنے کے لیے یقینا کافی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھیے، نیک فال لیجیے، اچھے کی امید کیجیے، یاس و قنوطیت کو چھوڑ دیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی دلیلیں تہدید کی دلیلوں سے زیادہ ہیں۔ زندگی کی کدورتوں اور مصائب سے مت اکتائیے۔ حسن ظن انسان میں امید اور زندگی کو نہ صرف پیدا کرتا ہے بلکہ اسے باقی اور قائم بھی رکھتا ہے۔ مصیبت اور تکلیف دنیوی زندگی کی اصل ہیں، خوشی بھی یہاں عارضی ہوتی ہے۔ دنیا کا فرحت وسرور عارضی ہے یہ اچھا تو لگتا ہے لیکن اللہ کو اپنے نیک بندوں کے لیے دنیا کو مستقر بنانا پسند نہیں۔ دنیا اگر امتحان گاہ نہیں ہوتی تو یہاں بیماریاں اور کدورتیں نہ ہوتیں۔ دنیا میں انبیا اور صلحا کو بھی رہنے میں دشواریاں پیش آئیں۔ دنیا کی لذت میں مومن کا حق بہت کم ہے۔ حسن ظن کی کمی یا فقدان آدمی کو نفسیاتی عوارض کا شکار بنا دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے ’’جو مردو عورت ایمان کے ساتھ عمل صالح کریں گے ہم انہیں پاکیزہ زندگی بسر کروائیں گے۔‘‘(النحل:۹۷) ’’جو ایمان لائے اور عمل صالح کرے، رحمان ان کے لیے محبت رکھ دے گا۔‘‘(مریم:۹۷)۔ ’’جو میرے ذکر سے اعراض کرتا ہے اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے۔‘‘(طہٰ:۱۲۴) ’’تہ بہ تہ تاریکیاں ہیں جب آدمی اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے دیکھ بھی نہیں پاتا جسے اللہ روشنی نہ دے اسے کوئی روشنی نہیں ملے گی۔‘‘(النور:۴۰)
ہر شر سے خیر نکلتا ہے؛۔ ہر شر کے پہلو میں خیر چھپا ہوتا ہے۔ ایمان والے شر سے بھی خیر نکال لیتے ہیں۔ سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی آپؐ کی قوم نے آپ کی تکذیب کی، آپ سے جنگ کی تو یہ جہاد اللہ کی نصرت اور اس کی راہ میں قربانی دینے کا سبب بن گیا۔غزوات، نبی ﷺ کے لیے فتح کا ذریعہ بن گئے۔ جو مسلمان ان جنگوں میں شہید ہوئے وہ جنت کے مستحق ہو گئے۔ اگر کفار سے مقابلہ نہ ہوتا تو بڑی کامیابی اور خیر کبیر نہ ملتا۔ نبی ﷺ کا مکہ سے ہجرت کر جانا اسلامی مملکت کے قیام کا سبب ہوا۔ انصار اسلام میں داخل ہو کر اہل ایمان اور اہل کفر سے ممتاز ہو گئے۔ احد میں مسلمانوں کی شکست بظاہر پسندیدہ امر نہیں تھا لیکن اس میں اتنا خیر ظاہر ہوا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بدر کی فتح سے جو خود پسندی پیدا ہو گئی تھی وہ احد کی شکست سے ختم ہو گئی۔ مسلمانوں میں اعتماد پیدا ہوا، بہت سے مسلمانوں کو شہادت کا شرف حاصل ہوا۔ جن میں عم رسول حضرت حمزہؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ شامل تھے۔ غزوہ احد سے منافقین کی پہچان ہوئی اور ان کی رسوائی بھی۔ سیرت طیبہ کے ان واقعات سے ہمیں سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہر شر کے اندر خیر چھپا ہوتا ہے اور اللہ جو کرتا ہے انسان کے لیے وہی بہتر اور اچھا ہوتا ہے۔
عبادات، مطالعہ قرآن، ذکر واذکار اور دعاوں کا اہتمام کریں؛۔ نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر خداوندی سے قلب کو قرار وسکون ملتا ہے۔ رنج کی کیفیت ختم ہوتی ہے۔ آدمی پر سکینت ناز ل ہوتی ہے۔ احادیث میں ہے کہ کوئی بندہ جب اللہ تعالیٰ سے غافل ہوتا ہے یا کوئی گناہ کرتا ہے تو اس پر بہت سی مصیبتیں آتی ہیں مگر ان مصیبتوں میں سے ’’آٹھ‘‘ بہت خطرناک ہیں۔ یہ آٹھ مصیبتیں انسان کی زندگی کو برباد کر دیتی ہیں اور اس کی آخرت کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ اس لیے ہمیں سکھایا گیا کہ ہر دن صبح اور شام ان آٹھ مصیبتوں سے بچنے کی دعا مانگا کریں۔ وہ آٹھ مصیبتیں یہ ہیں (۱) ’’الھم‘‘ یعنی فکر میں مبتلا ہونا (۲) ’’الحزن‘‘ یعنی غم میں جکڑا جانا (۳) ’’العجز‘‘ یعنی کم ہمتی، بے کاری اور محرومی (۴) ’’الکسل‘‘ یعنی سستی اور غفلت (۵) ’’الجبن‘‘ یعنی بزدلی، خوف اور دل کا کمزور ہو کر پگھلنا (۶) ’’البخل‘‘ یعنی کنجوسی، حرص، لالچ اور تنگ دلی (۷) ’’غلبۃ الدین‘‘ یعنی قرضے میں بری طرح پھنس جانا کہ نکلنے کی صورت ہی نظر نہ آئے (۸) ’’قہرالرجال‘‘ یعنی لوگوں کے قہر، غضب، غلبے اور ظلم کا شکار ہو جانا۔ ان مصائب سے حفاظت کے لیے آخر میں دی گئی دعا کا اہتمام کریں۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا قرآن مجید کی آیات کی طرح اہتمام سے سکھاتے تھے۔ فرائض کی ادائیگی کو لازم کر لیں۔ معمولات کے ساتھ معاملات کو درست رکھیں۔ فضول اور غیر مصدقہ معلومات اور خبروں کو پھیلانے سے گریز کریں۔سوشل میڈیا اور جعلی میڈیا سے خود کو دور رکھیں۔ سوشل، الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے خوف و اضطراب میں کمی کے بجائے اضافہ کیا ہے۔ ان تمام سے خود کو حتی الوسع دور رکھیں۔ قرآن، سیرت، تاریخ اسلام اور صحت مند تذکیری، ادبی، شخصیت سازی اور سائنسی لٹریچر کے مطالعے میں خود کو مشغول رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
’’اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ، وَقَہْرِ الرِّجَالِ‘‘۔
[email protected]
انسان جب گردشِ زمانہ اور مصائب و آلام کا شکار ہوتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے، چیخنے لگتا ہے۔ چیخ وپکار اور آہ وبکا میں اپنے مالک حقیقی کو بھی بھول جاتا ہے اور گلے شکوے کرنے لگتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021