گائیوں کی برآمدات پر پابندی سے معیشت کودھکا
مودی حکومت کی پالیسی کابنگلہ دیش اور چین کو فائدہ
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
بنگلہ دیش نے شعبہ مویشی پالن میں اتنی ترقی کی ہے کہ اب وہ اس معاملے میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ وہیں بھارت کی چمڑے کی صنعت تقریباً ختم ہونے کے قریب ہے۔ اس صنعت کے کمزور ہونے سے چینی برآمدات کو فائدہ ہوا اور اس نے اپنی چمڑے کی برآمدات ۱۰ فیصد تک بڑھا دی ہے۔ یہ بات سننے میں بڑی عجیب نظر آئے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت نے بنگلہ دیش اور چین کو در پردہ بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔ ۲۰۱۴ میں مودی نے مویشیوں کی برآمد پر پابندی لگائی تھی، اس سے نہ صرف ملک کی گائے پالنے کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ چمڑے کی صنعت بھی تباہ وبرباد ہو گئی ہے۔
بی جے پی یا قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے ) کے اس بے سوچے سمجھے اقدام نے بہت بڑا مسئلہ پیدا کر دیا ہے جس کی توقع شاید اس کو بھی نہیں تھی۔ گائے کی برآمد پر پابندی لگانے کا نعرہ دینے والوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کے نتائج اتنے خراب برآمد ہوں گے۔ حکومت نے محض اپنے سنگھی ٹولوں کو خوش کرنے کے لیے اس پر پابندی لگائی جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا نہ صرف معاشی نقصان ہوا ہے بلکہ اس صنعت سے وابستہ افراد بھی معاشی طور پر بد حال ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش جو کہ ہمارا دوست پڑوسی ملک ہے، گائے کی برآمدات پر پابندی لگا کر ہم نے اس کی در پردہ مدد کی ہے۔ اس پابندی سے ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ غیر قانونی طور پر بھیجی جانے والی گائے اور بھینسوں کو بچایا جا سکا ہے۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ۶ لاکھ ۷۴ جانوروں کو غیر قانونی منتقلی سے بچایا گیا ہے۔ بڑی مستعدی سے ہمارے ملک کی سرحدی فوج (بی یس ایف) نے یہ کام کیا ہے۔ ۲۰۱۶ میں ہماری سرحدی فوج (بی ایس ایف) نے ایک لاکھ ۶۸ ہزار ۸۰۱ جانوروں کو بچایا گیا تھا وہیں جولائی ۲۰۲۰ میں اس نے محض ۴۵ ہزار گائے کو غیر قانونی منتقلی سے بچایا۔
جیسے ہی گائے کی برآمدات پر پابندی لگی ہمارے ملک کے ذرائع ابلاغ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سنگھی ٹولے کی بھی باچھیں کھل گئیں گویا ان کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا ہو۔ اس پابندی سے جہاں بنگلہ دیش میں گائے کے گوشت کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا وہیں ہمارے ملک میں چمڑے کی صنعت کو گہن لگ گیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر سنگھی میڈیا اور آئی ٹی سیل ایک دوسرے کو خوشی کے پیغامات ارسال کرنے لگے اور بھارت کی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگے کہ کیسے ایک پابندی نے پڑوسی ممالک کو پریشان کر دیا ہے لیکن اب اس کے بُرے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔
اس کا سب سے پہلا دھکا ملک کی پھل پھولنے والی چمڑے کی صنعت کو پہنچا ہے۔ بھارت بین الاقوامی سطح پر چمڑے کی صنعت میں بڑے ممالک کی صف میں شامل تھا اور جوتے بنانے اور مختلف چمڑے سے بننے والی اشیا کو عالمی سطح پر برآمد کرتا تھا۔ بھارت چمڑے کی صنعت کی عالمی تجارت میں ایک بڑا حصہ ادا کرتا تھا۔ عالمی پیداوار کا ۱۰ فی صد حصہ ہمارے ہی ملک کا ہوتا تھا جس کا تخمینہ تقریباً ۱۳ بلین ڈالر ہے وہیں ہمارے ملک میں اس صنعت سے وابستہ افراد کی تعداد ۲۵ لاکھ سے زیادہ ہے۔
۲۰۱۳ تا ۲۰۱۴ میں ملک کی چمڑے کی برآمدات میں ۱۸ فیصد کا اضافہ درج کیا گیا لیکن محض ایک سال بعد اس کی برآمدات میں ۵۰ فیصد کی کمی واقع ہو گئی یعنی وہ گھٹ کر ۹ فیصد رہ گئی۔ ۲۰۱۵ اور ۲۰۱۶ میں امریکہ، یورپ، ہانگ کانگ اور چین کو چمڑے کی برآمدات ۶ بلین کو چھو گئی تھیں جو ایک سال بعد گھٹ کر ۵ اشاریہ ۶ بلین ڈالر ہو کر رہ گئی۔ تجارتی ذرائع کے مطابق ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۷ کے دوران برآمدات میں ۱۹ فیصد کمی درج کی گئی۔ یہ سارے نقصانات محض گائے کی برآمدات پر پابندی کے نتیجہ میں ہوئے ہیں جس کا راست فائدہ چین کو ہوا۔ اطلاعات کے مطابق چینی برآمدات میں ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۷ میں ۳ فیصد اضافہ درج کیا گیا ہے اور اس میں مزید اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح ہمارے ملک نے چین کی بھی در پردہ مدد کی اور اسے معاشی طور پر مضبوط بنانے کا کام کیا ہے۔
نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں نے چین کے ساتھ بنگلہ دیش کو بھی فائدہ پہنچایا ہے۔ بنگلہ دیش نے شعبہ مویشی پالن اس قدر ترقی دے کی ہے کہ وہ اس شعبہ میں خود کفیل ہو گیا ہے اس کی درآمدات پر انحصاری تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ میں باقاعدگی سے اس بات کو پیش کیا جا رہا ہے کہ کیسے ان کے ملک نے مویشیوں کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کا انحصار محض برآمدات پر تھا۔ اس نے کمزوری پر قابو پاتے ہوئے اپنے طور پر گائے اور بھینس کے گوشت کی مانگ کو پورا کرلیا ہے۔ اب اسے بھارت سے مویشی درآمد کرنے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کی قوت خرید مستقل طور پر بڑھتی رہی اب بنگلہ دیشی عوام اپنے ملک میں تیار شدہ دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کا ہی زیادہ استعمال کر رہے ہیں جو کچھ سالوں پہلے تک درآمد کیا جاتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش میں گوشت کی سالانہ طلب ۱۱ ملین میٹرک ٹن ہے۔ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے اس وقت پورے بنگلہ دیش میں ۶ لاکھ مویشی پالن کے مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں جانوروں کو پالنے کے لیے ہر طرح کی سہولتیں دی گئی ہیں اور جن میں گائے اور بھینسوں کی کل تعداد ۱ کروڑ ۱۵ لاکھ سے بھی زیادہ ہے ۔۔ اس طرح بنگلہ دیش نے اپنے مویشی پالن پروگرام کو کافی مضبوط کیا ہے اور وہ اس شعبہ میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ اس وقت وہ بیرون ملک دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء کی برآمد پر غور کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں یہ مقالے شائع ہو رہے ہیں اور بھارت کا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ اس نے مویشیوں کی برآمد پر پابندی عائد کی۔
ایک سوال لامحالہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے باشعور اور طاقتور پالیسی ساز جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت جلد ہی ۵ کھرب (ٹریلین) ڈالر کی معیشت والا ملک بن جائے گا، انہوں نے ملک کی عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کو ایک عظیم معیشت بنانے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ کیسے سمجھ لیا تھا کہ وہ مویشیوں کی برآمدات پر پابندی لگا کر اپنا ہدف حاصل کر سکتے ہیں، کیسے وہ پابندی کے دور رس بُرے نقصانات کا اندازہ لگانے میں ناکام ہو گئے؟ برآمدات پر پابندی کی حمایت کرنے والوں کا منافقانہ طرز عمل یہ ہے کہ وہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ انسانی اور معاشی دونوں ہی سطحوں پر جو بھی ضروری ہے بھارت کو مویشی پالن کے مراکز کی حفاظت کرنا چاہیے اور اسے مزید مستحکم کرنا چاہیے اور دوسری طرف وہ پابندی کی بھر پور حمایت کرتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں باتیں ایک ساتھ چل سکیں؟ اگر وہ اپنے قول میں سچے ہوتے تو ملک میں آج گائیوں کی یہ حالت نہ ہوتی، انہیں بازاروں میں یا کھیتوں میں لانے پر لاٹھیوں سے پیٹا نہیں جاتا انہیں لاوارث چھوڑا نہیں جاتا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر گائیں چارے کے لیے کچرے کے ڈھیر پر نظر آتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں لاوارث گائیوں کی تعداد لگ بھگ ۴۵ لاکھ ہے جو سڑکوں پر پھرتی ہیں اور کھیتوں میں گھس کر کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیتی ہیں۔ محض جذباتی بیان بازیوں سے کسی بھی مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں محض چند گوشالاوں کو قائم کرنے سے مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کرے، کوئی ٹھوس طریقہ کار بنائے اور اس مسئلہ کا دائمی حل نکالے۔
اس پابندی نے جہاں ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے وہیں ۲۵ لاکھ لوگوں کے روزگار کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اس صنعت سے خاص طور پر دلت سماج اور مسلمان وابستہ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ مودی حکومت جسے ہندو احیا پرست تنظیموں کی پشت پناہی حاصل ہے جن کا مقصد سماج کو مذہبی بنیادوں پر بانٹ کر رکھنا اور دلتوں کو دبا کر رکھنا ہے، کہیں یہ اقدام اسی کی ایک کڑی تو نہیں؟
***
ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں لاوارث گائیوں کی تعداد لگ بھگ ۴۵ لاکھ ہے جو سڑکوں پر پھرتی ہیں اور کھیتوں میں گھس کر کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیتی ہیں۔ محض جذباتی بیان بازیوں سے کسی بھی مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں محض چند گوشالاوں کو قائم کرنے سے مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کرے، کوئی ٹھوس طریقہ کار بنائے اور اس مسئلہ کا دائمی حل نکالے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021