کیریر گائیڈنس: ہندوستان کی جعلی جامعات
ڈاکٹر سلمان عابد ،حیدرآباد
جہاں ہندوستان کو اعلیٰ تعلیمی معیاری اداروں کے قیام اور ان سے منسوب کارناموں کا اعزاز حاصل ہے وہیں اس ملک کی کئی ریاستوں کے کئی شہر ایسے تعلیمی اداروں کے قیام کے بھی حامل ہیں جنہیں کوئی منظوری حاصل نہیں یا جنہیں جعلی یافرضی یا غیر منظورشدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسا کسی فرضی ادارے نے نہیں کی اور نہ ہی کسی خانگی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کیا ہے بلکہ ملک کے ایسے ادارے نے یہ بات بہ بانگ دہل کہی ہے جس کے اختیار میں ہندستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی نگرانی اور مالیات کی فراہمی کا حق و اختیار حاصل ہے اور وہ ہے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایسا پہلی بار کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ ہر سال یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے ایسی مکمل فہرست اسی کی ویب سائٹ پر جاری کی جاتی ہے، آویزاں کی جاتی ہے اور مشتہر کی جاتی ہے۔ تو پھر اس مرحلے پر ایک اور بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں گزشتہ دو تین دہوں سے اس فہرست کی اجرائی کا صرف رواج جاری ہے اور اس میں بہت تھوڑا اضافہ ہوتا ہے مگر جو فہرست آج سے تقریباََ دو دہوں قبل جاری کی گئی جس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔ یہاں پہنچ کر ہم بھی لا جواب ہو جاتے ہیں اور اس سوال کا جواب بھی صرف مرکزی وزارت تعلیم، مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن وغیرہ کے پاس ہی ہے۔ بہرحال یہ تسلیم کہ ملک میں ایسے کوئی 23 جامعاتی سطح کے ادارے نہ صرف قائم ہیں بلکہ یہ اپنے قیام میں اب بہت ہی سینئر ہو چکے ہیں۔ ان میں طلبا داخلہ بھی لیتے ہیں ان کے کورسس بھی چلتے ہیں اور یہاں سے ہر سال فارغ التحصیل بھی بڑی تعداد انسانی وسائل کی ہوتی جارہی ہے۔ اور ظاہر ہے ان کی کھپت بھی تو روزگار مارکیٹ میں کہیں نہ کہیں ہوتی ہی ہوگی۔
اب اس سال 7 اکتوبر 2020 میں بھی ایک ایسی ہی فہرست جاری کی گئی ہے کہ بڑی تعداد میں فرضی ادارے کام کر رہے ہیں اور طلبا کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان میں داخلہ ان کی اپنی صوابدید پر ہوگا۔ جملہ 25 جامعات کو منظوری نہیں ملی ہے اور جملہ 279 فنی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جنہیں کسی بھی طرح کی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ملک کی کئی ریاستیں ان میں سر فہرست ہیں ان میں پہلی ریاست اتر پردیش ہے اور دوسری ریاست دلی ہے جو ملک کا صدر مقام ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے آویزاں کی گئی اس فہرست میں اپنی اپنی ریاستوں کے ناموں کے ساتھ شامل بعض اداروں پر وہاں کی ریاستیں متعجب بھی ہیں کیوں کہ ان میں سے کئی ادارے تو بہت پہلے ہی بند ہوچکے اور بعض عرصہ دراز سے غیر کارکرد ہیں مگر ان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک اہم سوال ہے جس کا جواب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے پاس ہونا چاہیے۔ ہمیشہ کی طرح یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے اس سال نئے اکیڈیمک سیشن کے آغاز کے ساتھ ایسی فہرست جاری کی ہے اس مقصد کے ساتھ کہ طلبا ایسے فرضی اداروں سے دور رہیں اور ساتھ ہی متعلقہ ریاستی حکومتوں کو اس جانب کارروائی کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ دوسری طرف ریاست بہار نے بھی اپنا احتجاج درج کروایا ہے کہ پہلے ہی وہ کئی ایسے معاملات میں ریاست کی نیک نامی کو متاثر کرنے کی کوششوں کے تدارک کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور ایسے تعلیمی اداروں کے خلاف اقدامات بھی کیے گئے ان میں سے کئی نام اب ختم بھی ہوچکے ہیں مگر پھر بھی ان کے نام یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے جاری فہرست میں درج ہونے پر انہیں تعجب ہے۔ دوسری طرف مہاراشٹر کی اکلوتی یونیورسٹی جس کا نام فہرست میں رکھا گیا ہے وہ رضا عربک یونیورسٹی ناگپور ہے جو ایک دینی مدرسہ کے طور پر کام کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اس دینی مدرسہ کے مولانا محمود رضوی خان نے ایک اخبار کو بتایا کہ وہ 240 طلبا کے ساتھ ایک دینی اقامتی مدرسہ ہے جسے یونیورسٹی بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سینٹ جان یونیورسٹی جس کا فہرست میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مقام کشن نٹم بتایا گیا ہے جس کا وجود ہی نہیں۔ مغربی بنگال میں واقع دو نام جن میں سے ایک ادارہ اپنا نام تبدیل کر کے متبادل طبی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہے اور دوسرا ادارہ اب بھی کار کرد ہے۔ اسی دوران وزارت فروغ انسانی وسائل کی جانب سے تمام ریاستوں کو حکمنامے جاری کیے گئے ہیں کہ وہ ایسے تمام فرضی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کریں اور اپنی رپورٹ وزارت کو پیش کریں۔
ریاستوں کی اساس پر فرضی یونیورسٹیوں اور فنی تعلیمی اداروں کی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فہرست:
بہار
۱۔مایتھلی یونیورسٹی وشوا ودیالیہ، دربھنگہ ، بہار۔
دہلی
۲۔ کمرشیل یونیورسٹی لمیٹیڈ۔دریا گنج، دلی۔
۳۔یونائیٹیڈ نیشنس یونیورسٹی ، دلی۔
۴۔وکیشنل یونیورسٹی ، دلی۔
۵۔اے ڈی آر۔ سنٹر ل جیوریڈیکل یونیورسٹی۔اے ڈی آر ہاوز۔راجندر پلیس، نئی دلی۔
۶۔انڈی
ن انسٹی ٹیوٹ آف سائینس اینڈ انجنئیرنگ، نئی دلی۔
۷۔وشواکرما اوپن یونیورسٹی فار سیلف ایمپلائمنٹ۔ روزگار سیواسدن، دلی۔
۸۔ادھیاتمک وشوودیالیہ(اسپرچول یونیورسٹی)،رتھالہ روہنی، دلی
کرناٹکا:
۹۔بداگانوی سرکار ورلڈ اوپن یونیورسٹی ایجوکیشن سوسائیٹی۔ بلگام۔
کیرالا
۱۰۔سینٹ جانس یونیورسٹی۔کشنٹم، کیرالا۔
مہاراشٹرا
۱۱۔ رضا عربک یونیورسٹی ، ناگپور، مہاراشٹرا۔
مغربی بنگال
۱۲۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف آلٹرنیٹیو میڈیسن، کولکتہ۔
۱۳۔ انسٹی ٹیوٹ آف آلٹرنیٹیو میڈیسن اینڈ ریسرچ،ڈائمنڈ ہاربر روڈ۔ٹھاکر پرکر، کولکتہ۔
اتر پردیش
۱۴۔ورنا سیوا سنسکرت وشواودیالیہ، واراناسی،جگت پوری ، یوپی۔
۱۵۔مہیلا گرام ودیا پیٹھ،وشواودیالیہ،ویمنس یونیورسٹی ، پرایاگ، الہ آباد،
۱۶۔گاندھی ودیا پیٹھ، پرایاگ، الہ آباد، اتر پردیش،
۱۷۔نیشنل یونیورسٹی آف الیکٹروہومیوپتھی، کانپور، اترپردیش،
۱۸۔نیتا جی سبھاش چندرا بوس اوپن یونیورسٹی،اچھل تل، علی گڑھ،
۱۹۔اتر پردیش وشواودیالیہ، کوشی کلان،متھرا، اتر پردیش،
۲۰۔مہارانا پرتاپ شکشا نیکیتن،وشواودیالیہ، پرتاپ گڑھ، اتر پردیش۔
۲۱۔اندرا پرشٹھا شکھشا پریشد،کھوڈا، مکان پور، نوئیڈا فیس ۲۔اتر پردیش،
اڈیشہ
۲۲۔نبا بھارت شکھشا پریشد،پانی ٹینکی روڈ، روڑکیلا،
۲۳۔نارتھ اڑیسہ یونیورسٹی آف اگریکلچر اینڈ ٹکنالوجی۔اڈیشہ
پڈوچیری
۲۴۔سری بودھی اکیڈیمی آف ہائر ایجوکیشن۔وزوتھاور روڈ،پڈوچیری
آندھرا پردیش
۲۵۔کرائسٹ نیو ٹسٹامنٹ ڈیمڈ یونیورسٹی،گریس ولا اپارٹمنٹس،سری نگر، گنٹور۔
نوٹ: بھارتیہ شکھشا پریشد لکھنو کا معاملہ ڈسٹرکٹ جج لکھنو کے حدود میں زیردوراں بتا یا گیا ہے۔
www.ugc.ac.in
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020