کیرلا میں کمیونسٹ اقتدارکی برقراری کی قیاس آرائیاں؟

بی جے پی کی جیت کے دور دور تک امکانات نہیں۔۔مگر ’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘

مظاہر حسین عماد قاسمی ،کیرلا

کیرلا ایک ایسی ریاست ہے جہاں کبھی کوئی پارٹی اپنے دم پر حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہاں دنیا کی سب سے پہلی منتخب کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی۔ یکم نومبر 1956 میں کیرلا کی تشکیل کے بعد مارچ 1957 میں پہلا اسمبلی انتخاب ہوا اور اس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ایک سو چھبیس رکنی اسمبلی میں ساٹھ سیٹیں حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور ای ایم ایس نمبودری پد کی قیادت میں کیرلا کی پہلی حکومت قائم ہوئی۔ مگر یہ حکومت آپسی رسہ کشی اور مرکز کی کانگریسی حکومت کے سوتیلے پن کی وجہ سے اپنی پانچ سالہ میعاد مکمل نہ کرسکی۔ دوسری اور تیسری اسمبلی بھی وقت سے پہلے تحلیل کر دی گئی تھی۔ دوسری اسمبلی تقریباً چار سال کی تھی جس میں دو سال پرجا سوشلسٹ پارٹی کے اور دو سال کانگریس کے وزیر اعلیٰ تھے۔ تیسری اسمبلی میں دو سال آٹھ ماہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے اور نو ماہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے وزیر اعلیٰ تھے البتہ چوتھی اسمبلی سات سال اسی دن کی تھی۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور 1975 تا 1977 پورے بھارت میں کہیں بھی کوئی انتخاب نہیں ہوا تھا۔ چار اکتوبر 1970 تا ستائیس اکتوبر 1977 کیرلا میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا وزیر اعلیٰ تھا اور کانگریس اس کی حمایت کر رہی تھی۔ پانچویں اسمبلی بھی ڈھائی سال تک ہی چلی اس مدت میں ایک سال سات ماہ کانگریس کے، گیارہ ماہ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اور پچاس دن آل انڈیا یونین مسلم لیگ کے وزیر اعلیٰ نے حکومت کی تھی۔ چھٹی اسمبلی بھی دو سال دو ماہ ہی چلی۔ پچیس جنوری 1979 تا 17/ مارچ 1982 کے درمیان والی اس اسمبلی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے ایک سال نو ماہ اور کانگریس نے صرف اناسی دنوں تک حکومت کی تھی۔ 1982 تک آتے آتے کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور سی پی آئی ایم کی قیادت میں لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ مضبوط ہو چکا تھا اس لیے 1982 کے بعد تمام انتخابات چار یا پانچ سال پر ہونے لگے۔ نویں اسمبلی کا انتخاب 1992 کے بجائے 1991 میں ہی ہو گیا تھا۔ 1991 سے اب تک مسلسل ہر پانچ سال کے بعد انتخابات ہو رہے ہیں۔ 1982 سے قبل تک دونوں پارٹیوں کے پاس اتحاد نہیں تھا یا اتحاد مضبوط نہیں تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) بھی 1982 سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کے ساتھ ہے۔ بیس اکتوبر تا اکیس نومبر 1962 میں ہوئے ہند-چین جنگ کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا دو حصوں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) میں تقسیم ہو گئی تھی۔ کیرلا، بنگال اور تری پورہ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ زیادہ مضبوط ہے جبکہ دیگر صوبوں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) مضبوط ہے۔ عمومی طور پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) سے زیادہ مضبوط ہے ۔
کیرلا میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ سب سے بڑی پارٹی ہے، اس کے بعد کانگریس کا نمبر آتا ہے۔ تیسرے نمبر پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ہے اور چوتھے نمبر پر مسلم لیگ ہے۔ مسلم لیگ 1982 سے مضبوطی کے ساتھ کانگریس کے ساتھ ہے، اس سے قبل وہ کبھی کانگریس کے ساتھ رہتی تھی تو کبھی کمیونسٹ کے ساتھ۔
حکومت کی تبدیلی
1982 سے ہر پانچ سال پر حکومت تبدیل ہو جاتی ہے۔ پانچ سال کانگریس کی قیادت والے یو ڈی ایف کی تو پانچ سال کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کی قیادت والے ایل ڈی ایف کی۔
کیا چالیس سالہ تاریخ کا تسلسل باقی نہیں رہے گا؟
2016 سے یہاں کمیونسٹ حکومت قائم ہے اور 2021 تا 2026 کانگریس اتحاد کی باری ہے مگر کانگریس کے مسلسل زوال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ 2021 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اتحاد حکومت حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ چھ ماہ قبل ہوئے پنچایت انتخابات کے نتائج بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
یہاں ہمیشہ اسمبلی انتخابات سے چھ ماہ قبل پنچایت انتخابات ہوتے ہیں، ان انتخابات میں بھی تقریبا ساٹھ اور چالیس کا حساب ہوتا ہے، اگر کسی پنچایت انتخاب میں پنچایت کی پچپن تا ساٹھ فیصد سیٹیں کمیونسٹ اتحاد کو ملتی ہیں تو پینتیس تا چالیس فیصد سیٹیں کانگریس اتحاد کو ملتی ہیں اور پانچ سال کے بعد پچپن تا ساٹھ فیصد سیٹیں کانگریس اتحاد کو ملتی ہیں تو پینتیس تا چالیس فیصد کمیونسٹ اتحاد کو۔
مثلاً نومبر 2010 میں کل 978 گرام پنچایتوں میں سے کانگریس اتحاد کو 513 (54.51 فیصد) اور کمیونسٹ اتحاد کو 322 (34.22 فیصد) گرام پنچایتوں میں اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ دو پنچایتوں میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی بقیہ 141 پنچایتوں میں دیگر غیر معروف پارٹیوں کا غلبہ تھا۔ نومبر 2015 کے پنچایت الیکشن میں کل 941
گرام پنچایتوں میں سے کانگریس اتحاد نے 365 (38.79 فیصد) گرام پنچایتوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور کمیونسٹ اتحاد نے 549 (58.34 فیصد) گرام پنچایتوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
نومبر 2020 کے پنچایت الیکشن میں کل 941 گرام پنچایتوں میں سے کانگریس اتحاد نے صرف 321 (34.11 فیصد) گرام پنچایتوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور کمیونسٹ اتحاد نے 514 (54.62 فیصد) گرام پنچایتوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ اس بار کانگریس اتحاد کو پچپن فیصد گرام پنچایتوں پر قبضہ کرنا چاہیے تھا۔ نومبر 2020 کے پنچایت انتخابات میں کانگریس کو متوقع کامیابی نہیں ملی اس لیے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ جس طرح کمیونسٹ اتحاد نے پنچایت انتخابات میں 2015 والی کامیابی کو 2020 کے پنچایت الیکشن میں باقی رکھا ہے اسی طرح 2016 کے اسمبلی انتخابات کی کامیابی کو 2021 کے اسمبلی انتخابات میں بھی باقی رکھ پائے گی۔
2011 کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس اتحاد نے صرف بہتر سیٹیں حاصل کی تھیں اور کمیونسٹ اتحاد نے اڑسٹھ، کیرلا اسمبلی کی کل 141 سیٹیں ہیں، 140 پر انتخاب ہوتا ہے اور ایک سیٹ اینگلو انڈین کمیونٹی کے لیے نامزد کی جاتی ہے ۔
2016 کے انتخابات میں کانگریس اتحاد کو صرف 47 سیٹیں ملیں تھی جن میں کانگریس کی بائیس اور مسلم لیگ کی اٹھارہ سیٹیں تھیں، چھ سیٹیں کیرلا کانگریس مانی کی تھیں۔
اس بار کیرلا کانگریس مانی نے لیفٹ کا دامن تھام لیا ہے اس لیے بھی لیفٹ زیادہ پر امید ہے۔ یہاں کیرلا کانگریس نام کی کئی پارٹیاں ہیں۔ 1964کے قریب مشہور کانگریسی لیڈر کے ایم جارج نے کانگریس سے الگ ہو کر کیرلا کانگریس قائم کی تھی، کیرلا کانگریس کو کیرلا کے بعض عیسائی لیڈروں نے زندہ رکھا ہے اور پھر کیرلا کانگریس کے لیڈر الگ ہوتے رہے اور ہر ایک نے اپنا گروپ بنالیا اور ہر ایک کے گروپ کو ان کے نام کے ساتھ پہچانا جاتا ہے۔ کیرلا کانگریس مانی، کیرلا کانگریس جوزف، کیرلا کانگریس جیکب وغیرہ۔ ان میں سے کچھ یو ڈی ایف کے ساتھ ہیں تو کچھ ایل ڈی ایف کے ساتھ، ان میں سب بڑی بارٹی کیرلا کانگریس مانی ہے۔ اسے پانچ تا دس سیٹیں ملتی رہی ہیں بقیہ کو ایک دو سیٹیں ملتی ہیں۔کیرلامیں چھبیس فیصد مسلمان اور انیس فیصد عیسائی ہیں، چھ شمالی اضلاع میں ستر تا پچیس فیصد مسلمان ہیں اور تین تا دس فیصد عیسائی۔ آٹھ جنوبی اضلاع میں چھ تا بیس فیصد مسلمان ہیں اور بیس تا پچاس فیصد عیسائی۔ جنوب کے چار اضلاع میں چالیس فیصد سے زیادہ عیسائی ہیں اور وہاں ہندو پچاس فیصد سے کم ہیں۔ یہاں عیسائی انیس فیصد ہی ہیں مگر سیاست میں ان کا غلبہ تیس فیصد سے زیادہ ہے وہ مسلمانوں کا بھی حق لے لیتے ہیں، اے کے انٹونی اور اومن چنڈی دونوں کانگریسی لیڈر عیسائی ہیں۔ ان دونوں نے بارہ سال سے زیادہ کیرلا پر حکومت کی ہے جبکہ کانگریسیوں کے آپسی جھگڑوں کے سبب مسلم لیگ کے سی ایچ محمد کویا کو بارہ اکتوبر 1979 تا یکم دسمبر 1979 پچاس دنوں کے لیے ہی سہی وزیر اعلیٰ بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔
کیا ہوگا 2021کا نتیجہ؟
مسلسل دو لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو دس فیصد بھی سیٹیں نہیں ملی ہیں۔ پورے ملک میں کانگریسی ووٹ مسلسل بی جے پی کی طرف منتقل ہو رہا ہے، کچھ لوگ اسے ای وی ایم کا کرشمہ بھی بتاتے ہیں۔ کانگریس نے اپنا سیکولرزم دھرم نبھاتے ہوئے بی جے پی کو بھی پھلنے پھولنے کی مکمل آزادی دے رکھی تھی، وہ بی جے پی پڑھے لکھے واجپئی اور اڈوانی کی تھی اب بی جے پی بدلی ہوئی ہے اور وہ کانگریس کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی۔ وہ اپنے اوپر کیے گئے کانگریس کے تمام احسانات کو بھول چکی ہے۔ اسے صرف کانگریس کے مسلمانوں پر کیے گئے احسانات یاد ہیں اور وہ تمام سیکولر لیڈروں اور تمام سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کا خادم سمجھ رہی ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اور سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کا مسیحا اور مددگار ثابت کر کے ہندو ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
کیرلا میں اکثریتی طبقہ کے ووم صرف پچپن فیصد ہیں۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کل ساڑھے دس فیصد ووٹ ملے تھے اور اس کے اتحادی بھارتیہ دھرما جن سینا کو چار فیصد۔ بی جے پی نے 98 اور بھارتیہ دھرما جن سینا نے 36 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا بقیہ چھ سیٹوں پر بی جے پی نے دوسری چھوٹی پارٹیوں کی مدد کی تھی اور کیرلا میں پہلی بار بی جے پی کو ایک سیٹ ملی تھی جبکہ اس کے تمام اتحادی پوری طرح ناکام رہے تھے۔
اگر ہم مان لیں کہ کیرلا میں بی جے پی کے تمام ووٹر ہندو ہیں تو ساڑھے دس فیصد ووٹوں کے تناسب سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ ریاست میں اکثریتی طبقہ کے تقریباً اٹھارہ فیصد افراد بی جے پی کے ووٹر ہیں۔گجرات جہاں مسلسل پچیس سالوں سے بی جے پی کی حکومت ہے وہاں 2017 میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو انچاس فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ وہاں ساڑھے اٹھاسی فیصد ہندو ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ گجرات میں اکثریتی طبقہ کی قابل لحاظ تعداد بی جے پی کی ووٹر نہیں ہے۔ اکثر مبصرین کی رائے کے مطابق بی جے پی ای وی ایم کے سہارے شمالی ہند میں کامیاب ہوتی رہی ہے اور صرف پانچ تا دس فیصد ووٹ بڑھا کر ساٹھ تا اسی فیصد سیٹیں حاصل کرتی رہی ہے (2017 کے یو پی اسمبلی انتخابات میں شاید ای وی ایم میں کچھ زیادہ گھپلا ہو گیا تھا اس کے بعد سے اتنا ہی گھپلا ہو رہا کہ بی جے پی کی حکومت بن جائے اور اگر یہ گھپلا کامیاب نہ ہو تو غلاموں کی طرح ممبران اسمبلی کو خرید لیا جائے)۔کہا جارہا ہے کہ بھگوا پارٹی کیرلا میں کچھ سیٹوں پر اپنے لیے گھپلا کرے گی اور زیادہ تر سیٹوں پر کمیونسٹوں کے لیے ہیر پھیر کرے گی، بی جے پی کی پہلی دشمن کانگریس ہے اس لیے کہ وہی بی جے پی کو ہرا سکتی ہے۔ یہاں کیرلا میں بی جے پی کا ووٹ صرف دس فیصد ہے۔ کسی بھی سروے کے مطابق اسے سات سیٹوں سے زیادہ سیٹیں نہیں مل رہی ہیں مگر تمام سروے بتارہے ہیں کہ کمیونسٹ اتحاد ایل ڈی ایف کو اکثریت حاصل ہو رہی ہے۔
2019 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کو کل بیس نشستوں میں سے انیس سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، سولہ کانگریس، دو مسلم لیگ اور ایک کیرلا کانگریس مانی کو مگر پنچایت انتخابات میں متوقع کامیابی نہیں ملی۔ کانگریس مانی اب لیفٹ کے ساتھ لوک سبھا نتائج کو دیکھتے ہوئے یو ڈی ایف پر امید ہے اور پنچایت انتخابات کے نتائج کے دیکھتے ہوئے ایل ڈی ایف پر امید ہے۔
چلیے تین مئی کا انتظار کرتے ہیں۔ دعا کریں کہ ملک کا بھلا چاہنے والی پارٹیاں کامیاب ہوں اور اچھی پارٹیوں کو مخلص اور کام کرنے والے افراد ملیں۔
***

کیرلامیں چھبیس فیصد مسلمان اور انیس فیصد عیسائی ہیں، چھ شمالی اضلاع میں ستر تا پچیس فیصد مسلمان ہیں اور تین تا دس فیصد عیسائی۔ آٹھ جنوبی اضلاع میں چھ تا بیس فیصد مسلمان ہیں اور بیس تا پچاس فیصد عیسائی۔ جنوب کے چار اضلاع میں چالیس فیصد سے زیادہ عیسائی ہیں اور وہاں ہندو پچاس فیصد سے کم ہیں۔ یہاں عیسائی انیس فیصد ہی ہیں مگر سیاست میں ان کا غلبہ تیس فیصد سے زیادہ ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021