کیجریوال سرکار نے جے این یو بغاوت کے معاملے میں مقدمہ چلانے کی منظوری دی، کنہیا اور عمر نے کہا کہ ٹرائل حکومت اور میڈیا کو بےنقاب کرے گا اور ہم جیت جائیں گے

نئی دہلی، فروری 28— وزیر اعلی اروند کیجریوال کی دہلی حکومت نے جمعہ کے روز سٹی پولیس کو جے این یو ایس یو کے سابق صدر کنہیا کمار اور یونیورسٹی کے سابق اسکالرز عمر خالد اور انیربن کے خلاف سنہ 2016 کے ایک بغاوت کے کیس میں مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی۔ فائل 5 مئی 2019 سے دہلی حکومت کے محکمہ داخلہ کے پاس ہے۔

پولیس نے ان پر ملک بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ان طلبا رہنماؤں نے کچھ ملک دشمن نعرے لگائے تھے۔ واضح رہے کہ ان طلبا رہنماؤں نے پہلے دن سے ہی ان الزامات کی تردید کی ہے۔

کنہیا اور عمر دونوں کو فروری 2016 کے واقعہ کے کچھ دن بعد گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں دہلی ہائی کورٹ نے انھیں رہا کردیا تھا۔

جے این یو کے بغاوت کیس میں کیجریوال حکومت کے قانونی چارہ جوئی کی اجازت دینے کے فیصلے کے بعد کنہیا اور عمر دونوں اپنے تاثرات کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

کنہیا نے ہندی میں ٹویٹ کیا ’’دہلی حکومت کا شکریہ کہ انہوں نے ملک سے بغاوت کے مقدمے کی اجازت دی۔ میں دہلی پولیس اور سرکاری وکیل سے درخواست کرتا ہوں کہ اب اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں، فاسٹ ٹریک عدالت میں تیزی سے مقدمے کی سماعت یقینی بنائی جائے اور ٹی وی چینلز کے ’’آپ کی عدالت‘‘ کے بجائے قانون کی عدالت میں انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ ستیہ میو جیتے (سچائی جیت جائے گی)۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’بغاوت کے معاملوں میں فاسٹ ٹریک عدالتوں میں اور جلد مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو یہ معلوم ہوسکے کہ سیاسی فوائد کے لیے اور لوگوں کو ان کے بنیادی معاملات سے بھٹکانے کے لیے اس پورے معاملے میں کیسے بغاوت کے قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔‘‘

عمر خالد نے بھی ایک بیان جاری کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ انیربن کا بھی بیان ہے۔

انھوں نے کہا ’’دہلی حکومت کے ہمارے خلاف بغاوت کے مقدمے کی اجازت دینے کی خبروں سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی بے گناہی پر اعتماد ہے، عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے اور خود ہی ہم مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمارے خلاف مقدمہ عدالتوں میں چلایا جائے۔‘‘

عمر نے کہا کہ ’’عدالت میں مقدمے کی سماعت حکومت کے جھوٹ کو بے نقاب کرے گی۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’آنے والا ٹرائل ہمارے حق میں ثابت ہوگا اور یہ ثابت کرے گا کہ حکمران جماعت کے کہنے پر میڈیا ٹرائل جھوٹ، بدنیتی اور سیاسی طور پر حوصلہ افزا تھا۔ ہم بہت لمبے عرصے سے ان جھوٹے الزامات کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آخر سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا! اور جب ہم عدالت میں اپنا دفاع کریں گے تو ہم حکومت کے جھوٹ اور اس کے قوم پرست ہونے کے جعلی دعوؤں کو بے نقاب کریں گے۔‘‘

فروری 2016 کے واقعہ کے بعد کے دنوں میں ٹی وی چینلز نے طلبا رہنماؤں کے لیے اتنی معاندانہ صورت حال پیدا کردی تھی کہ دہلی عدالت کے احاطے میں ہجوم نے کنہیا پر حملہ کیا تھا۔