کیا ہندوستانہندو راشٹرہے؟

کیامجھےہندوستانی عدلیہ پراعتمادکرناچاہیے؟۔چیف جسٹس آف انڈیاکےنام کھلاخط

محترم جسٹس این وی رمنا!

امریکہ میں سی جے آئی سے ایک بھارتی صحافیہ کےدوٹوک سوالات
آزاد سوچ و فکر کی سر زمین ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آپ کا پرتپاک خیرمقدم ہے –
جیسا کہ ہم یہاں آپ کو سننے کے لیے جمع ہوئے ہیں ایسے موقع پر وائٹ ہاؤس، امریکہ کی سپریم کورٹ کے باہر اور دوسرے عوامی مقامات پر لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ یہ احتجاج اسقاط حمل کےمعاملہ پرسپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیا جارہا ہے۔
ایک احتجاج ہندوستانی برادری کی جانب سے سیاٹل میں بھی کیا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہندوستانی نژاد امریکیوں نے بوسٹن ،ڈلاس، سان فرانسسکو اور دیگر کئی مقامات پراحتجاج کیا۔ وہ سڑکوں پر اس لیے نکل آئے کیونکہ وہ اپنے ہی وطن ہندوستان میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات سے دل شکستہ ہیں۔
لیکن آپ کے لیے احتجاج کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ ہم ایک ایسے ملک سے ہیں جہاں احتجاج، دھرنے اور مرن برت معمول کی بات ہے۔ مہاتما گاندھی نے ہمیں پرامن احتجاج کی راہ دکھائی ہے، اسی کی بدولت ہمارے وطن عزیز ہندوستان کو آزادی حاصل ہوئی۔
لیکن امریکہ اور ہندوستان میں ہونے والے احتجاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہاں احتجاج کرنےوالوں کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ وائٹ ہاؤس/سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کرنے والوں کو ان کے گھر منہدم کیے جانے یا جیل میں ڈال دیے جانے یا پھر سرکار کی سرپرستی والے ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے کا خوف نہیں ہوتا۔
آج، جب آپ اور میں دونوں ہندوستان سے باہر ہیں اور آپ اپنے جج کی نشست پر براجمان نہیں ہیں۔ میں آپ سے آزادانہ انداز میں بات کرنا اور کچھ سوالات کرنا چاہتی ہوں۔ فلاڈیلفیا میں آپ نے جو کہا اس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی، یہ ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ دنیا کے تمام شہریوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ آزادی اور جمہوریت کو برقرار رکھنے اور اسے آگے بڑھانے کے لیے انتھک محنت کریں۔ اس کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے جدوجہد کی ہے۔
تیستا سیتلواد کی گرفتاری کے خوف ناک ویڈیوز آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ مبینہ طور پر بغیر وارنٹ کے تیستا کو گرفتار کیا گیا۔ وکیل سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ تیستا نے اپنی پوری جوانی، اپنی پوری زندگی جسمانی، سماجی اور جذباتی طور جھلسے ہوئے 2002 کےمتاثرین کےلیے وقف کردی۔ وہ اس راستہ کو کسی بھی وقت چھوڑ سکتی تھیں۔ بار بار کی ہراسانی اور زندگی کو لاحق خطرے سے خوف کھا کر وہ اس کام کو چھوڑ سکتی تھیں لیکن وہ رُکی نہیں کیونکہ وہ ایک دیانتدار اور یقین رکھنے والی خاتون ہیں۔ تیستا کی گرفتاری کے بعد پولیس افسر آر بی سری کمار کی گرفتاری عمل میں آئی جو وزیراعظم مودی کےنقاد رہے ہیں۔ سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ پہلے ہی ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جس سے وہ کبھی نہیں ملے تھے۔
2002 کے گجرات قتل عام کے ملزموں کے لیے یہ یقینی طور پر آسان ہو گا کہ یہ تینوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہیں کیونکہ زیادہ تر گواہ مر چکے ہیں، غائب ہوچکے ہیں یا انہیں خاموش کرادیا گیا ہے۔ ہندوستان کا نظام انصاف اعلیٰ ، طاقتور اہم عہدوں پر فائز لوگوں کو خوش رکھنے کا آرزومند کیوں ہوتا ہے؟ آپ ذکیہ جعفری کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے جوانصاف کےلیے لڑرہی ہیں۔ 2002میں ان کے شوہر اور دیگر افراد کو ان کے گھر میں قتل کیا گیا۔ ان کی درخواست چند روز قبل ہی خارج کر دی گئی تھی۔ ذکیہ کےلیے دوہری مصیبت آپ کی سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا جس کی بنا پر تیستا کی من مانی گرفتاری ہوئی، کیونکہ اعلیٰ ترین عدالت نے ذکیہ کی حمایت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ذکیہ کے فرزند نے مایوسی کےعالم میں جواب دیا کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں، اللہ، اس بات کو یقینی بنائے گا کہ انصاف کی بالادستی ہو۔ وہ پہلے ہی 20 سال انتظار کر چکے ہیں۔ آپ نے رواں سال اپریل میں کہا تھا کہ یہInstant Noddlesکا دور ہے، اس دور میں لوگ فوری انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ اس بدقسمت خاندان کے لیے 20 سال طویل، اذیت ناک، ذلت آمیزاور خطرناک رہے۔
ذاتی طور پر میں خدا پر زیادہ یقین نہیں رکھتی ہوں۔ میں نہیں سمجھتی کہ انصاف رسانی کےلیے بلند و بالا جنت سے خدا زمین پرآئیں گے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ذکیہ جعفری کو انصاف ملا ہے؟
ہندوستان میں ہر ہفتہ ریاستی سرپرستی میں تشدد کا بازار گرم ہوتا ہے۔ دو ہفتے قبل، دنیا نے نوجوان کارکن آفرین فاطمہ کی والدہ کے گھر کو دن کےاجالے میں مسمار ہوتے دیکھا، ان کے والد کے نام پر پرانی تاریخ پرایک بوگس نوٹس جاری کیا گیا۔
ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مسلمانوں کے درجنوں مکانات اور کاروباری اداروں پر بلڈوزر چلایا گیا۔ کئی مسلم مظاہرین کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا، جن میں سے کچھ کو دو یا تین بار سیدھا ان کے سروں پرنشانہ لگایا گیا۔ خاندان تباہ ہو چکے ہیں، ایسے بچے جنہوں نے ابھی تک بولنا بھی شروع نہیں کیا ہے، انہیں غربت کی زندگی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے ٹویٹر پر احتجاج کیا اور کچھ خبریں بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہوئیں، لیکن سپریم کورٹ نے خاموشی سے یہ سب دیکھا۔ کیا آپ کی یہ خاموشی طاقتور مقتدر طبقہ کےلیے ہری جھنڈی نہیں ہے؟ کیا آپ کا خاموش رہناان کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں ہے؟
یہ بات آپ کی نظروں سے نہیں بچ سکتی کہ ہمارے ملک کا نام نہاد مین اسٹریم میڈیا اپنے پرائم ٹائم پروگراموں میں اپنامقدمہ خود چلاتا ہے، مقدمات آپ کی عدالتوں تک پہنچنے سے بہت پہلے ہی فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ گودی میڈیا کےاینکر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو، کیسے اور کتنا بولنا ہے۔ ان کے پلیٹ فارم سےجو کچھ بولا جاتا ہے وہ نفرت انگیز تقریرکی تعریف میں آتا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ میں آپ کے ایک معزز ساتھی نے کہا، ’’اگر آپ مسکراہٹ کے ساتھ کچھ کہہ رہے ہیں تو کوئی جرم نہیں ہے، اگر آپ جارحانہ انداز میں کچھ کہہ رہےہیں تویہ جرم کےزمرےمیں آتاہے۔‘‘
کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ جب بے سہارا مسلمانوں کے مکانات کو زمیں بوس کیا جا رہا تھا،ان کا قیمتی سامان حاصل کرنے کےلیے ان کا پیچھاکیاجارہا تھا۔ ایک سینئر صحافی نےازراہ مذاق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے ٹویٹر پر پوچھا کہ کیا وہ بلڈوزروں کی بڑھتی ہوئی مانگ کودیکھتےہوئے نیا JCB پلانٹ لگانے پر غور کر رہے ہیں؟ رواں سال کےاوائل میں، Genocide Watch نے ہندوستانی مسلمانوں کی نسل کشی کےمنصوبہ کےتعلق سےالرٹ جاری کیاتھا۔ اس عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنظیم کی قیادت ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کر رہے ہیں جنہوں نے روانڈا کی نسل کشی کی پیش گوئی کی تھی۔ اس سے پہلے وہ کم از کم دو بار ہندوستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکےہیں۔ کیا مسکراہٹ کے ساتھ نسل کشی کی کال دینا اور نسل کشی انجام دینا ٹھیک رہےگا؟
خالد سیفی کی اہلیہ نرگس سیفی تین چھوٹے بچوں کی ماں ہیں، خالد سیفی ایک سرگرم کارکن ہیں ، جھوٹے الزامات میں قید ہیں جن کی ابھی تک جانچ بھی نہیں ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی سوال کرتی ہے کہ وہ اپنے والد سے کیوں نہیں مل سکتی، جب وہ اپنےوالد کو دیکھتی ہے تو پولیس اسے کیوں گھسیٹتی ہے۔ خالد دو سال سے جیل میں ہیں۔ ان کی بیٹی مریم چھ سال کی تھیں جب انہیں گرفتارکیا گیا۔ نرگس ایک گرہست خاتون ہیں۔ اس کے شوہر کا چھوٹا کاروبارتھاجو اب بند ہے۔ انہیں بنیادی ضروریات کے لیےمشقت کرنی پڑتی ہے۔ خالد کو جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آپ کے خیال میں نرگس، مریم کو کیا بتائے؟ کیا آپ کو ان کےکیس کوپڑھنےکا موقع ملا؟ کیا آپ ننھی مریم کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ان کے والد کو انصاف ملے گا؟
کیا آپ نے عمر خالد کے بارے میں سنا ہے ‘ ایک روشن دماغ نوجوان کارکن، جس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ اور ہاتھوں میں کتابیں ہوتیں ہیں؟ وہ توڑ مروڑ کربنائےگئےایک ویڈیوکی بنیاد پر تقریباً دو سال سے جیل میں ہے۔اگر آپ نے وہ ویڈیو دیکھا تو آپ کو اس پر فخر ہوگا کیونکہ وہ اس دستاویز کی تعریف کر رہا تھا جسے وہ مقدس مانتا ہے،وہ ہے ہندوستان کا آئین۔ یہ وہی دستاویزہے جس کا آپ اور آپ کے ساتھی اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن عمر خالد جیل میں ہے، مسکرارہا ہے، پڑھ رہا ہے، انصاف کا منتظر ہے۔ آپ اپنے وقت میں خود ایک Student Activist رہے ہیں، شاید آپ اس کے محرکات، اس کی توانائی اور اس کی مثبت رہنے کی صلاحیت کااندازہ کرسکتےہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اسے ایک موقع نہیں ملناچاہیے؟
ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس کاعلم نہ ہو، کیوں کہ آپ گرمیوں کی چھٹیوں پر ہیں اور تفریح کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ کا حق ہے ۔ ہم یہاں جمہوریت اور انصاف کے بارے میں بات کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، گوتم نولکھا، رونا ولسن، وراورا راؤ، آنند تیلٹمبڈے، جی این سائی بابا، سدھیر ڈھاوے، شوما سین، ہنی بابو اور کتنے ہی نام ہیں جس سے صفحات بھرجائیں، یہ لوگ آج بھی جیل میں ہیں۔ دنیا انہیں ’’ضمیر کے قیدی‘‘ کہتی ہے۔ فادر اسٹین سوامی، ایک عیسائی پادری کو پینے کےلیے ایک Straw بھی فراہم نہیں کیا گیا، وہ رعشہ سےمتاثرہ اپنےجسم کوغذائیت فراہم کرنا چاہتے تھے، گزشتہ جولائی میں جیل میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کےلیے انصاف کی فراہمی میں ناکامی پردنیا کا سرشرم سے جھک گیا تھا۔
میں سوچا کرتی تھی کہ چین، روس وغیرہ ہی آمرانہ حکومتیں ہیں جہاں ضمیر کے قیدی مقید ہیں ہندوستان میں پیدا ہونا میں باعث فخر سمجھتی تھی۔ کیا اسےآزادی کہتے ہیں جو اختلاف رائے کی آزادی، طاقتور لوگوں اور اداروں پر نکتہ چینی کے بغیرہو؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دوسروں کو بھی فادر اسٹین جیسی قسمت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے؟ کیا سپریم کورٹ ان غلطیوں کو درست کرے گا؟
آپ نے بطور صحافی اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔ 2022ورلڈ فریڈم انڈیکس میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر (RSF) نے حال ہی میں ہندوستان کو 170 ممالک میں 150ویں مقام تک نیچے کردیا ہے؟ 2014سے اب تک 22 صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا؟ حیران کن طور پرہندوستان میں 2014 سے اب تک 22 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ یہ بڑے کارپوریٹ میڈیا گھرانے کے مشہور لوگ نہیں ہیں۔ یہ رپورٹر اور اسٹرنگر تھے جو گزر بسر کےلیے کچھ کما پاتے تھے۔ آصف سلطان، گلفشاں فاطمہ، فہد شاہ، صدیق کپن، سجاد گل، شرجیل امام اورکئی نام ہیں۔ ایسی سرخیاں لگائی جاتی ہیں کہ یہ لوگ ’’ہندمخالف‘‘ اسٹوری کےلیے جیل میں بند ہیں۔
کیا آپ کسی صحافی کو مشورہ دیں گے کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم کا انٹرویو کرنے، ان سے ان کے پسندیدہ پھل یا انرجی ڈرنک کے بارے میں پوچھنے کا موقع ملے یا آپ اسے اس بڑے آدمی سے پوچھنے کی ترغیب دیں گے کہ گجرات میں اصل میں کیا ہوا تھا؟ فروری سے مارچ 2002 تک؟
پچھلے ہفتے، کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک چونکا دینے والے فیصلے میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ کو عملی طور پر کالعدم قرار دے دیا، یہ حکم دیا کہ کسی بھی ذات پات کے ساتھ بدسلوکی کو عوامی جگہ پر قانون کے تحت جرم سمجھا جانا چاہیے۔ مراعات یافتہ ہندوؤں میں ذات پات کے امتیاز کی مضبوط گرفت کو دیکھتے ہوئے، جب دلتوں کو گھوڑے پر سوار ہونے یا ‘اعلیٰ ذات’ کے لوگوں کے لیے بنائے گئے کنوؤں کا پانی پینے پرمار دیا جاتا ہے، کسی ’اعلی ذات‘ کی لڑکی سے محبت کرنے پراس سے بھی بدترسلوک کیا جاتا ہے۔ کیا لگتا ہے کہ ہم SC-ST ایکٹ کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دلتوں کی زندگی اہم ہے؟ کیا ہندوستانی اقلیتوں کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ ٹرین میں مارے گئے نوجوان جنید کے بارے میں سوچیں، بچی آصفہ کی مندر میں عصمت ریزی کرکےاس کا قتل کیا گیا، اخلاق کا گائے ذبح کرنے کے جھوٹے الزام میں چھرا گھونپ کر قتل کیا گیا، پہلو خان کا بیٹے کے سامنے قتل کیا گیا، تبریز کو جئے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ محمد سلیم (55) محمد خلیل (35) سمیر شاہ پور (19) مشرف (35) ببو (30) مہتاب (22) ذاکر سیفی (28) عاقب (19)ہندودہشت گردوں کےہاتھوں قتل کیے گیے۔
ہندوستانی عیسائیوں کوRice bag convertsکہہ کرایک لمبےعرصہ سےان کامذاق اڑایا جاتا ہے لیکن اب تبدیلی مذہب مخالف قانون منظور کرکے ان پر ظلم و ستم کو قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ چھ مہینے قبل کرسمس کے موقع پر کئی مقامات پر ہندو دہشت گردوں نے عیسائیوں پر حملے کیے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے گڑگاؤں میں ایک گرجا گھر کے باہر یسوع مسیح کے ٹوٹے ہوئے مجسمے کی خوفناک تصویر دیکھی ہوگی اور سانتا کلاز کے پتلے جلائے جانے کی ویڈیو بھی دیکھی ہوگی۔ ہندوستان میں پادریوں پر کسی بھی جگہ کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ عیسائیوں کے لیے مذہبی آزادی پر یقین رکھتے ہیں، یا ‘گھر واپسی’ میں یقین رکھتے ہیں؟
کیا ہندوستان ہندوراشٹربن چکا ہے؟ بابری مسجد کے تعلق سےآنے والے فیصلہ سے حوصلہ پاکر مساجد، درگاہوں، مزارات کو نقصان پہنچانے اور ان میں بت رکھنے کے بہت سے واقعات دیکھے جاتے ہیں۔ گیان واپی مسجد، جسے 350 سال قبل مغل بادشاہ اورنگ زیب نے بنایا تھا، سپریم کورٹ کی ہدایت پراسے جزوی طور پر سیل کردیا گیا ہے۔ قطب مینار، تاج محل، فن تعمیر کے دلکش عجائبات کوکھود کرانہیں مندروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ کیا آپ اس نسل کشی کو دیکھ سکتے ہیں اور اس سے چشم پوشی کرسکتے ہیں؟
آپ کی سپریم کورٹ نے حجاب پر پابندی سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کی سماعت سے انکار کردیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی حیثیت سے آپ کا ان حجابی طالبات کے لیے کیا پیغام ہے؟
میں آپ سے سنجیدگی سے پوچھتی ہوں، کیا مجھے ہندوستان کی عدلیہ پر اعتماد کرنا چاہیے؟
آخر میں، کیا آپ بھی نجیب کے معاملہ میں حیران ہیں، جیسا کہ نجیب کی والدہ؟ جج لویا کو کس نے مارا؟ کیا یہ غیر ضروری سوالات ہیں؟ کیا ورا ورا راؤ نے بھی ایک معمولی سا سوال نہیں پوچھا تھا۔
مخلص،سریتاپانڈے، ایک متفکر تارک وطن
***

 

***

 کیا آپ کسی صحافی کو مشورہ دیں گے کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم کا انٹرویو کرنے، ان سے ان کے پسندیدہ پھل یا انرجی ڈرنک کے بارے میں پوچھنے کا موقع ملے یا آپ اسے اس بڑے آدمی سے پوچھنے کی ترغیب دیں گے کہ گجرات میں اصل میں کیا ہوا تھا؟ فروری سے مارچ 2002 تک؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022