عالم نقوی
کم وبیش جبری ’لاک ڈاؤن‘ والے موجودہ انسان ساختہ وبائی حالات اور وقت کے فرعونوں اور قارونوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے مظالم کے عہد میں مندرجہ بالا سوال کی اہمیت مزید کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے درست جواب میں بھی کوئی نئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ سب کچھ ’آن ریکارڈ‘ اور بشکل تحریر ’الکتاب‘ یعنی قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیز دیگر کتب ومضامینِ علماء میں محفوظ ہے۔ جن کا لب لباب ہے حصول قوت برائے دفاع، ہر عُسر میں چھپے یُسر کی شناخت اور اُس سے فائدہ اٹھانے کی منظم کوشش، خوف خدا اور دعا یعنی رجوع الی اللہ۔ماہنامہ زندگی نو کے ستمبر ۲۰۱۹ کے شمارے میں شیخ علی طنطاوی ؒ کے ایک مضمون کا ترجمہ شایع ہوا تھا وہ لکھتے ہیں کہ ’’انسان کی تخلیق میں اللہ کی عجیب وغریب کاریگری نظر آتی ہے۔ عام حیوان کی طرح اسے بھی ایک حیوان بنایا گیا ہے لیکن اس کے اندر ایک فرشتہ اور ایک شیطان بھی رکھ دیا ہے۔ لہٰذا جس انسان کا مقصد دنیا میں حلال طریقے سے ہی سہی صرف اپنا پیٹ اور شرمگاہ کی لذت سمیٹنا ہو اور وہ اسی کی تگ ودو میں ہمہ دم مشغول ہو تو جان لو کہ وہ نِرا جانور ہے اور جس انسان کا مقصدِ زندگی حلال وحرام ہر طریقے سے لذت اندوزی کے سوا اور کچھ نہ ہو اور جو گناہوں میں مبتلا رہنے کے بعد بھی بے فکر ہو تو سمجھ لو کہ وہ نرا شیطان ہے۔ بچھو اور کن کھجورے بھی اس سے بہتر ہیں کیونکہ ان کا انجام تو مٹی میں مل کر سڑ گل جانا ہے جب کہ شیطان صفت انسان کا ٹھکانہ جہنم ہے جہاں اسے عذاب اور اس کی اذیتوں کے مکمل احساس کے ساتھ ہمیشہ رہنا ہے۔ لیکن انسانوں کی ایک تیسری قسم بھی ہے جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں اس طرح زندگی گزاریں گے جیسے وہ کسی درسگاہ میں ہوں تاکہ ’حصولِ کمال‘ کے طریقے سیکھیں اور ’باکمال‘ طریقے کی زندگی جی سکیں تو یہی حقیقت میں کامیاب انسان ہیں اُن کے اندر کا فرشتہ انہیں ہمہ دم بیدار رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے اندر کے شیطان کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اپنی حیوانیت کو لگام دیں۔ اس کا حقیقی اجر وثواب انہیں جنت کی شکل میں ملے گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ آرام وسکون سے رہیں گے۔ لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یہ جنت محض آرزو اور تمنا سے ملنے والی چیز نہیں بلکہ یہ ایمان کے ساتھ عمل صالح اور جہد مسلسل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی شے ہے۔ شیطان انسان کو یہ احساس دلا کر اس کے اوپر مسلط ہوتا ہے کہ وہ کمال کے مرتبے کو پہنچ چکا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ اپنے نفس کو اس کی کوتاہیوں اور عمل صالح کی کمی کا احساس دلاتے رہیں۔ صحت کی حالت میں بیماری سے اپنے نفس کو ڈرائیں اور زندگی میں موت کی یاد دہانی کراتے رہیں جس کا آنا یقینی ہے۔ مومن جب تک خوف کی حالت میں جیتا ہے تب تک خیر وعافیت کی دولت سے مالا مال رہتا ہے مگر جب وہ اللہ سے ڈرنا چھوڑ دیتا ہے اور امید سے رشتہ توڑ لیتا ہے تو پھر خواہش نفس کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ بعض بزرگوں کا یہ حال تھا کہ اپنا ہاتھ چراغ کے قریب کرتے اور کہتے اے نفس! تیری شامت آئی ہے اگر تو اس آگ کی لَو برداشت نہیں کر سکتا تو جہنم کی آگ کیسے برداشت کرے گا؟ مومن کے دل میں جب کبھی نفسانی خواہش بھڑکتی ہے تو وہ اسے جنت کی نہروں سے بجھا دیتا ہے یا جہنم کی آگ سے جلا دیتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے نجات پالیتا ہے اگر عقل ساتھ نہ ہو تو انسان، انسان باقی نہیں رہ سکتا لیکن جس عقل کے ساتھ ایمان نہ ہو وہ عقل، عقل کہلانے کی بھی مستحق نہیں وہ محض شیطانی وسوسوں کا آلہ ہے۔فی الوقت دنیا کرونا وائرس کے خوف میں مبتلا کر دی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن جیسی غیر فطری احتیاطی تدابیر دوا علاج اور جسم انسانی کی قدرتی دفاعی قوتوں کے نظام ( Immune System ) بڑھانے کے مختلف طریقے سبھی کثرت سے زیر بحث ہیں۔ اپنے دائمی دشمنوں کو پہچاننے(المائدہ ۸۲) اور حصول قوت برائے دفاع (الانفال ۶۰) کا تذکرہ ہم اپنے کالم میں برابر کرتے رہے ہیں۔ اس وقت ماہنامہ ’بُرہان‘ ندوۃ المصنفین دہلی کے ۳۹ برس پرانے (جنوری ۱۹۸۱ کے )شمارے میں شایع مولانا جلال الدین عمری کا ایک طویل مضمون ’مرض وصحت اور اسلام‘ ہمارے سامنے ہے۔ اگلی گفتگو بالاختصار اُسی کے حوالے سے مقصود ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ دوا ایک ظاہری تدبیر ہے جسے کامیاب بنانا صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو مٹی کو بھی اکسیر بنادے اور اگر اس کی مشیت نہ ہو تو مجرَّب ترین نسخہ اور تیر بہ ہدف علاج بھی اپنی تاثیرِ شفا سے محروم ہو جائے۔ اس لیے دوا علاج اور ممکنہ احتیاطی تدابیر اور پرہیز وغیرہ کے ساتھ ساتھ شافی ِمطلق اللہ کی طرف متوجہ رہنا اور اُسی کی مدد اور فضل وکرم کے لیے خوف وطمع کے ساتھ دعا کرتے رہنا اور مایوس ہوئے بغیر صرف اسی ’الکافی والشافی‘ کی ذات پر توکل کرنا لازمی ہے۔اللہ سے تعلق کا یہ عمل نہ صرف بذاتِ خود علاج ہے بلکہ مریض کے لیے حقیقی سکون وراحت کا ذریعہ بھی ہے اور اسی مالک نے قرآن کو شفا اور رحمت قرار دیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ’’ہم اس قرآن میں وہ سب کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘ مطلب یہ کہ قرآن سے استفادے کے لیے عقیدہ وعمل دونوں میں ظلم سے بہر صورت اجتناب ضروری ہے ورنہ خسارے میں اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ حضرت علی ؑ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’بہترین دوا قرآن ہے‘‘۔ اسی طرح قرآن میں شہد کو بھی شفا کا سبب بتایا گیا ہے ’’شہد کی مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہیں اس میں انسانوں کے لیے شفا ہے‘‘ (النحل آیت ۶۹) اور ایک حدیث میں عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’شہد اور قرآن ان دو چیزوں میں تمہارےلیے شفا ہے‘‘ شہد کی خوبی یہ ہے کہ وہ بیک وقت غذا بھی ہے اور دوا بھی۔ ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے حلق میں تکلیف کی شکایت کی۔آپ ﷺ نے فرمایا ’ تم پابندی سے قرآن پڑھو‘‘ اسی طرح ایک اور شخص نےحضور ﷺ سے سینے میں درد کی شکایت کی آپ ﷺ نے فرمایا ’’قرآن پڑھو کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کو شفاء لما فی الصدور کہا ہے۔اس سلسلے میں قرآن کریم کی بعض سورتوں کا بطور خاص تذکرہ ملتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ ’آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’سورہ فاتحہ میں ہر بیماری کی شفا ہے ‘‘اسی طرح کتب احادیث میں ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سانپ بچھو وغیرہ کے زہر اور پاگل پن تک کا علاج سورہ فاتحہ سے ممکن ہے۔ ساتھ ہی سورۃ اخلاص اور آخری دونوں سورتیں الفلق اور الناس کا صحت ومرض دونوں حالتوں میں پڑھنا اور دم کرنا احادیث سے ثابت ہے۔ بیماری میں دوا اور علاج کے ساتھ ساتھ مریض اگر ممکن ہو تو خود بھی تلاوت کرے ورنہ دوسرے بھی اس کے قریب بیٹھ کر قرآن پڑھ سکتے ہیں۔ بخاری ومسلم میں روایت ہے کہ آپ ﷺ کے گھر کے لوگوں میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو آپ معوذتین (آخری دونوں قرآنی سورتیں) پڑھ کر اس پر دم کرتے تھے۔ در اصل یہ دونوں سورتیں جامع استعاذہ ہیں ان میں اجمالی اور تفصیلی طور پر ہر طرح کے شرور سے اللہ کی پناہ طلب کی گئی ہے۔قرآن میں نماز اور صبر سے طلب استعانت کا حکم ہے کہ ’’ مدد مانگو صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ بے شک نماز بھاری ہے مگر ان لوگوں پر جو اللہ کے سامنے جھکنے والے ہیں اور جانتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور وہ اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے ( واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ۔۔الخ ۔سورہ بقرہ آیات ۴۵ و ۴۶) انسان اگر اپنی مشکلات اور مصیبتوں میں نماز پڑھ کر اللہ سے دعا کرے تو وہ ضرور قبول کی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی کو کوئی حاجت درپیش ہو چاہے اس کا تعلق اللہ سے ہو یا کسی بندے سے تو وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ کی حمد وثنا اور درود وسلام کے بعد جو چاہے اللہ سے مانگے وہ اس کے لیے مقدر کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی دعا تحفظ وبا اور بیماری سے شفا کے لیے بھی کی جا سکتی ہے بلکہ ان مخصوص حالات میں تو لازماً روزہ رکھ کے اور نماز پڑھ کے اللہ سے خوف و طمع کے ساتھ رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعا کی جانی چاہیے۔ اسی طرح نماز تہجُّد اِن حالات میں اور کسی بھی مشکل گھڑی میں نہایت مفید ہے۔ جب دو تہائی رات گزر جائے یعنی طلوعِ آفتاب سے ڈھائی گھنٹے قبل یا کم از کم دو گھنٹے پہلے کا وقت تہجد کی نماز اور قبولیت دعا کا مخصوص وقت ہے۔ فجر کی نماز کا وقت سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ بیس منٹ قبل شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے چالیس پچاس یا ساٹھ منٹ نماز شب پڑھنے اور خالق کائنات اور تمام جہانوں کے پالنے والے سے توبہ واستغفار کرنے بیماریوں سے شفا وباوں سے تحفظ اور رزق میں اضافے کی دعائیں مانگنے کے بہترین اوقات ہیں کہ اس دوران طلب کی گئی کوئی جائز دُعا کبھی رَد نہیں ہوتی۔ (جاری)