کیا وطن عزیز میں دین اسلام کا فروغ ہورہا ہے؟

خواتین کو میدان کار میں لانے کی ضرورت

عارفہ خاتون، پیلی بھیت، یو پی

 

وطن عزیز ہندوستان جہاں قدرتی مناظر کے لحاظ سے انتہائی خوبصورت اور اہمیت کا حامل ملک ہے وہیں وہ مذہبی لحاظ سے بھی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم گزشتہ کئی صدیوں کا تحقیقی مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ یہاں خدا کے تعلق سے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ جہاں دنیا کے بڑے مذاہب کو ماننے والے یہاں کثیر تعداد میں موجود ہیں وہیں دو اہم مذاہب بدھ اور سکھ کی پیدائش یہیں ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے ہندوستان ایک مذہبی ملک کہلایا جاتا ہے۔
اس ملک کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں کے مختلف علاقوں میں صحابہؓ تشریف لائے اور ان کی آمد کا سلسلہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد شروع ہو گیا تھا۔ہندوستان میں صحابہ کی آمد ۱۵ھ سے شروع ہوئی اور یہ سلسلہ بعد تک جاری رہا۔
ہندوستان میں اشاعت اسلام کے سلسلے میں صوفیائے کرام اور علما نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں اس کا اعتراف آرنالڈ، ڈاکٹر سی آر ولنس اور ڈاکٹر راجندر پرساد تک نے کیا ہے۔ جب مجدد الف ثانی جہانگیر کے حکم سے قید کیے گئے تو انہوں نے قید خانے میں اپنے وعظ اور تلقین سے سینکڑوں ہندووں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔
سید شاہ فرید الدین نے کشتوار کے راجہ کو اسلام میں داخل کیا۔ اس راجہ کے ذریعہ سے اس علاقہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہ زمانہ عالمگیر کا ہے۔ ناسک میں اب تک حضرت محمد صادق سرمست اور خواجہ اخوند میر حسینی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دھارواڑ کے لوگ اپنے اسلام کو حضرت شیخ ہاشم گجراتی کا فیض بتاتے ہیں۔ حضرت ہاشم ابراہیم عادل شاہ کے مرشد تھے۔ بہت سے بزرگ محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے انہوں نے دعوت و اشاعت کا کام ہندوستان میں رہ کر کیا۔ ان داعیان میں مشہور بزرگ ابو شکور سالمی بھی تھے جو ابو محمد چشتی کے حکم سے محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔موصوف نے میو قوم کو اسلام کی دعوت دی اور اشاعت دین کی غرض سے ان کے درمیان سکونت اختیار کی۔ مخذوم علی ہجویری لاہوری کے ہاتھ پر کثیر تعداد میں لوگ ایمان لائے جن میں سے رائے راجو کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ آپ نے اسے شیخ ہندی کا لقب دیا۔ خواجہ معین الدین چشتی کے دست مبارک پر لوگ جوق در جوق ایمان لے آتے جن کی وجہ سے راجپوتانہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے بالواسطہ اور بلا واسطہ مریدین تمام اقطاع ملک میں اسلام کی شمع ہدایت لے کر پھیل گئے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے دہلی کے اطراف میں، حضرت فرید الدین گنج شکرؒ نے علاقہ پنجاب میں، حضرت نظام الدین محبوب الہی نے دہلی اور اس کے نواح میں، حضرت محمد گیسو دراز حضرت شیخ برہان الدینؒ اور حضرت شیخ زین الدینؒ اور آخری زمانہ میں (اورنگ آباد) کے حضرت نظام الدینؒ نے ملک دکن میں اور دور آخر میں حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی نے دہلی مرحوم میں یہی دعوت الی الخیر اور تلبیغ اوامر اسلام کی خدمت میں انجام دی۔ ان کے علاوہ دوسرے سلسلوں کے اولیا عظام نے بھی اس کام میں انتھک مستعدی سے کام لیا۔
حضرات صوفیائے کرام کی انہی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر آج تک ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندووں کی ایک بہت بڑی تعداد اگر چہ مسلمان نہ ہوسکی مگر اسلامی پیشواوں کی گرویدہ رہی۔ بعض لوگوں نے انفرادی طور پر دعوت و تبلیغ سے دلچسپی لی۔ جس کے نتیجہ میں اسلام کا فروغ ہوا۔ ان تمام کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم تمام لوگ مسلمان ہیں۔ لیکن افسوس مسلم حکمرانوں کے زمانے میں یہ کام بالکل نہیں ہوسکا۔ یہ ایک حقیقت ہے مسلم بادشاہوں نے تبلیغ دین کی طرف توجہ نہیں کی۔ وہ فاتحین جنہوں نے شمالی ہند یا دکن میں حکومتیں قائم کیں وہ اشاعت اسلام کے فریضہ کا احساس نہیں رکھتے تھے اور بعض کو ملک گیری اور خانہ جنگی کی وجہ سے اس کا موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو سکتے۔ فاتح مسلمان اکثر مغل یا تاتاری تھے جنہیں دین کا وہ فہم حاصل نہیں تھا جو انہیں حاصل ہونا تھا۔ دور اول کے عرب مسلمانوں اور تاجروں میں جو جوش و خروش دکھائی دیتا ہے وہ ان کے یہاں ناپید نظر آتا ہے۔ یہاں فیروز شاہ تغلق کا ایک استثنا ہے۔ فیروز شاہ تغلق کے اندر دعوت و تبلیغ کا جذبہ موجود تھا۔ مسلمان بادشاہوں میں اورنگ زیب عالمگیر کے دل میں بھی فروغ اسلام کی تمنا پائی جاتی تھی لیکن اسے باقاعدہ منصوبہ طریقے سے کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ تاریخ فرشتہ میں ہے: فروغ اسلام کے جوش و جذبے میں اس نے نو مسلموں کے ساتھ دریا دلی سے فیاضی دکھائی لیکن ساتھ ہی دوسرے مذاہب کے پیرووں پر مذہبی امور میں کسی سختی کا روادار نہیں ہوا۔ ان مسلم حکمرانوں کے دعوتی کام نہ کرنے کی وجہ سے اشاعت اسلام کا جو کارواں چلا تھا وہ تھم گیا اور لوگ اپنے مالک حقیقی سے دور ہو گئے ساتھ ہی ساتھ یہاں کی اکثریت بھی اسلام سے دور ہوتی گئی۔
تو ادھرادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
آزادی کے بعد وطن عزیز میں فروغ اسلام کا جائزہ
آزادی ہند کے بعد مسلمانان ہند اپنے مختلف مسائل میں گھر گئے اور انہیں اپنا فرض منصبی یاد نہ رہا۔ البتہ کچھ تحریکات نے ایہاں پر اشاعت اسلام کے کام کو فروغ دینا شروع کیا مثلاٌ جماعت اسلامی ہند، سلفی تحریک اور ندوۃ العلما کی پیغام انسانیت نے مختلف طریقوں سے کام شروع کیا جیسے لٹریچر کی فراہمی، میدان کار میں جاکر دعوتی روابط قائم کیے۔ شمسی نوید عثمانی علیہ رحمہ نے تقابل ادیان پر کام کیا جس کے نتیجے میں کئی اہم شخصیتوں کو مشرف بہ اسلام ہونے کا شرف موقع ملا۔
اگر ہم ملت اسلامیہ اور ملک عزیز کا جائزہ لیں کہ یہاں اسلام کا فروغ ہو رہا ہے یا نہیں تو ہم پائیں گے کہ یہاں کوششیں تو ہوئیں اور اب بھی جاری ہیں اور ان کے کچھ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں مگر کام کے رفتار نہ پکڑنے کے کچھ اسباب ہیں جو داخلی اور بیرونی دونوں طرح کے ہیں۔
فروغ اسلام میں داخلی اسباب
۱۔ ملت اسلامیہ کا یہ المیہ ہے کہ وہ اس کتاب سے ہی اپنا رشتہ کمزور کیے ہوئے ہے جو ھدی للنّاس ہے۔ ملت اسلامیہ نے اللہ کی اس کتاب کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے۔ جو کتاب انسانیت کے مسائل کا حل پیش کرتی ہے اس کے ماننے والے خود اس بات سے نا آشنا ہیں جبکہ یہ اس امت کی ذمہ داری تھی کہ وہ خود اس کے اصولوں پر عمل کرتی اور باشندگان ملک کو بتاتی کہ جو مسائل انسانیت کو درپیش ہیں ان کا حل اللہ کی اس کتاب میں موجود ہے۔ ملت کی اس حالت زار پر اقبال نے کہا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
۲۔ امت مسلمہ کی اکثریت کا دینی فہم بہت کم ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں دعوت کے کام کا شعور نہیں ہے اور ہمارے یہاں کچھ اصلاحی تحریکیں اٹھیں جو بہت مقبول ہوئیں لیکن انہوں نے صرف امت مسلمہ میں اصلاحی کام کو ہی کافی سمجھا اور اسی کو دعوت و تبلیغ کا کام سمجھا۔
۳۔ مسلمانوں کا عملی رویہ اسلام مخالف ہونے کی وجہ سے برادران وطن اسلام سے دور ہوتے چلے گئے۔ مسلمان اپنے عمل کی وجہ سے دین حق کی صحیح گواہی نہ پیش کر سکے۔ بلکہ الٹا دین حق کے خلاف گواہی دے کر برادران وطن کو اسلام سے متنفر کر دیا۔
۴۔ مسلمانوں میں ایک غلط فہمی یہ عام ہوئی کہ پہلے خود اپنی اصلاح کریں پھر دعوت کا کام انجام دیں جس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ جن گروہوں نے دعوت کا کام انجام دیا ان کو بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس سے دعوت دین کے کام کو کافی نقصان ہوا۔
۵۔ دعوت دین کی کام میں امت کی نصف آبادی یعنی خواتین کو نظر انداز کرنا اور یہ سمجھنا کہ یہ کام صرف مردوں کے کرنے کا ہے اس بات نے بھی دعوت دین کے کام کی رفتار پر اثر ڈالا اور اسلام کا فروغ اس طریقے سے نہ ہو سکا جس طریقے سے ہونا چاہیے تھا۔
۶۔ امت مسلمہ نے وطن عزیز کے سماجی مسائل اور معاشی مسائل میں اس طرح سے دلچسپی نہیں لی جس طرح سے لینی چاہیے تھی۔ مسلمانوں نے بھی دلت و مظلوم طبقات کو اپنے سے اسی طرح دور رکھا جس طرح سے یہاں کی اونچی برادری کے لوگوں نے رکھا۔
۷۔ ملت کی فرقہ وارانہ کشیدگی نے بھی اسلام کے فروغ کو نقصان پہنچایا اور اسی فرقہ واریت کی وجہ سے لوگ دعوت کا کام کر رہے تھے وہ بھی ان مسائل میں الجھے رہے اور پوری توجہ کے ساتھ فریضہ دعوت کا حق ادا نہ کر سکے۔
۸۔ ملت اسلامیہ کی معاشی پسماندگی اور تعلیمی بدحالی بھی فروغ اسلام میں ایک رکاوٹ رہی اور امت مسلمہ اپنے ان ہی مسائل میں الجھی رہی۔
۹۔ ذرائع ابلاغ (Media) کی کمی بھی اس کام میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ امت مسلمہ کے پاس نہ تو ٹی وی چینل ہیں نہ ہی بڑے پیمانے پر پرنٹ میڈیا ہے۔
فروغ اسلام میں داخلی اسباب
فروغ اسلام کے کام کی رفتار کم ہونے کے کچھ داخلی اسباب بھی ہیں جن کی وجہ سے اس کام پر اثر پڑا۔ ان کا بھی ایک جائزہ لیتے ہیں۔
۱۔ دعوتی کاموں میں ایک مسئلہ وحدت ادیان کا ہے جب ہم برادران وطن کے سامنے دعوت پیش کرتے ہیں تو بات یہاں آ کر رک جاتی ہے کہ سارے مذاہب حق ہیں اور سبھی اچھی تعلیمات دیتے ہیں اس لیے آپ چاہے جس پر چلیں سب صحیح ہیں اس طرح داعی دین اسلام کی کماحقہ دعوت پیش کرنے کے بعد بھی اس کو ناکامی ہاتھ آتی ہے۔
۲۔ آزادی کے بعد سے وطن عزیز فرقہ وارانہ دنگوں کی مار جھیل رہا ہے جس سے ہندو مسلم کے بیچ نفرتوں کا بازار گرم ہے۔ ان حالات میں اسلام کی دعوت پیش کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
۳۔ عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کا جو ہوا کھڑا کیا گیا اس کے اثرات سے وطن عزیز میں بھی اسلام کے خلاف پروپگنڈہ اور سازشوں کا بازار گرم ہے اور اس کی وجہ سے ملت اسلامیہ ایک عجیب کشمکش میں ہے۔
۴۔ دلت اور کمزور طبقات کمیونلزم اور بدھ ازم کے زیر اثر آرہے ہیں جس کی وجہ سے دعوت دین کے کام میں مشکل درپیش ہے۔ عیسائی مشنریز بھی ان طبقات میں منصوبہ بندی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہیں اور عیسائیت کو فروغ دے رہی ہیں۔
۵۔ وطن عزیز ایک جمہوری ملک ہے جس کا آئین سارے مذاہب کو اپنے دین پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت اجازت دیتا ہے لیکن جب سے Fasict طاقتیں حکومت میں آئی ہیں وہ اس کام میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔ کبھی داعی حضرات کو مختلف الزامات میں پھنسا کر انہیں بدنام کر رہی ہیں جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھ کیا اور کبھی مختلف طرح کے قانون بنا کر داعی حضرات کے لیے مشکلیں کھڑی کر رہی ہے جس کی مثال اتر پردیش سرکار کا حالیہ لَو جہاد قانون ہے۔
۶۔ بعض طاقتیں اپنے عزائم کو مضبوطی دینے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کام کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں میڈیا، عدلیہ تعلیمی ادارے، Administration سب اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے میں لگے ہیں اور اسلام کے خلاف کام کر رہے ہیں جس سے وطن عزیز کے عوام اسلام اور مسلمانوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔
وطن عزیز میں دین اسلام کے فروغ کے لیے تجاویز
اس سارے تجربہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پہلے کام آسان تھا لیکن اب مشکل ہے لیکن ہندوستان کی زمین آج بھی بڑی زرخیز ہے یہاں اسلام کے فروغ کے لیے بہت سے مواقع آج بھی موجود ہیں۔ بقول علامہ اقبال
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
آج بھی یہاں کے لوگ دعوت حق قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اپنا داعیانہ کردار ادا کرے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کا فروغ مشکل حالات میں زیادہ ہوا ہے۔ اس لیے ہمیں حالات سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ جب مشکلیں زیادہ ہوتی ہیں تو وہاں مواقع بھی ہوتے ہیں۔ امت مسلمہ کو منصوبہ بند طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امت کے ہر فرد کو فریضہ دعوت کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بقول فراز
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اسلام کے فروغ کے لیے امت مسلمہ کا قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ضروری ہے۔ امت مسلمہ کے نوجوان، مرد و خواتین کو قرآن کی اتنی سمجھ ہو کہ وہ اپنے فرض کا شعور حاصل کر سکیں۔
تمام مدارس میں ایسا نصاب پڑھایا جائے کہ ان کے طلبہ کا دعوتی شعور بیدار ہو سکے۔
تمام کے تمام طبقات کو متحد ہو کر دعوت کے کام پر فوکس کرنا چاہیے۔ خاص طور سے دعوت کے میدان میں کام کرنے والے تمام گروپس کا آپس میں مضبوط ربط ہونا چاہیے اور آپس میں ایک دوسرے کو تعاون کرنا چاہیے۔
مسلم اسکولوں اور کالجوں کے کیمپوں میں ایسا ماحول بنایا جائے کہ وہاں کے طلبہ میں دعوتی شعور بیدار ہو۔
امت کی نصف آبادی کے دعوتی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو ساتھ لیے بغیر یہ مہم سر نہیں کی جا سکتی۔ لہذا خواتین کو میدان کار میں لانے کی ضرورت ہے انہیں یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی اسی امت مسلمہ کا حصہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خیر امت ہونے کا شرف عطا کیا ہے۔ وہ بھی اس کتاب کی ویسی ہی مخاطب ہیں جیسے مرد حضرات ہیں اس لیے ان کو اپنا فرض یاد کر کے میدان میں آنا چاہیے۔
تمام مسلمہ کو چاہیے کہ وہ ہندوستان کے مسائل کا حل پیش کرے چاہے وہ مسائل سماجی ہوں یا معاشی۔تمام مسلمانوں کو سلم ایریا میں جاکر ان کے افراد کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے
تمام مظلوم و محروم طبقات کے ساتھ مساوات کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے تعلیمی، معاشی اور صحت کے مسائل پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
دعوت کے میدان میں علمی اور تحقیقی کام کی سخت ضرورت ہے۔ جسے وحدت ادیان اور لادینیت کے مسئلہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پر بہت کم کام ہوا ہے۔ساتھ ہی آئے دن جو نئے مسائل سامنے آرہے ہیں ان پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلامی نظام زندگی کے تصور کو برادران وطن کے سامنے اور زور دار طریقے سے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔داعی حضرات کو برادران وطن کی مذہبی کتابوں کا تحقیقی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں سنسکرت زبان کو جاننے والے کم افراد ہیں۔ اس لیے سنسکرت زبان سیکھ کر برادران وطن کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔
تمام اسلامیہ کو اپنی اخلاقی صورتحال بدلنے کی ضرورت ہے اور اپنے کردار سے لوگوں کا دل بدلنے کی ضرورت ہے۔
تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے دعوت کے کام کو تقویت دینے کی ضرورت ہے امت مسلمہ کے نوجوان بچوں کو سوشل میڈیا کا درست استعمال کرنے کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بچے Act serfing میں اپنا وقت اور زندگی دونوں تباہ کر رہے ہیں ان کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔
تمام امت اسلامیہ کو دعوت کے میدان میں Pro Acvtive کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دعوتی کام کے لیے داعی حضرات کو دعوۃ گائیڈ اور تربیتی و دعوتی مواد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ داعیان دین کو تیار کرنے کے لیے ورک شاپس اور تربیتی سشنس کے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اگر ان تجاویز پر عمل کریں تو اسلام کے فروغ میں امت مسلمہ بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021