زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
سال 2000میں شہر حیدرآباد میں شدیدبارش نے سیلاب جیسی صورتحال پیدا کردی تھی۔ اس بار بھی ایک ہی دن میں 24 سینٹی میٹر بارش درج کی گئی جس کے نتیجہ میں تقریباً پچاس افراد ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں گھروں کو نقصان پہچا ۔ اسی طرح 1908 میں موسی ندی میں طغیانی آنے کا واقعہ یہاں مشہور ہے جس کے نتیجے میں پندرہ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اُس وقت کے حکمران نے سیلاب سے شہر کو بچانے کے لیے ہی عثمان ساگر اور حمایت ساگر کی تعمیر کی۔ اس بہترین منصوبہ بندی نے شہر کو سیلابوں سے محفوظ رکھا ۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) اور ان فرزند کے ٹی آرجو وزیر بلدی نظم و نسق بھی ہیں انہوں نے حیدرآباد کو ایک ’’بین الاقوامی سطح کا شہر‘‘ بنانے کی بات کہی تھی جب کہ ریاستی حکومت کے اندازہ کے مطابق حیدرآباد کو ترقی دینے کے لئے پچاس ہزار کروڑ روپئے کی ضرورت ہے لیکن پہلی قسط کے طور پر دس ہزارکروڑ دیئے گئے ۔ لیکن مسلسل بارش نے شہر کو باقی دنیا سے منقطع کردیا۔ اس طرح ان دونوں کے دعووں کی قلعی کھل گئی ۔
سیلاب کے بعد دو دن تک حیدرآباد کے بیشتر علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ منقطع رہا ۔ ریاستی حکومت نے اس سیلاب کے نقصان کا تخمینہ لگاتے ہوئے پانچ ہزار کروڑ روپئے امداد کا اعلان کیا ہے تو وہیں سی یم نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر مرکز سے ایک ہزار تین سو پچاس کروڑ روپئے کی فوری امداد دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اگرچہ ابھی تک باضابطہ طور پر نقصانات کا تخمینہ نہیں لگایا گیا ہے تاہم اطلاعات کے مطابق سیلاب سے پہلے ہی ریاست میں 50سے زیادہ جانیں گئی ہیں اور ساتھ ہی ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ شہر کے محمدیہ پہاڑی علاقے میں ایک دیوار گرنے کی وجہ سے نو افراد ہلاک اور متعدد شدید حالت میں زخمی ہیں ۔ اسی دوران شہر کے دو تالاب اپّا چیرو اور پّلے چیرو کے پشتے شدید بارش کی وجہ سے ٹوٹ گئے جس کے نتیجہ میں پرانے شہر کے علاقوں میں پانی کا بہاؤ بڑھ گیا ۔ ماہرین نےاس سیلاب کی وجہ غیر منظم منصوبہ بندی، ناقص شہری منصوبہ بندی، ڈرینیج اور نالیوں سے پانی کی عدم نکاسی کا نظام ، موسی ندی کی قابل رحم اور بدتر حالت ، متعدد ندیوں اور تالابوں کے ذخیروں و ٹینکوں پر ناجائز قبصوں کو قرار دیا ہے۔گذشتہ چار سالوں میں نالوں پر غیر مجاز تعمیرات کئی گنا بڑھ گئیں۔ چار سال قبل شہر کے نالوں پر اٹھائیس ہزار غیر مجاز قبضے تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب تیس ہزار ہوگئی ہے ۔ کے جے رمیش سابقہ ڈائریکٹر جنرل (آئی ایم ڈی) محکمہ موسمیات کے مطابق شدید بارش ہونے پر شہر کے برساتی پانی کی نکاسی کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے وہ شدید بارش کے پانی کوسنبھالنے کے قابل نہیں ہے اسی وجہ سےشہرمیں سیلاب جیسی صورت حال پیدا ہورہی ہے ۔ رمیش نے کہا کہ ترجیحی بنیادوں پر اسے کلائمیٹ ریزسٹنٹ انفراسکٹچر کی تعمیر کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی ناگہانی صورت حال سے نمٹا جا سکے ۔
شہر حیدرآباد میں قدرتی طور پر پانی کی نکاسی کا بہترین نظام موجود تھا۔ اس کے مغربی کنارے کا پانی معاون دریاؤں کے ذریعے دریائے گوداوری میں جبکہ مشرقی حصے کا پانی دریائے کرشنا میں جا ملتا تھا۔ مجموعی طور پر دکن کے اس خطے میں مختلف سمتوں سے پانی کی نکاسی ہوتی تھی، پانی ایک ہی سمت میں نہیں بہتا تھا بلکہ ڈھلان ہونے کی وجہ سے مختلف سمتوں میں نکل جاتاتھا لیکن ان آبی گزرگاہوں پر قبضہ کرکے اس قدرتی نظام کو تہس نہس کردیا گیا۔سنٹر فار سائنس اور انویران منٹ کے مطابق 2016 کی ایک رپورٹ میں اس بات کاانکشاف کیا گیا تھا کہ پچھلے 12 برسوں میں حیدرآباد میں 3245 ہیکٹر ویٹ لینڈ (تری)ناپید ہوگئی ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غیرمنصوبہ بندترقی ،غیر مجاز تعمیرات ،سیوریج ، پینے کے پانی کا ناقص نظام زیر زمین پانی کی کمی اور شہر کے آبی ذخائر جیسے چھوٹے تالابوں پر ناجائز قبضوں کی وجہ سے شہر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
نظام دور حکومت میں تقریباً شہر میں تقریبا چھ سو تالاب ہوا کرتے تھے جس میں اس وقت دس سے پندرہ فیصد ہی باقی رہ گئے ہیں ۔ یعنی اسّی پچاسی فیصد تالابوں پر ناجائز قبضہ ہوچکا ہے ۔ کرلوسکر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نظام دور حکومت میں شہر کی آبادی پانچ لاکھ تھی اور اس کا رقبہ چوپن مربع کلو میٹر تھا تو اسی مناسبت سے اس کی تعمیر کی گئی تھی۔ سیلاب کے پانی کو شہری آبادی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے نالے تعمیر کئے گئے تھے جو اس وقت کی آبادی کے لیے تھے ۔آج شہر کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے اس کارقبہ تقریباً چھ سو پچیس مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور آج بھی پانی کی نکاسی کے لیے وہی نالوں پراکتفا کیا گیا ہے ۔
شہر کی بیشتر نئی بستیاں اور کالونیاں غیرمنصوبہ بند اور غیر منظم تعمیرات کا انوکھا نمونہ ہیں۔پچھلے سال جولائی میں جی ایچ ایم سی نے سینتالیس رکاوٹیں ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا تخمینہ دوسو تیس کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔تقریباً آٹھ سو غیر مجاز تعمیرات گرانے کے لیے ان کی نشاندہی کی گئی تھی۔ لیکن یہ پروجیکٹ ایک انچ بھی آگے بڑھ نہ سکا ۔ ہر سال موسم برسات میں نالوں پر غیر مجاز قبضوں کی وجہ سے شہر کےکسی نہ کسی علاقے میں سیلاب جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے اس کے باوجود نہ حکومت اور نہ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کو کوئی فکر لاحق ہوتی ہے ۔
جی ایچ ایم سی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ جن نالوں پر غیر مجاز قبضوں کو ہٹانے کے لیے ٹینڈرزطلب کیے گئے تھے ان میں بھی ٹاؤن پلاننگ، گراؤنڈ پر کام کرنے والا عملہ اور مقامی سیاسی لیڈر تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نالے کو وسیع کرنے کے کاموں کی عدم تکمیل میں مقامی لیڈروں کی مبینہ رکاوٹ اس کی اہم وجہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ٹاؤن پلاننگ اور محکمہ ریونیو کے پاس ان نالوں کاکوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے موسٰی ندی کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے موسی ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا قیام بھی کیا تھا اس کے تحت 2017 میں ایک ہزار چھ سو پیںنسٹھ کروڑ روپے بھی دیے گئے جس کا مقصد ناجائز قبضوں کو برخواست کرنا اور ندی کو آلودگی سے پاک کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے یہ مشن آگے بڑھنے میں ناکام رہا ۔ کارپوریشن نے اب تک تین کروڑ پندرہ لاکھ روپے صرف اپنے ملازمین کی تنخواہوں کو ادا کرنے میں خرچ کردیے ہیں جب کہ اس کا ایک فیصد بھی کام نہیں ہوسکا ۔ کارپوریشن کے ذریعہ ایک سروے کیا گیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ موسیٰ ندی پر تقریباً بارہ ہزار مختلف سائز کے ناجائز ڈھانچے تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ اس طرح کے ناجائز ڈھانچوں کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فیصلے کرنے ہوں گے۔ یہ کام کارپوریشن کے دائرے اختیار سے باہر ہے کہ وہ ان ناجائز تعمیرات کو ختم کرسکے کیوں کہ اس کے اختیارات بہت ہی محدود ہیں۔
حکومت کی یک طرفہ ترجیحات نے شہر کو اس خوفناکی میں ڈھکیل دیا ہے جو اس وقت سیلاب کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے ۔ سنٹر فار اکنامکس اینڈ سوشیل اسٹڈیز کے پروفیسر سی رامچندریا نے کہا کہ ٹی آر ایس کی حکومت نے گذشتہ چھ برسوں میں صرف فلائی اوور اور پلوں پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے اور ایسا کوئی خاطر خواہ منصوبہ نہیں بنایا جس سے اس طرح کے سیلاب سے نمٹا جاسکے ۔ناجائز قبضوں کی وجہ سے شہر کے متعدد مقامات پر موسیٰ ندی کا راستہ تنگ ہوگیا ہے راستے میں اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس طرح کی صورت حال آئندہ پیدا نہ ہو تواسے ان غیر مجاز عمارتوں کو ہٹاکر ندی کے پانی کو بہنے کے لیے راستہ بنانا ہوگا تاکہ بارش کا پانی آسانی سے دریا میں بہہ جائے ۔ پروفیسر رام چندریا نے کہا کہ حکومت ندی نالوں پر بسنے والے مکینوں کی بازآبادکاری اور ان کی بحالی کے لیے کوئی اقدام کرے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ نالہ (نہریں) اور نکاسی آب کے چینلز کو تعمیراتی ملبے، گھریلو اور صنعتی کوڑا کرکٹ کو فوری طور پر صاف کرے کیونکہ یہ بھی سیلاب کے آنے کی ایک اہم وجہ بنے ہوئے ہیں ۔
سیول سوسائٹی کی رکن ریکا سدھاکر کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں عوامی زندگی کو آفت زدہ بنانے میں ہر کوئی شریک ہے۔ پچھلی حکومتیں اور موجودہ حکومت غریبوں کے لیے رہائشی اسکیموں کے نفاذ کے لیے ندی نالوں کو ہی مثالی جگہوں کے طور پر منتخب کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ کانگریس حکومت نے راجیو گرہا کلپا اسکیم کے تحت مکانات تعمیر کرنے کی جو تجویز پیش کی تھی اس کے لیے بھی نالوں اور ندی کی جگہوں کو ہی چنا گیا تھا اور موجودہ ٹی آر ایس حکومت نے بھی اسی طرح کی جگہوں پر ڈبل بیڈ روم کے فلیٹوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے اور تعمیرات جاری ہیں ۔
شہر میں مختلف تالابوں، ٹینکوں اور نالوں پر غیر مجاز طور پر بسنے والے افراد کا تخمینہ تقریباً سات سے دس لاکھ کے درمیان بتایاجاتا ہے۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سےتقریباً ایک ہزار سے زائد غیر مجازک کالونیاں متاثر ہوئی ہیں ان غیر مجاز تعمیرات میں کارپوریٹ اسپتالوں حتیٰ کہ بڑی بڑی لگژری ہوٹلس بھی شامل ہیں۔ ان نالوں پر تعمیرات کی اجازت کس نے دی ہے؟ نیکلس روڈ جسے شہر کا خوب صورت علاقہ تصور کیاجاتا ہے، اسے بھی پانی کے بہاؤ کے راستوں پر یعنی چینلز پر تعمیر کیا گیا ہے جو شہر کے مختلف حصوں سے ہوتے ہوئے حسین ساگر جھیل میں جاکر گرتے ہیں لیکن اب یہ چینلز سڑک کی تعمیر کے نتیجے میں تنگ ہوچکے ہیں۔اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ تھوڑی سی بارش میں ہی شہر جل تھل ہورہا ہے۔ جیسے ہی بارش ہوتی ہے نشیبی علاقوں کے گھروں میں نالوں کا گندا پانی گھس آتا ہے اور سٹرکیں جھیلوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس بارکی بارش نے شہرکے متعدد علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہزاروں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔اتنی تباہی ہونے کے باوجود حکومت کی سرد مہری بھی معنی خیزرہی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آر پی ایف کو فوری طور پر تعینات کیا جاتا اور لوگوںکی محفوظ مقامات پر منتقلی عمل میں لائی جاتی لیکن اس معاملے میں سنگین لاپرواہی برتی گئی ہے۔
شہر حیدرآباد کو انفارمیشن ٹکنالوجی کا ہب کہاجاتا ہے اسی مناسبت سے یہاں کی اسکیمیں بھی بنائی جاتی ہیں جیسے ’حیدرآبا دہائی فائی‘جس کے تحت شہر کے مختلف مقامات پر وائی فائی نصب کئے جائیں گے۔ کیا وائی فائی نصب کرنے سے حیدرآباد کی صورت حال بدل جائے گی ؟ 48گھنٹوں کی بارش نے ہائی فائی حیدرآباد کو ہوا ہوائی کردیاہے۔
شہر حیدرآباد کو انفارمیشن ٹکنالوجی کا ہب کہاجاتا ہے اسی مناسبت سے یہاں کی اسکیمیں بھی بنائی جاتی ہیں جیسے ’حیدرآبا دہائی فائی‘جس کے تحت شہر کے مختلف مقامات پر وائی فائی نصب کئے جائیں گے۔ کیا وائی فائی نصب کرنے سے حیدرآباد کی صورت حال بدل جائے گی ؟ 48گھنٹوں کی بارش نے ہائی فائی حیدرآباد کو ہوا ہوائی کردیاہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020