کیا حکمراں طبقہ رشی کیش کی گنگا جمنی تہذیب سے سبق لے گا؟
15 جنوری کو ہم نے اتراکھنڈ کے ہریدوار سے 35 کلومیٹر دور ایک ہندو مذہبی شہر رشی کیش کا دورہ کیا۔ رشی کیش، جسے ہندو ’بابا‘ اور سادھوؤں کا مسکن سمجھا جاتا ہے، ہمالیہ میں چار ہندو دھاموں – بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اور یامونوتری کا گیٹ وے ہے۔ دریائے گنگا اس شہر سے گزرتی ہے اور نیچے بہہ کر ہریدوار تک پہنچتی ہے۔
میرے سابق ساتھی وکرم روتیلا نے، جو اتراکھنڈ کے رہنے والے ہیں،مجھے رشی کیش جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا اگرچہ یہ شہر مندروں کا ہے لیکن مجھے دہرادون سے شہر کی قدرتی خوبصورتی اور سڑکوں کے کنارے کے علاقوں کو دیکھنا چاہیے۔ لہٰذا، میں نے ان کا مشورہ قبول کیا اور اپنی شریک حیات کے ہمراہ شہر کی سیر کے لیے نکلا۔
جیسے ہی ہمارے ڈرائیور نے پارکنگ ایریا میں ٹیکسی کھڑی کی، ایک ادھیڑ عمر کے گائیڈ نے 450 روپے میں ہمیں دریا کے دونوں کناروں پر واقع مختلف مندروں کی سیر کروانے کی پیشکش کی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، میں نے اسے بتایا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اس وقت مندر جانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’ مندروں کے اس شہر میں مسلمانوں کے لیے دیکھنے کے لائق کیا ہے؟‘‘
میں نے اپنی مسلم شناخت خاص طور پر یہ دیکھنے کے لیے ظاہر کی کہ ’دھرم سنسد‘ کی مسلم مخالف اشتعال انگیزی کا کیا اثر ہوا ہے۔ گائیڈ ایک سیدھی بات کرنے والا شخص تھا۔ اس نے نہایت شفقت سے جواب دیا کہ اس شہر میں ایک مسلمان سیاح کی حیثیت سے آپ کے لیے صرف دو جگہیں ہیں، رام جھولا اور لکشمن جھولا – اور کچھ نہیں – یہ جھولے اسٹیل کے لٹکتے ہوئے پل (Suspension Bridge)ہیں۔ جب اتراکھنڈ اتر پردیش کا حصہ تھا، اسے یوپی برج کارپوریشن نے یاتریوں کے لیے گنگا ندی کے دونوں کناروں پر چلنے کے لیے بنایا تھا۔ گائیڈ نے کہا کہ صرف یہ دو جگہیں آپ کے اہل خانہ کے لیے پرکشش مقامات ہیں اور اس کے لیے آپ کو کسی مدد کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ پھر گائیڈ نے سسپنشن پل کا راستہ بھی بتایا۔ میں نے اپنی اہلیہ کے لیے اس کی زبان یا باڈی لینگویج میں کسی قسم کی نفرت یا ناپسندیدگی نہیں دیکھی۔ اس کی باڈی لینگویج سے کوئی نفرت یا ناگواری کا تاثر ابھرتا محسوس نہیں ہوا۔
ہم دوسرے سیاحوں کی طرح لکشمن جھولا گئے۔ ایک چیز جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ تمام نوجوان ہندو سولانی یا یاتری مغربی لباس میں تھے۔ ہمیں ہندوستانی لباس، ساڑھی یا سلوار قمیض، یا کُرتا پائجامہ یا دھوتی کُرتا میں ایک بھی نوجوان جوڑا نہیں ملا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہندو برادری کی نوجوان نسل میں مذہبیت تو بڑھی ہے لیکن جہاں تک کپڑوں کا تعلق ہے، نوجوان ہندو اپنے مذہبی مقامات پر بھی مغربی ثقافت کو اپنا رہے تھے۔
کچھ تحائف خریدنے کے لیے ہم بعض دکانوں پر بھی گئے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہم مسلمان ہیں، دکاندار بہت ملنسار تھے۔ اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے مسلمان کے طور پر اپنا تعارف کروانے کے باوجود لبِ سڑک چائے بیچنے والے شخص کے اندر نفرت کا کوئی شائبہ تک محسوس نہیں ہوا۔ پچھلے سات سالوں سے ملک بھر میں بنیاد پرست ہندو گروپوں کی طرف سے مسلم مخالف مہمات کے باوجود، میں نے رشی کیش میں مقامی لوگوں میں مسلمانوں کے خلاف کوئی نفرت یا بے چینی نہیں دیکھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتہا پسند ہندوتو عناصر بھارت میں مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے اپنے ایجنڈے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ نفرت پھیلانے کے حوالے سے اب تک جو بھی بنیاد پرست تنظیموں نے کیا ہے وہ اکثریتی طبقے کے بنیاد پرست عناصر سے ہمدردی رکھنے والے سیاسی نظام کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ بلاشبہ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ان بنیاد پرست عناصر کے خیالات کی حمایت نہیں کرتی۔
واپسی کے دوران، ہم نے رشی کیش شہر میں روایتی سیاہ ’برقعہ‘ میں ایک مسلمان خاتون کو بھی دیکھا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلمان اس ہندو یاترا گاہ میں اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ کسی خوف کے بغیر رہتے ہیں۔ 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق، رشی کیش میں 85 مسلمان مستقل ساکن ہیں،جہاں کی کل آبادی 1.20 لاکھ سے زیادہ ہے۔
کیا حکمراں طبقہ جو گزشتہ چند سالوں سے حقیر سیاسی مفادات کی خاطر سماج کو مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر منظم کرنے کے ہر موقع کا استعمال کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، رشی کیش کے عام لوگوں سے مذہبی رواداری اور پرامن بقائے باہم کو مضبوط کرنے کے لیے جو قدیم بھارتی ’’ گنگا جمنی تہذیب‘‘ یا مذہبی بھائی چارے کی پہچان ہے، آیا کوئی سبق لے گا؟
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 06 فروری تا 12فروری 2022