کیا این پی آر، سی اے اے قابل عمل ہے؟
مسلمانوں اور دلتوں کو دہشت زدہ کرنے کا حربہ۔ریاستوں کے اختلاف کو نظرانداز کرنا آسان نہیں
حسن کمال، بزرگ صحافی، ممبئی
کورونا وائرس بہت جان لیوا مرض ہے جس نے بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کے کچھ اراکین پارلیمنٹ بھی اس کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ یہ خبر بھی سنی گئی کہ اٹلی کی فوج کے کمانڈر انچیف بھی اس کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکی کانگریس کے ایک دو اراکین بھی اس میں مبتلا ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ کسی کسی کے لیے یہ وائرس بڑے کام کا بھی ثابت ہوا ہے۔ ۱۷ مارچ کو ڈھاکہ میں مرحوم شیخ مجیب الرحمان کی صد سالہ یوم پیدائش کا بہت بڑے پیمانے پر جشن منایا جانا تھا۔ اس جشن کے لیے ہندوستان سے وزیر اعظم نریندر مودی مدعو تھے۔ مدعو تو ڈاکٹر منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی بھی تھے۔ لیکن نریندر مودی کو اس موقع پر خصوصی تقریر کرنا تھی۔ اسی دوران وزیر اعظم نے کورونا خطرے کے پیش نظر اپنا دورہ ملتوی کر دیا۔ انہیں اسی ماہ بروسلز میں بھی یورپی یونین پارلیمنٹ میں چند مشرقی یورپی اراکین پارلیمنٹ کو بھی خطاب کرنا تھا۔ اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈھاکہ میں گزشتہ چند دنوں سے سی اے اے اور دلی فسادات کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مظاہرین نے یہ دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ اگر وزیر اعظم وہاں آئیں تو ان کا طیارہ جس ہوائی اڈے پر بھی اترے گا اس کا گھیراو کیا جائے گا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے ۶۰۰ سے بھی زیادہ اراکین نے نہ صرف جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف، بلکہ سی اے اے اور دلی کے فسادات کے خلاف بھی ایک مذمتی تجاویز منظور کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کورونا کے خطرے کی وجہ سے وزیر اعظم وہاں بھی کیسے جا سکتے تھے۔ حالانکہ تا دم تحریر بلجیمسے کورونا کی کسی واردات کی اطلاع نہیں آئی تھی۔ بنگلہ دیش بھی اس موذی وائرس سے تا حال محفوظ بتایا جاتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا کا سٹیزن شپ ایمنڈمنٹ ایکٹ المعروف بہ سی اے اے بھی کورونا وائرس کی طرح ہر روز کسی نہ کسی ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا ہے۔ انڈیا کا صدیوں پرانا دوست ایران بھی، جس نے اس سے قبل کسی بھی فورم میں ہندوستان کی مخالفت نہیں کی تھی، ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے جو سی اے اے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی کانگریس برائے مذہبی آزادی نے اسے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ایک سیاہ قانون قرار دیا ہے۔ امریکی سینیٹ میں دو خاتون اراکین نے بھی اسی خیال کا اظہار کیا ہے۔ اتفاق سے دو اراکین سینیٹ انڈیا نژاد غیر مسلم ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی ہاوس آف لارڈس اور ہاوس آف کامنس میں بھی اس ایکٹ ونیز دلی کے فسادات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ امریکہ کی دونوں پارٹیوں یعنی ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی نے اور برطانیہ کی دونوں پارٹیوں یعنی کنزرویٹو اور لیبر پارٹی نے بھی اتفاق رائے سے سی اے اے کی مخالفت کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا ممکن نہیں ہوگا کہ سی اے اے کے تعلق سے کہیں بھی برسر اقتدار اور اپوزیشن پارٹیوں میں کوئی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اب اسے سونے پر سہاگہ کہیے یا کڑوے کریلے کے نیم چڑھا ہونے کا نام دیجیے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی انڈین سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے کہ اس کے نزدیک یہ قانون کئی ایسے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تجاویز سے متصادم ہے جن پر انڈیا بھی یکے از دستخط کنندگان ہے۔ انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس سلسلہ میں بہت ’’دلچسپ‘‘ بات کہی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس تمام صورت حال کی بابت ان کا کیا خیال ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہم اب جان گئے ہیں کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون نہیں‘‘۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارا دوست کون ہے؟ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن ان تمام ۱۹۳ ممالک کی نمائندگی کرتا ہے جو اقوام متحدہ کے ممبر ہیں۔
اتفاق سے ملک کے اندر بھی یکے بعد دیگرے ریاستی سرکاریں این پی آر اور این آرسی کے خلاف تجاویز منظور کرتی جارہی ہیں۔ یاد رہے کہ سی اے اے کے جنم داتا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے در زبانِ انگلش ان قوانین کی ترتیب بیان کی تھی۔ انہوں نے ترتیب کے لیے کرونولوجی کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے این پی آر ہوگا پھر این آرسی ہوگا پھر سی اے اے وجود میں آئے گا۔ بجا ارشاد ہوا۔ یہ بھی بتا دیا ہوتا کہ اس کرونولوجی کی تکمیل مرکزی حکومت کرے گی یا یہ کام ریاستی سرکاروں کو سونپا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کام ریاستی سرکاروں کے تعاون کے بغیر تو ہو نہیں سکتا۔ اور ریاستی سرکاریں تو الگ ہی راگ الاپ رہی ہیں۔ کیرل، پنجاب، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، اڈیشہ، مغربی بنگال اور تمل ناڈو نے تو این پی آر کرانے سے صاف انکار ہی کر دیا ہے۔ آندھرا، تلنگانہ اور بہار کی سرکاروں نے کہا ہے کہ وہ وہی این پی آر نافذ کریں گی جو ۲۰۱۰ میں تھا۔ بس اس میں تیسری جنس کی بابت ایک سوال اور جوڑا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر میں بھی ایسی ہی تجویز منظور ہونے کا امکان ہے۔ ۲۰۱۰ کے این پی آر کے فارم میں کوئی ایسا معقول سوال شامل نہیں تھا جو موجودہ مجوزہ این پی آر میں ہے۔ اس کی وجہ سے صورت حال دلچسپ بھی ہو گئی ہے اور پیچیدہ بھی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ریاست میں این پی آر کی شکل کچھ اور ہو اور دوسری ریاست میں کچھ اور؟ اگر یہ قانون مرکز کی صوابدید پر ہے تو ہر ریاست میں وہی ہونا چاہیے جو مرکز کو منظور ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا کوئی عدالت یہ فیصلہ دے گی کہ جس کی جیسی مرضی ہو ویسا این پی آر بنا لے۔ اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ یہ ایکٹ دونوں ایوانوں نے اکثریت سے پاس کیا ہے اس لیے ریاستوں کے لیے اسے تسلیم اور نافذ کرنا لازمی ہے، تو یہ بھی کوئی حتمی قاعدہ نہیں ہے۔ دونوں ایوانوں نے اکثریت سے موٹر وہیکل ایکٹ بھی پاس کیا تھا، جس کے تحت ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانہ کی ایسی ایسی بڑی رقمیں طے کی گئی تھیں کہ جن کو سن کر ہی ہوش و حواس قابو سے باہر ہو جائیں۔ ریاستوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور جرمانہ اس کا نصف اور کہیں کہیں تو اس سے بھی کم کر دیا۔ اور اس مرکزی قانون کو توڑنے والی پہلی ریاست گجرات تھی۔ مرکزی سرکار نے کیا کر لیا؟
ملک کے اندر اور ملک کے باہر یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر این پی آر اور سی اے اے جیسے شوشوں کی ضرورت کیا تھی۔ ملک کے آئین کے مطابق کسی غیر ملکی کو شہریت دینا یا نہ دینا مکمل طور پر مرکزی سرکار کی صوابدید پر منحصر ہے۔ فرض کیجیے کہ کوئی پاکستانی، افغانی یا بنگلہ دیشی مسلمان، حکومت سے اس ملک کی شہریت کی درخواست کرے اور حکومت درخواست مسترد کردے، تو وہ کیا کر لے گا۔ ملک کی کوئی عدالت اس کی شنوائی نہیں کر سکتی۔ تو پھر سی اے اے میں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ مذکورہ ممالک کے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ ظاہر ہے یہ ووٹ بینک کی وہ سیاست ہے جسے بی جے پی کے لیڈران پانی پی پی کر کوستے رہے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اسی مودی سرکار نے ایک ایسے بے ہنگم اور بے سُرے گلوکار کو شہریت دی ہے جو نہ صرف پاکستانی بلکہ مسلمان بھی ہے۔ اسے شہریت دینے کے لیے بھی کسی الگ قانون کی ضرورت نہیں پڑی۔ چند اور انکشافات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ پچاس سال سے اوپر عمر کے ہمارے ہموطنوں کی ۸۰ فیصد سے زیادہ تعداد کو اپنے والدین کی تاریخ پیدائش یاد نہیں ہوگی۔ پچاس سال پہلے برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا سسٹم ہی نہیں تھا۔ کافی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں اپنی ہی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ اسی آر ٹی آئی کے جواب کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی برتھ سرٹیفکیٹ موجود نہیں ہے۔ متعلقہ وزارت کے مطابق اس کے باوجود وہ پیدائشی انڈین ہیں۔ تب تو پھر یہی جواب ہر اس انڈین کا ہو سکتا ہے جس کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہریانہ کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹر اور تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر کے پاس بھی اپنی پیدائش کی کوئی سند نہیں ہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ این پی آر، سی اے اے ایسے قاعدے قانون ہیں جو ملک کی آبادی کے بڑے حصہ کے لیے ناقابل عمل ہیں اور صرف مسلمانوں دلتوں اور آدی واسیوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے لائے گئےہیں۔
[email protected]