سید شجاعت حسینی، حیدرآباد
سی این این ایڈیشن
نے لاک ڈاؤن کا ایک دلچسپ انٹرنیشنل البم اس عنوان کے ساتھ جاری کیا کہ ’’جانوروں کوسیر کے لیے زی ادہ احاطہ مل گیا‘‘ ( اینیملس آر فائنڈنگ روُم ٹو روم
)۔ کئی تصویریں بتاتی ہیں کہ شیروں کے جھنڈ ہائی وے پر آرام فرمارہے ہیں۔ استنبول کی جھیل میں ڈالفن کی مستیاں جاری ہیں۔ انگلینڈ کے شہروں میں ہرن کے غول موج منارہے ہیں۔گدھوں کی خرمستی ، کچھوؤں کا ہجوم ، بندروں کی شرارت اور نہ جانے کیا کیا۔
یہی نہیں لاک ڈاؤن کے دوران حیدرآباد کے بدویل ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں ایک چیتا چلا آیا جس نے آبادی میں دہشت پیدا کردی۔ بعد میں سی سی ٹی وی فوٹیج کے سہارے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ اطمینان دلایا کہ چیتا جنگل کی سمت واپس چلا گیا۔ چیتے کی آمد ورفت کی خبر کو کئی اخبارات نے رپورٹ کیا۔ انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران ریاستی راجدھانی حیدرآباد اور مضافات کے تین گنجان علاقوں (شاد نگر ، نلگنڈہ اور نامپلی ) میں چیتے اور تیندووں کو پکڑا گیا۔ اسی رپورٹ کے مطابق محبوب آباد اور ونپرتی شہروں میں ریچھ ، اور چھ فٹ کے مگر مچھ بھی چلے آئے تھے۔انسان ماحولیاتی اثرات کو محسوس کرنے میں اتنا حساس نہیں ہوتا جتنا جانور ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جانوروں کی یہ ہلچل نئی نہ ہو بلکہ بس کھلے پن نے دو قدم آگے بڑھانے کی جراءت پیدا کردی ، لیکن بے زبان جانوروں کی یہ انوکھی بے ساختگی ایک صاف اشارہ ہے کہ اس طویل لاک ڈاؤن نے ہمارے قدرتی ماحول میں کچھ ہلچل ضرور مچائی۔آئیے ماحولیاتی اثرات اور متعلقہ عوامل کو اسی پس منظر کے ساتھ جانچتے ہیں۔
کوویڈ 19 اور ماحولیاتی مسائل :
سازشی نظریات کی باڑھ کے بیچ کوویڈ 19 کی ہلاکت خیزی کی اصل وجوہات جب ہم ٹٹولتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسکی جڑیں ہماری ان کوتاہیوں میں بھی گہرائی تک چھپی ہیں جو ماحولیات کے حوالے سے ہم نے روا رکھی ہیں۔ اقوام متحدہ ( یو این او) کی مئی 2020 رپورٹ کے مطابق کوویڈ کی ہلاکت خیزی بھی سات بنیادی مسائل سے جڑی ہے۔
1۔ہم آلودہ ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو ہمارے پھیپھڑوں کو مرض کے مقابل بے بس بنارہی ہے۔ کوویڈ 19 کی ہلاکت خیزی کا ایک بڑا سبب نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کا انسانی پھیپھڑوں کو کمزور کردینا بھی ہے۔
2۔ہمیں صاف پانی دستیاب نہیں۔ کوویڈ 19 سے بچاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہاتھوں اور جسم کی صفائی ہے۔ لیکن رپورٹ کہتی ہے کہ 42 ممالک کی بڑی آبادی کو وہ پانی بھی میسر نہیں جو ہاتھوں کو واقعی صاف کرسکے۔
3۔ہم اپنی غذا سے غذائیت ( نیوٹریشنل والیوز) کھو رہے ہیں۔ جب کہ غذائیت، کوویڈ کے مقابلے جسم کی قوت مدافعت ( امیونیٹی) کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو اتنی غذا بھی میسر نہیں جو جسم کو چھوٹے وائرس کے مقابل ضروری مدافعت کی
قوت دے سکے۔
4۔ہم مضر صحت ، پروسسیڈ غذا استعمال کررہے جو ہمارے جسمانی اعضا کو بیرونی حملوں کے مقابل کمزور ہی نہیں کررہی ہے۔ بلکہ ان حملوں کے لیے جسم کے اندرٹراجن ہارس کا کردار ادا کرتے ہوئے سازگار میدان تیار کرتی ہے۔
5۔ہم جانوروں کے بفر زون ختم کرکے جنگلی زندگی اور انسانی زندگی کے بیچ قدرتی دیوار توڑ رہے ہیں اور کوویڈ جیسی بیماریوں کوادھر سےدعوت دے رہے ہیں۔
6۔ہم اینٹی مائکرو بائل دوائیوں کا بکثرت استعمال اپنے اور جانوروں کے لیے کررہے ہیں۔ اور موثر دوائیوں کی بھی اثر پذیری کم کررہے ہیں۔ گویا ہم اپنے ہتھیار خود توڑ رہے ہیں ، نتیجتاً کسی بھی متعدی مرض کے مقابل ہمارا جسم اور دوائیاں کمزور پڑ رہی ہیں۔
7۔جنگلوں کی کٹائی کے ذریعے ہم دوائیوں کے قدرتی ذرائع اپنے ہاتھوں ختم کررہے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق ہر دو سال میں دوائیوں کا ایک اہم قدرتی ذخیرہ انسانی ہاتھوں سے چلا جاتا ہے۔ اس فہرست پر اگر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کی تنبیہ واضح سمجھ میں آتی ہے۔
کوویڈ 19اور اسی وائرس کے کاندھوں پر سوار لاکڈاؤن کی مصیبت نے ہمیں ماحولیات کے کئی خاموش پیغام سے روشناس کروایا۔
گھر سے کام ( ورک فرام ہوم ) :
آج ہمیں اپنا آفس دیکھے کل ساڑھے تین ماہ ہوچکے ہیں۔ اس لمبے عرصے میں نہ ہمارا کام کہیں متاثر ہوا اور نہ ہی معمول کا شیڈول۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آئی ٹی سیکٹر کے کئی زمروں میں ورک فرام ہوم زیادہ بہتر پروڈکٹیویٹی کا سبب بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات سبھی شعبوں کے لیے سچ نہیں ہوسکتی۔ ورک فرام ہوم کا رجحان مستقبل میں کاربن اخراج اور ماحولیاتی تبدیلی میں نمایاں رول ادا کرسکتا ہے۔
ورک فرام ہوم آئی ٹی سیکٹر کے لیے ایک پرانی اصطلاح اور آزمودہ کلچر ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن نے دیگر شعبہ جات کو بھی اس کلچر سے نہ صرف واقف کروایا بلکہ اس دوران خوب تجربہ بھی کروایا۔ آئی ٹی کے علاوہ کئی دیگر شعبہ جات بھی ورک فرام ہوم سے آشنا ہوئے۔ کئی ڈاکٹروں نے ( جہاں ممکن ہو ) آن لائین کنسلٹیشن کا آغاز کیا۔ اسکولوں اور کالجس نے آن لائین کلاسس جاری رکھے۔ آن لائین رٹیل سیکٹر بھی خوب آگے بڑھا اور بھی کئی زمروں کے تحت آن لائین کام کے تجربات ہورہے ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ کلچر مزید وسعت پائے۔ملک کی بڑی سافٹ وئیر کمپنیاں اس اقدام کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ اعلان بھی کرچکی ہیں۔ انفوسس اپنے 33 فیصد ملازمین کو مستقل گھر سے کام کروانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ ٹی سی ایس 2025 تک اپنے 75 فیصد ملازمین کو مستقل گھر میں بٹھادینا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ورک فرام ہوم میں اسقدر وسعت ممکن ہے۔ اس موضوع پر یونیورسٹی آف شکاگو کے جوناتھن ڈینگل کا رسرچ دلچسپ ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ معیشت پر کسی منفی اثر کے بغیر دنیا میں اوسطاً 20 فیصد لوگ مستقل گھر سے کام کرسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 45 فیصد تک ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک کے لیے ممکن ہے اوسط ( 20 فیصد ) ہی قابل عمل ہو۔ لیکن یہ بھی ایک بڑی شرح ہوگی۔
امریکہ میں گھر سے آفس کا اوسط فاصلہ 18 کلومیٹر ، یوروپ میں 15 اور چین میں 8 کلو میٹر ہے۔ امریکہ میں 75 فیصد لوگ کار میں تنہا سفر کرتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں شہری ساخت (سٹی ٹوپولوجی ) علم کا اہم میدان رہا ہے اور اکثر شہر ان اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ہمارے بیشتر شہر ان اصولوں سے آزاد ہیں۔ اس لیے ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں اوسط فاصلے کی شرح اور ٹریفک کا دباؤ بھی نسبتاً زیادہ ہے۔ اکنامک ٹائمز( 3 ستمبر 2019 ) کی ایک رپورٹ کے مطابق پونے میں یہ اوسط 16 کلومیٹر ، حیدرآباد میں 18 اور چینائی میں 21 کلومیٹر ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے شہروں میں ٹریفک کی اوسط رفتار نہایت سست ( صرف 20 کلومیٹر فی گھنٹہ) ہے۔ یعنی ہمارے ملک کی ٹریفک نسبتاً زیادہ تیل استعمال کرتی ہے۔
ان اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے کارپوریٹ آفس شہری علاقوں کی آلودگی کا بڑا سبب ہیں۔ اور ورک فرام ہوم شائد شہری علاقوں میں صحت بخش ماحول کا ذریعہ بن سکے۔
اس کلچر کی وسعت کے سماجی اور طبی اثرات سے قطع نظر آئیے دیکھتے ہیں کہ ماحولیاتی اثرات کیا ہونگے ؟۔
ایک تحقیق کے مطابق وہ لوگ جوآفس پہنچنے کےلیے 6 کلومیٹر سے زیادہ سفر کرتے ہیں ، ان کا گھر سے کام کرنا کاربن فٹ پرنٹس میں تخفیف کا سبب ہوسکتا ہے۔ لیکن باقی لوگ گھر سے کام کرکے توانائی کی گھریلو ضروریات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔لیکن یہ بات ہمارے ملکی اور سماجی تناظر میں شائد صحیح نہ ہو اس لیے کہ ہم بہت زیادہ کشادہ گھر اور ائیر کنڈیشننگ کے عادی نہیں ہوتے۔ اور ہمارا گھروں سے کام کرنا اضافی توانائی کے خرچ کا سبب نہیں ہوسکتا۔ لیکن ماحولیاتی اثر ایک عالمی کیفیت ہے اور ترقی یافتہ ممالک کا کلچر اور رول ماحولیاتی تبدیلی میں ہمیشہ اہم ہوتا ہے اسلیے اس مجموعی کیفیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انرجی ماڈیولر ڈینیل کرو اور ایریانا مائیلٹ نے اس موضوع پر اچھی تحقیق کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں ممکن ہو ان شعبے جات میں اگر ہفتے میں ایک دن بھی ورک فرام ہوم لازمی ہوجائے تو تیل کی عالمی کھپت 1 فیصد کم ہوسکتی ہے۔ 1 فیصد تخفیف کا مطلب کاربن اخراج میں 24 ملین ٹن کمی۔ تقابلی لحاظ سے یہ کوئی بہت بڑی بات نہ ہوگی۔ لیکن اسی تناسب میں ورک فرام ہوم کلچر مزیدچند دن بڑھادیا جائے تو ممکن ہے ماحولیات پرقابل لحاظ مثبت اثر ہو۔ اور اگر یہ ہوتا ہے تو اس تبدیلی کا سہرا مستقبل میں کوویڈ لاک ڈاؤن کے سر ہی ہوگا۔
تیل کی کھپت :
عالمگیر لاک ڈاؤن کا ایک واضح اثر تیل کی کھپت پر صاف محسوس کیا گیا جس کا عالمی ماحولیات کی اونچ نیچ میں ایک واضح کرداررہا ہے۔
ماہ مارچ کے آتے آتے ، ہمارے ملک کے بشمول دنیا بھر میں آمد ورفت ( ٹرانسپورٹیشن ) اور شہری ہوابازی ( سول ایویشن ) سرگرمیوں کی شرح بالترتیب 50 اور 60 فیصد کم ہوگئی۔ واضح رہے کہ یہی دونوں سیکٹر دنیا میں 60 فیصد تیل کی کھپت کے ذمہ دار ہیں۔گلوبل اینرجی رویو 2020 کی فلیگ شپ رپورٹ کے مطابق امسال توانائی کے ڈیمانڈ میں تبدیلی کی شرح کافی کم رہی۔
دینا کی بڑی آبادی کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ تیل کی قیمت منفی (نگیٹیو) بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ کہ خریدار کو تیل ( کروڈ آئیل ) خریدنے کے لیے قیمت ادا کی جارہی تھی۔ ایک حقیر وائرس نے دنیا کو اس عجوبے سے بھی روشناس کروادیا کہ جس تیل کی خاطر لاکھوں انسانوں کا خون اور جنگ وجدل جائز ٹھہرتا رہا اسکی کیاوقعت ہے۔ فارچون میگزین نے اس گتھی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ وسط اپریل میں تیل کی قیمتیں 310 فیصد گر کر منفی 38 ڈالر تک جاپہنچی تھیں اور ایسا کرشمہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔
کاروں کی فروخت :
ہمارے ساتھی فاطر نے لمبے سروے کے بعد پچھلے دنوں کار خریدی۔ سروے سے پہلے یہ خیال تھا کہ لاک ڈاؤن کی ماری عوام بنیادی ضروریات میں الجھی ہے اس لیے کاروں کی خرید و فروخت پر سناٹا طاری ہوگا۔ لیکن فاطر کے سروے کا حاصل کچھ اور تھا۔ محسوس ہوا کہ کار بزنس لمبے وقفے کے بعد دوبارہ اونچائی کی طرف گامزن ہے۔ا یسا ہی نتیجہ گلوبل ڈیٹا آٹوموٹیو کنسلٹنگ کا ہے جس نے دو ماہ کی سست روی کے بعد جون میں اس رجحان میں تبدیلی کا اشارہ دیا۔
بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی مجموعی سست روی ( سلو ڈاؤن ) کی وجہ سے کاروں کی کھپت کم ہوجائیگی۔ لیکن شائد یہ حقیقت نہیں۔ گلوبل مارکیٹ ریسرچ فرم اپسوس کی حالیہ تحقیق کے مطابق صحت کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا کلچر دنیا میں اب تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ صرف چین میں (جہاں لاک ڈاؤن کھلے اب کافی وقت گذر چکا ہے ) پبلک ٹرانسپورٹ میں مسافروں کی تعداد 57 فیصد کم ہوچکی ہے۔
ہمارے ملک میں بھی یہی رجحان ہے۔ اکثر لوگ بیرون شہر سفر سے اجتناب کررہے ہیں اور جب ضروری ہو پرائیویٹ کار کا ترجیحا ً ااستعمال ہورہا ہے۔ اور ان کاروں میں بھی لدے پھندے سفر کی روایت ختم ہوچکی ہے۔ ایک کار میں بمشکل تین لوگ سفر کررہے ہیں۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو ممکن ہے کاروں کی ریل پیل تیل کی کھپت کو پہلے کے مقابل مزید بڑھا دے۔ ورک فرام ہوم کلچر کے ذریعے ہوسکتا ہے شہری حدود میں آلودگی کچھ کم ہوجائے لیکن شہر کے باہر زیادہ کاروں کی دوڑ مجموعی کاربن فٹ پرنٹس میں اضافہ ہی درج کرے گی۔
یہاں ایک اور رجحان بھی قابل غور ہے۔کچھ عرصہ قبل آئی ای اے نے جملہ 46 شعبہ جات زندگی کی نشاندہی کی تھی جہاں تیل اور کوئلے کے بجائے صاف توانائی کے استعمال کی طرف منتقل ہونے کی گنجائش تھی۔لیکن آئی اے ای کی حالیہ رپورٹ ( مرتبہ مارین گورنر ) کے مطابق مجوزہ شعبوں میں سے صرف 6میدانوں میں خاطر خواہ ترقی ہوئی، ان میں سر فہرست الیکٹرک وہیکلس(برقی گاڑیاں ) اور اسکے بعد روشنی کے آلات اور ریلویز شامل ہیں۔ عین ممکن ہے کہ عالمی سطح پر الیکٹرک کاروں کا رجحان اسی طرح بڑھے جو مثبت ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بن سکے۔ لیکن ہندوستان میں الیکٹرک کاروں کی طرف تیز رجحان بہت جلد ممکن نہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ الیکٹرک کاریں بظاہر دھویں سے پاک نظر آتی ہیں لیکن یہ کاریں بالعموم تھرمل الیکٹرک انرجی استعمال کرتی ہیں جنکی پیداوارکے لیے کوئلہ جلاکر کہیں زیادہ آلودگی پھیلائی جاتی ہے۔ بظاہر وہ شہری علاقے جہاں یہ کاریں دوڑتی ہیں ، صاف ستھرے نظر آئیں لیکن بالواسطہ فضائی آلودگی اور کاربن فٹ پرنٹس میں اضافے کا سبب ہی بنتے ہیں۔ دی گرین ایج نے ان کاروں کا تفصیلی تجزیہ کیا اور بتایا کہ ان کا مینوفیکچرنگ عمل بھی زیادہ آلودگی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود الیکٹرک کاریں اپنی تیز ترقی اور ٹیکنولوجی کے سبب مستقبل میں آلودگی کو کم کرنے کا باعث ہوسکتی ہیں۔بالخصوص ان ممالک میں جہاں توانائی کے لیے ڈی کاربونائز الیکٹرک پیداوار کا رجحان تیز ہے۔ ظاہر ہے ہم اس رجحان سے ابھی کوسوں دور ہیں۔ کوئلے پر ہمارا انحصار آج بھی تقریباً63 فیصد ہے۔
اس پس منظر میں لاک ڈاؤن کے بعد ہماری سڑکوں پر کاروں کا نیا رجحان اور نئی ریل پیل کا ماحولیات پر کیا اثر ہوگا اسے فوری سمجھنا مشکل ہے۔
آلودگی اور موسم :
فضائی آلودگی اور کوویڈ 19 کی شرح اموات کے تعلق پر ماحولیاتی ایڈیٹر ڈامین کیرنگٹن کا ایک تفصیلی مضمون دی گارجین ( 7 اپریل ) میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے مختلف اعداد و شمار کے ذریعے بتایا کہ کس طر ح فضائی آلودگی میں معمولی اضافہ (تقریباً 1 مائکروگرام فی مربع میٹر کوویڈ جیسی بیماریوں کی ہلاکت خیزی میں 15 فیصد اضافے کے لئے معاون بن جاتا ہے۔آئی کیو ائیر کی تازہ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی شرح گذشتہ سال کے مقابل دہلی میں 60 فیصد اور ممبئی میں 34 فیصد کم ہوگئی۔
رواں صدی کے چند بڑے واقعات کا تقابل کرتے ہوئے بی بی سی کے ماحولیاتی نمائندے میٹ میک گراتھ کا کہنا ہے کہ کاربن کے اخراج کے تناسب اور ماحولیات میں جو تبدیلی آج نوٹ کی گئی وہ غیرمعمولی ہے۔ دونوں عالمی جنگ ، اسپینش فلو ، 1930 کے گریٹ ڈپریشن، 1973 اور 79 کے آئیل شاکس ( تیل کے بحران) ، سویت یونین کا زوال اور 2008 کی معاشی مندی کے دوران بھی آلودگی میں کمی کی شرح اتنی تیز نہ تھی جیسی آج نظر آرہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ماحولیاتی آلودگی کی مقدار کو ایک لمبے عرصے تک کنٹرول کرلیا گیا تو عین ممکن ہے کہ بس یہی اقدام کووویڈ کی شرح نمو کے گراف کو ہموار ( فلیٹ ) کرجائے۔یعنی یہ کہ فضائی آلودگی کو کنٹرول کرکے بھی کوویڈ کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔
بلومبرگ گرین کے تجزیے کے مطابق دنیا کے کئی بڑے شہروں میں زیر زمین جھٹکوں
(وائبریشنس )اور حرکت کی شدت میں سیسموگرافس نے لاک ڈاؤن کے دوران کافی کمی ریکارڈ کی۔ مطلب یہ کہ زمین کی اوپری تہوں نے بھی چین کی سانس لی۔ بلومبرگ گرین نے کئی سٹیلائیٹ تصویریں بھی شئیر کیں جن سے یہ پتہ چلتا ہےکہ دنیا کی کئی جھیلیں اور قدرتی مقامات لاک ڈاؤن کے دوران کس طرح صاف ستھرے ہوگئے۔
اسی کیفیت کو بنیاد مان کر ماہرین اب گرین رکوری ( سبز تغیر ) کی بات کررہے ہیں۔یعنی یہ کہ مجبوراً سہی ہم ایک بہتر لائف اسٹائل کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ اب فرد ، سوسائٹی اور ممالک کی ذمہ داری ہے کہ ان احوال سے سبق سیکھ کر اپنے شب و روز میں ایسی تبدیلیاں لائیں کہ کم آلودگی کی شرح برقرار رہے۔ تاکہ انسانیت ایسی آفتوں سےبھی محفوظ رہ سکے۔ لیکن گذشتہ تجربات کی روشنی میں "سبز تغیر ” کی امید کم ہی ہے۔ 09-2008 کی معاشی مندی کے بعد 2010 میں کاربن اخراج کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا۔ ڈر یہ ہے کہ کیا 2020 کی ماحولیاتی تبدیلی بھی ایسی ہی ناپسندیدہ اچھال (اسپائیک) کا سبب بنے گی ؟
حقیقت یہ ہے کہ کوویڈ جیسے مسائل وقتی تبدیلی ضرورلاسکتے ہیں لیکن طویل مدتی تبدیلیاں صرف بہتر پالیسیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کوویڈ بحران کے دوران 30 ممالک کے وزراء ماحولیات کی پیٹرز برگ کلائمیٹ ڈائیلاگ ( ورچول میٹنگ) اسی سمت ایک قدم مانا جارہاہے۔ جسمیں معیشت کے سبز تغیر ( گرین اکنامک رکوری ) پر بھی غور کیا گیا۔ ہندوستان نے اس میٹنگ میں دو اہم تجاویز رکھیں۔ یہ کہ ماحولیات سے متعلق ٹیکنولوجیز اوپن سورس زمرے کے تحت سبھی کے لیےقابل رسائی ہونی چایئے اورغریب ممالک کے لیے ایک ٹریلین ڈالر کا ماحولیاتی گرانٹ ہو۔ شمالی نصف کرے میں کوویڈ بحران کا آغاز موسم سرما میں ہوا تھا اسکے بعد گرمی اور دھوپ کی شدت کو بھی کرونا آسانی سے برداشت کرگیا۔ اب کورونا کب تک اور کہاں کہاں فعال رہے گا، یہ فیصلہ قدرت کے سپرد ہے۔ کوویڈ کئی دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ کچرے کا ایک نیا انبار بھی دنیا کو دے رہا ہے۔ یہ ڈھیر پی پی ای کٹس ، ماسکس ، دستانے ، فیس شیلڈس وغیرہ کا ہے۔
گرچہ یہ تمام حفاظتی اشیا کے لازمی جز پلاسٹک اور ربر ہوتے ہیں لیکن ان حفاظتی کٹس کی ری سائیکلنگ ممنوع ہے اور نہ ہی یہ بائیو ڈگریڈیبل ہوتی ہیں۔ حکومت ہند کے انویسٹ انڈیا پورٹل کے مطابق ہمارا ملک روزانہ ساڑھے چار لاکھ کٹس کی تیاری کے ساتھ دنیا میں دوسرا مقام پاچکا ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ پی پی ای کا ڈھیر آنے والے دنوں میں کیسی خطرناک آلودگی کا سبب ہوگا۔
ندیاں اور پانی :
ڈاؤن ٹو ارتھ میگزین نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں لاک ڈاؤن کو’’ ندیوں کا وینٹیلیٹر‘‘ قرار دیا۔ یہ بات بڑی معقول محسوس ہوتی ہے۔ بالخصوص شمالی ہند کی ندیوں میں لاک ڈاؤن نے وہ اثر دکھایا جو ندیوں کی صفائی کے کئی پنج سالہ منصوبے بھی نہ دکھا سکے تھے۔بنارس ہندو یونیورسٹی کے گنگار سرچ سینٹر اور واٹر رسورز مینیجمنٹ کے چیرمین ڈاکٹر ترپاٹھی کے مطابق گنگا ندی کے پانی میں تحلیل شدہ آکسیجن ( ڈزولوڈ آکسیجن) کی سطح 8.3 سے بڑھکر 10 ہوگئی۔ اور بائیو کیمیکل آکسیجن ڈیماند کی شرح 3.8سے گھٹ کر 2.8ہوگئی۔ گنگا کے کئی کناروں پر اس ٹیم نے پانی کی سیمپل اسٹدی کی اور بہت واضح فرق محسوس کیا۔ ندی 25 تا 40 فیصد زیادہ شفاف بہہ رہی تھی۔ وجہ صاف ہے۔ ہری دوار تا کانپور 1072 وہ صنعتیں ہیں جو پیسٹی سائڈ کے بشمول کیمیکلزاور گندگی کا زہریلا اخراج مسلسل گنگا میں کرتے ہیں۔ لاکڈاؤن کے دوران ندی اپنے ان ایک ہزار سے زائد پڑوسیوں کی کرم فرمائی سے محفوظ رہی۔
جانور اور حیوانات :
کوویڈ کے ہنگامے میں چند دیگربڑے واقعات دنیا بھول گئی۔ وباء کے پھوٹنے سے چند ہفتوں قبل آسٹریلیاء کا بڑا حصہ آگ سے بھڑک رہا تھا۔ جس نے اس براعظم کے جنگلات کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بڑی تعداد کو جلا کر ڈھیر کردیا تھا۔ کیلی فورنیا فارسٹری اینڈ فائر پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ ( کیل فائر ) نے امسال جنگل کی آگ کے 2700 مختلف واقعات پر توجہ دی۔ لیکن کوویڈ نے فائر ڈپارٹمنٹ کی ورک فورس کو گھٹا دیا۔ صرف فائر فائٹرس ہی نہیں بلکہ جنگلات کی نمی میں بھی تیز کمی ہوئی اور جنگل کی آگ کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال نے امریکہ کے اس بڑے علاقے میں جنگلات اور جانوروں کے حوالے سے تشویش پیدا کردی۔
کوودیڈ لاک ڈاؤن نے بظاہر کچھ علاقوں میں جانوروں کو سکون اور دوقدم آگے بڑھانے کی جراءت فراہم کی ، لیکن کچھ دیگر مقامات پر لا ک ڈاؤن انکے لیے نئی مصیبت کا سبب بھی بن گیا۔ بی بی سی نے فیوچر پلانیٹ کے تحت ایک نئے مسئلے کا تفصیلا ذکر کیا۔ رپورٹ کے مطابق عالمگیر لاک ڈاؤن نے افریقی ممالک کے کئی نوجوانوں کو بے روزگار کردیا۔ان کے لیے پیسہ کمانے کا آسان متبادل راستہ جانوروں کا شکار ٹھہرا۔ رپورٹ بتلاتی ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران کئی جانور ہلاک کیے گئے۔
وبائی امراض اور حیاتیاتی تنوع کا 60 سالہ تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ میں یہ بات ثابت کی گئی کہ جانوروں کا شکار صرف معاشی ، یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ زیادہ تباہ کن وبائی مرض کا دعوت نامہ ہوسکتا ہے۔ جانوروں کی ہلاکت اور ایکو سسٹم کی تباہی کے بعد وائرس کو نئے میزبان ( ہوسٹ ) کی تلاش ہوتی ہے۔ حالیہ عرصے میں نمودرا ہونیوالی 70 فیصد متعدی بیماریاں جنگلی جانوروں سے انسانوں میں پہنچیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی 71 فیصد آبادی یہ مانتی ہےکہ مستقبل میں ماحولیاتی تباہی ، کوویڈ 19 سے بڑا مسئلہ ثابت ہوگی۔
ادھر ہمارے ملک کے کئی علاقوں میں بظاہر ایک انتہائی چھوٹے اور کمزور جاندار نے نیند اڑا رکھی ہے۔ ٹڈی نامی اس معمولی پتنگے کے غول نے شمال مغربی ہندوستان میں پر پھیلادیئے۔ ظاہر ہے اس آفت کا بظاہر کوویڈ سے کوئی راست تعلق محسوس نہیں ہوتا ، لیکن ماحولیاتی بگاڑ سے اس کے تعلق سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس نے اتفاقاً عین کوویڈ بحران کے دوران اپنے پر پھیلائے۔
پہاڑ :
مغربی یو پی، پنجاب اور ہماچل پردیش کے کئی شہروں کے باشندوں نے 30 سال بعد اپنے گھروں کی چھتوں سے ہمالیہ کی چمکتی چوٹیوں کا مشاہد ہ کیا۔ یہ وہ علاقے ہیں جو دنیا کے بلند ترین پہاڑ سے دیڑھ تا دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہاں کے بچے اور نوجوان نسل اس بات پر یقین نہیں کرتی تھی کہ انکے گھر بھی کبھی ہمالیہ کے دلکش مناظرکے ویو پوائینٹ ہوا کرتے تھے۔ آج وہ ان چمکتی چوٹیوں کو دیکھ کر حیران ہیں۔(19) سچ یہ ہے کہ فضائی آلودگی نے ہمیں کئی دلربا مناظر سے محروم کر رکھا ہے۔ ہمالیہ کی بات چھوڑئیے ، تاروں بھرا آسمان بھی اب صرف پلانیٹیریم میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
کینیڈا ، آسٹریلیاء اور سویزرلینڈ کے مختلف اداورں اور یونیورسٹیوں سے وابستہ نو محققین اور سائنسدانوں نےکوویڈ وائرس اور سطح سمندر سے بلندی کے باہمی تعلق پر بڑی دلچسپ تحقیق کی اور ثابت کیا کہ کورونا وائرس کو بلند پروازی سے سخت نفرت ہے اوروہ پستیوں میں پلنے کا عادی ہے۔ اسکا ایک سبب سورج کی شفاف کرنوں کی راست رسائی اور پہاڑی علاقوں کی آلودگی سے پاک خوشگوار فضا ہے جو کورونا کو نہیں بھاتی۔ مزید یہ کہ اس تحقیق کے مطابق کوویڈ کی ہلاکت خیزی کا تعلق جسم میں آکسیجن کی کمی ( ہائیپوکسک کنڈیشن ) سے ہے۔پہاڑی علاقوں ( ہائی الٹی ٹیوڈ) کے باشندوں کا جسم اس کیفیت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اسلیے یہ کیفیت انکے لیے جان لیوا نہیں ہوتی۔ چین اور بولیویا ( جنوبی امریکہ ) کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں کی گئی ان اسٹڈیز کے مطابق بلندی اور کوویڈ کے پھیلاؤ میں معکوس تناسب پایا گیا۔ تبت کی بلندی اوسطاً 4000 میٹر ہے۔تبت سیاحوں کی آمد و رفت کا مرکز بھی ہے۔ ریل ، سڑک اور ہوائی راستوں کے ذریعے تبت ، ووہان سے جڑ اہے۔تبت اور ووہان کے درمیان لوگوں کی آمدورفت بھی زیادہ ہے۔ اسکے باوجود تبت میں کوویڈ متاثرین کی شرح انتہائی کم رہی۔ ہمارے ملک کے پہاڑی علاقوں ( اترا کھنڈ ، لداخ ، اروناچل ، سکم وغیرہ ) کی مقامی آبادی بھی بڑی حد تک اس مرض سے محفوظ رہی۔ اس ٹیم نے دنیا کے ان 120 شہروں کا کوویڈ کے پھیلاؤ کے حوالے سے تقابلی مطالعہ کیا جو سطح سمند ر سے 3000 میٹر بلندی پر واقع ہیں۔ اور اپنی تحقیق کے حاصل کو درج ذیل گراف کی صورت میں پیش کیا۔
محسوس ہوتا ہےکہ کوویڈ بحران کے جھٹکوں سے پوری دنیا متاثر ہے ، لیکن انسانی کارستانیوں سے دور پہاڑی چوٹیاں غیر متزلزل اور نسبتاً محفوظ رہیں۔ پہاڑوں کی شاداب چوٹیاں دور سے اپنے جلوے بکھیرتی حضرت انسان کو ماحولیات کا بھولا سبق یادد لارہی ہیں۔
سرفراز بزمی صاحب نے بھی کیا خوب منظر کشی کی۔
عود کر آئی زمیں پر فطرت عاد و ثمود
آگئے کیا نیل پر تاریخ دہرانے کے دن
شہر بیزاری پہ اکساتی ، وبا پرور ہوا
بکریاں لے کر پہاڑوں پر چلے جانے کے دن
پھر فریب زندگی سے تنگ آئی زندگی
پھر شعور ذات کی تہ میں اتر جانے کے دن
***
1. With cities on lockdown, animals are finding more room to roam) By Will Lanzoni and Kyle Almond, CNN May 1, 2020)
2. Hyderabad: Civet cat on terrace, leopard lounging on streets create panic ,The Indian Express May 14
3. Seven ways we are making ourselves sick, www.unenvironment.org May 19
4. HOW MANY JOBS CAN BE DONE AT HOME? BY Jonathan I. Dingel Brent Neiman , NBER Working Paper No. 26948
5. Indians spend 7% of their day getting to their office , The Economic Times Sep 03, 2019
6. Working from home can save energy and reduce emissions By Daniel Crow, www.iea.org June 12, 2020
7. ‘Unreal’: Oil prices go negative for the first time in history By Katherine Dunn April 21, 2020 , Fortune
9. As the Covid-19 crisis hammers the auto industry, electric cars remain a bright spot By Timur Gul and others www.iea.org May 18, 2020
10. Environmental footprint of electric cars. ww.thegreenage.co.uk/tech/environmental-footprint-electric-cars
11. Air pollution linked to far higher Covid-19 death rates, study finds By Damian Carrington Environment editor, The Guradian April 07 , 2020
12. Rapid growth in CO2 emissions after the 2008-2009 global financial crisis, www.globalcarbonproject.org/global/pdf/pep/Peters_2011_Budget2010.pdf
13. A Pandemic That Cleared Skies and Halted Cities Isn’t Slowing Global Warming By Laura Millan May08, 2020, www.bloomberg.com
15. Personal Protective Equipment in India, https://static.investindia.gov.in/s3fs-public/2020-05/PPE%20Report_v9.pdf
16. How Lockdown has been a gift for river Ganga , Binay Singh, Anant Shekher Misra and Rajeev Mani, TOI , May 21,
17. COVID-19 lockdown: A ventilator for rivers By Sumita Singhal, Mahreen Matto |Down to Earth, April 29 , 2020
18. The wild animals at risk in lockdown By Alexander Matthews BBC, May 21 , 2020
19. www.insider.com/himalayas-seen-from-india-pollution- drop-coronavirus-lockdown-2020-4
20. Does the pathogenesis of SARS-CoV-2 virus decrease at high-altitude, doi.org/10.1016/j.resp.2020.103443
21. COVID-19 Air Quality Report IQAIR Apr 22, 2020
کوودیڈ لاک ڈاؤن نے بظاہر کچھ علاقوں میں جانوروں کو سکون اور دوقدم آگے بڑھانے کی جراءت فراہم کی ، لیکن کچھ دیگر مقامات پر لا ک ڈاؤن انکے لیے نئی مصیبت کا سبب بھی بن گیا۔ بی بی سی نے فیوچر پلانیٹ کے تحت ایک نئے مسئلے کا تفصیلا ذکر کیا۔ رپورٹ کے مطابق عالمگیر لاک ڈاؤن نے افریقی ممالک کے کئی نوجوانوں کو بے روزگار کردیا۔ان کے لیے پیسہ کمانے کا آسان متبادل راستہ جانوروں کا شکار ٹھہرا۔ رپورٹ بتلاتی ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران کئی جانور ہلاک کیے گئے۔
وبائی امراض اور حیاتیاتی تنوع کا 60 سالہ تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ میں یہ بات ثابت کی گئی کہ جانوروں کا شکار صرف معاشی ، یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ زیادہ تباہ کن وبائی مرض کا دعوت نامہ ہوسکتا ہے۔ جانوروں کی ہلاکت اور ایکو سسٹم کی تباہی کے بعد وائرس کو نئے میزبان ( ہوسٹ ) کی تلاش ہوتی ہے۔ حالیہ عرصے میں نمودرا ہونیوالی 70 فیصد متعدی بیماریاں جنگلی جانوروں سے انسانوں میں پہنچیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی 71 فیصد آبادی یہ مانتی ہےکہ مستقبل میں ماحولیاتی تباہی ، کوویڈ 19 سے بڑا مسئلہ ثابت ہوگی۔