زعیم الدین احمد حیدرآباد
کوویڈ-19 کی دوسری لہر نے جس شدت کے ساتھ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ ملک کے شہریوں پر موسم خزاں چھا گیا ہو۔ اس وبا نے جہاں شعبہ صحت کی کارکردگی کی پول کھول دی وہیں حکمرانوں کی بے حسی بھی ظاہر کر دی ہے۔ اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس نہ تو قوت ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ ملک کے حالات شدید طور پر بگڑ گئے تب جا کر ہماری نکمی حکومت خواب خرگوش سے جا گی اور اس کا یہ جاگنا بھی عوام کے لیے کوئی فائدہ مند ثابت نہ ہوا کیوں کہ اس نے اس وبا کی روک تھام کے متعلق کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی۔ جب وبا شروع ہوئی تب اس نے اس کے نمٹنے کے لیے کچھ تیاری نہیں کی وہ محض زبانی جمع خرچ کرتی رہی اور ڈینگیں مارتی رہی کہ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک نے اس وبا سے اس طرح نہیں نمٹا جس طرح ہم نے نمٹا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی دوسری لہر نے ان ڈینگ باز حکمرانوں کی ڈینگوں کو خاک میں ملا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے صحت کے شعبہ پر کوئی توجہ دی ہی نہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وہ اس کا الزام بھی پچھلی حکومتوں کے سر منڈھ رہی ہے۔ وزیر خارجہ جئے شنکر نے اس بربادی کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا صحت عامہ کا نظام پوری طرح نا کام ہو چکا ہے اور اس کی ذمہ دار گزشتہ کی حکومتیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے کسی بھی میدان میں کوئی قابل ذکر کام کیا ہو تو کہا جائے؟ اس نے ملک میں مذہبی منافرت اور ملکی اثاثوں کو فروخت کرنے علاوہ اور کِیا ہی کیا ہے؟ فرقہ پرست حکومت کو سوائے انتخابات کے اور کوئی کام سوجھتا ہی نہیں جیسے یرقان زدہ مریض کو ہر چیز زرد ہی نظر آتی ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تب اٹھ کر دنیا کے سامنے اپنا کشکول پھیلانے لگے۔ چنانچہ بہت سے ممالک نے طبی امدادی سامان بھیجا بھی لیکن یہ سامان کئی دنوں تک ہوائی اڈوں پر ہی پڑا رہا کیوں کہ اس سامان کو استعمال کرنے کے لیے ہمارے ملک میں درکار بنیادی انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں ہے۔ یہ تو اس وبا کی تباہی کا ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب ملک کے عوام اس ہنگامی صورت حال سے کچھ دن بعد باہر نکلیں گے تو ان کے پاس روزگار نہیں ہو گا تو اس وقت ملک کو اس وبا سے زیادہ بھیانک صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گزشتہ ماہ اپریل میں روزگار کی شرح میں کمی واقع ہوئی اور بے روزگار افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ فروری اور مارچ کے مہینوں میں ملازمتوں میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے ملازمتوں میں بھی کمی آتی گئی۔ اپریل کے مہینے میں جب ملک وبائی مرض کی دوسری لہر سے لڑ رہا تھا اس موقع پر لوگوں کی نوکریاں بھی جاتی رہیں۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس ماہ میں تقریباً 73.5 لاکھ ملازمتیں ختم ہو گئیں۔ سنٹر آف مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملازمتوں کی تعداد تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں کے اندر کمی واقع ہوئی ہے۔ مارچ کے مہینے میں یہ تعداد 39.81 کروڑ تھی جو اب گھٹ کر اپریل میں 39.08 کروڑ رہ گئی۔ جب کہ ماہ جنوری میں ملازمت کرنے والے افراد کی تعداد 40.07 کروڑ تھی۔ یعنی ماہ جنوری سے لے کر ماہ اپریل تک تقریباً ایک کروڑ لوگوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ نوکریوں میں کمی کوویڈ کی دوسری ہلاکت خیز لہر کی وجہ سے ہوئی ہے۔ صرف ایک ماہ میں 73 لاکھ افراد نے اپنا روزگار گنوایا۔ اس ہلاکت خیز لہر کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصوں میں کاروبار اور حمل و نقل پر پابندی عائد کر دی گئی۔لوگوں میں پھر ایک بار سراسیمگی پھیل گئی کہ کہیں دوبارہ تالا بندی نہ ہو جائے۔ پھر ایک بار ان کے سروں پر غیر یقینی کے کثیف بادل منڈلانے لگے جس کے نتیجے میں وہ دوسری مرتبہ اپنے آبائی مقامات کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ملک کی بیشتر ریاستوں نے پھر سے وہی غیر منصوبہ بند تالا بندی کا اعلان کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو مزدور پیشہ افراد تھے وہ روزگار سے محروم ہو گئے۔ چنانچہ ماہ اپریل میں روزگار کی شرح میں کمی کے ساتھ ساتھ مزدور پیشہ افراد کی شرح میں بھی کمی واقع ہوئی اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے بے روزگار افراد بھی سرگرمی کے ساتھ ملازمت کی تلاش نہیں کر پا رہے ہیں اور نوکریاں موجود بھی نہیں ہیں کیوں کہ معاشی سرگرمیاں پوری طرح سے ٹھپ پڑی ہوئی ہیں۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ تالا بندی و معاشی سرگرمی پر پابندی کہ وجہ سے روزگار ختم ہو رہے ہیں۔
دلی یونیورسٹی کے اقتصادی ترقی کے انسٹیٹیوٹ میں معاشیات کے پروفیسر اروپ میترا نے کہا "2020 میں قومی سطح پر تالا بندی کی گئی تھی اس مرتبہ قومی سطح پر تالابندی نہیں کی گئی ہے لیکن ریاستیں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں نے جزوی یا مکمل پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے عملی طور پر معاشی سرگرمیاں تھم سی گئیں اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، یہ خوف حقیقی بھی ہے ان معاشی پابندیوں کا اثر جہاں آپ کو سب سے پہلے نظر آئے گا وہ لیبر مارکیٹ ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ لیبر مارکٹ میں تین مسائل ہیں پہلا یہ کہ "مستقل تنخواہ یافتہ ملازمین کی تعداد میں کمی غیر مستقل تنخواہ یافتہ افراد کا ملازمت پر نہ آنا، خود روزگار افراد کا کام بند ہو جانا، ملازمتوں کی تعداد میں کمی، عوامی شعبہ میں مزدور پیشہ افراد کی شرکت میں کمی اور بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ،، یہ سب مل کر صورتحال کو نازک بناتی ہیں۔”
سی ایم آئی ای کے مطابق ملازمت کی شرح مارچ میں 37.56 فیصد سے کم ہو کر اپریل میں 36.79 فیصد ہو گئی ہے جو گزشتہ چار ماہ کی اقل ترین سطح کو عبور کر چکی ہے۔ ماہانہ جاری ہونے والے اعداد وشمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسے افراد جو بے روزگار ہوئے ہیں اور ملازمت کی تلاش بھی نہیں کر پا رہے ہیں ان کی تعداد مارچ میں 1.60 کروڑ تھی جو اب بڑھ کر 1.94 کروڑ ہو گئی ہے” بے روزگار افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کا ملازمتوں کی تلاش نہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ لوگ لیبر مارکیٹ سے دستبردار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ اب یہ وبا دیہی علاقوں تک پھیل گئی ہے، دوسری وجہ معاشی سرگرمیاں کا بند ہوجانا ہے جس سے ملازمتوں کے حصول میں کمی واقع ہوئی ہے۔ منظم شعبوں جیسے سیاحت اور حمل ونقل پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں ملازمتیں ختم ہوئی ہیں۔ پھر اسی طرح غیر منظم شعبوں اور نیم غیر منظم شعبوں جیسے گھریلو ملازمتوں، آفس سپورٹ سسٹم وغیرہ میں جو افراد برسر روزگار تھے ان میں بھی نمایاں طور پر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
کے آر شیام سندر جو ماہر معاشیات ہیں انہوں نے کہا کہ ’’ بازاروں میں مندی ہے اور طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لوگوں کے اپنے آبائی مقامات کو پھر سے جانے میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس مرتبہ چوں کہ بس اور ریل پر سفر کی سہولتیں دستیاب ہیں اسی لیے سفر کی صورتحال پچھلے سال کی طرح دگرگوں نہیں ہے۔ اگلے دو تین ماہ انتہائی اہم ہوں گے اور ملازمتوں میں استحکام کا انحصار اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اس صورتحال کو کس حد تک بہتر طریقے سے قابو میں رکھ سکتے ہیں۔‘‘
اروپ مترا نے کہا کہ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ روزگار کی منڈی کا صرف ایک پہلو ہے۔ قومی سطح پر شہری اور دیہی بازاروں میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ سی ایم آئی ای کے اعداد وشمار کے مطابق اپریل میں قومی بے روزگاری کی شرح 7.97 فیصد پر پہنچ گئی جب کہ یہ شرح ماہ مارچ میں 6.5 فیصد اور ماہ فروری میں 6.89 فیصد تھی۔ اسی طرح شہری بے روزگاری کی سطح بھی بڑھ کر 9.78 فیصد ہو گئی جبکہ یہ شرح مارچ کے مہینے میں 7.27 فیصد تھی۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کہنا پڑتا ہے کہ مودی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے چاہے وہ معاشی میدان ہو چاہے ہو صحت کا شعبہ ہو یا کوئی اور شعبہ۔ اس کے پاس نہ کوئی منصوبہ تھا نہ اب ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کارکردگی۔ اور اب تو اس کے اپنے ارکان بھی اس سے بدظن ہو چلے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ مریضوں کو فوری طور پر طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں کے وزائے اعلیٰ بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بڑی بے شرمی کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ کہتے چلے جا رہے ہیں کہ ہمارے پاس نہ آکسیجن کی کمی ہے اور نہ ہی طبی سامان کی۔ جبکہ حقیقت حال اس کے بر عکس ہے۔ لوگ آکسیجن کی کمی ہونے سے اپنی زندگی کی جنگ ہارتے جا رہے ہیں اور بے حس حکومت ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ اس کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وبا کی دوسری لہر تباہی مچاتی جا رہی ہے اور ماہرین انتباہ دے رہے ہیں کہ ایک تیسری لہر بھی آئے گی جو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو گی لیکن حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہاں! مگر پارلیمنٹ کی تعمیرِ جدید کے لیے اس کے پاس منصوبہ بھی ہے اور پیسہ بھی۔ ایسی بے حس حکومت کا ہونا نہ ہونا ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت کو اخلاقی طور پر حکومت کرنے کا کوئی حق
ہی باقی نہیں رہا۔
ماہرین انتباہ دے رہے ہیں کہ ایک تیسری لہر بھی آئے گی جو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو گی لیکن حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہاں! مگر پارلیمنٹ کی تعمیرِ جدید کے لیے اس کے پاس منصوبہ بھی ہے اور پیسہ بھی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021