کون کتنا بڑا ھندوتو وادی ؟ مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی کے درمیان لفظوں کی جنگ

ادھوٹھاکرے حکومت کے گرد بی جے پی کی انتقامی سیاست کا دائرہ تنگ ہورہا ہے

نہال صغیر

مہاراشٹر میں ۲۰۱۹ میں جب شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کے اشتراک سے حکومت میں آئی اور یوں شیو سینا کو وزیر اعلیٰ کی کرسی ملی تو اس سے سب سے زیادہ جسے تکلیف ہوئی وہ بلاشبہ بی جے پی ہی ہے۔ اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کبھی شیوسینا یوں اس کے منہ سے نوالہ چھین لے گی۔ اس نے مایوس ہو کر اب سے ایک ماہ قبل یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ۲۰۲۴ میں پوری اکثریت کے ساتھ حکومت میں آئے گی ۔ مطلب سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس جو اب تک خود کو مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ سمجھ رہے تھے جس کی وجہ سے وہ صحافیوں کے درمیان مزاح کا سبب بھی بن گئے تھے۔انہوں نے یہ مان لیا ہے کہ اب وہ موجودہ حکومت کو کسی بھی طور سے نہیں گرا سکتے۔ یعنی پورے ڈھائی سال ان لوگوں نے یہ کوشش کی کہ کسی بھی طرح موجودہ حکومت گرا دی جائے۔
مرکز کی مودی حکومت مہاراشٹر کی اگھاڑی حکومت کے خلاف اپنی قوت کے اظہار کے ساتھ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ کسی بھی طور سے وہ اس حکومت کو بے دخل کر کے بی جے پی کے لیے راہیں آسان کر دے۔ لیکن بی جے پی کے لیے پنگھٹ کی یہ ڈگر بہت کٹھن ہے۔
یہ بات درست ہے کہ شیوسینا مسلسل بیانات سے یا بی جے پی کے نظریاتی حملوں سے پریشان ہو کر یہ بیان دیتی رہتی ہے کہ وہ سب سے بڑی ہندوتوا وادی ہے۔ اسے ثابت کرنے کے لیے ادھو ٹھاکرے نے بابری مسجد کے مقام پر بننے والے مندر بھی گئے اور پیشانی پر ہندو مذہبی نشان بھی بنایا تاکہ کوئی انہیں ہندو مخالف یا ہندتو نظریہ کا باغی نہ سمجھ لے۔ ویسے یہ بات سمجھ لیں کے کیجریوال جیسا غیر مذہبی انسان بھی جب بنارس میں مودی کے خلاف میدان میں اترتا ہے تو اسے بھی گنگا میں ڈبکی اور پیشانی پر ہلدی چندن کی لیپ لگانی پڑتی ہے تاکہ عوام اسے کٹر ہندو سمجھیں۔ بہر حال یہ ہندوستانی سیاست کی بدنصیبی ہے کہ جو جتنا بڑا ڈرامہ باز یا بہروپیا ہو گا وہ اتنا ہی مقبول سیاسی قائد ہو گا۔ اس لیے یہاں ایماندار سیاسی لیڈر بننے کی دوڑ کی بجائے اس بات کی ریس لگی ہوئی ہے کہ کون ہندو دھرم کے نام پر کتنا بڑا بہروپیا بن سکتا ہے؟ سیاست کے بارے میں ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے دل میں رحم نہیں ہوتا ۔
مہاراشٹر میں فی الوقت کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کی مشترکہ حکومت ہے جس کی سربراہی ادھو ٹھاکرے کر رہے ہیں ۔ ڈھائی سال کی اگھاڑی کی حکومت پر الزامات عائد کرنے اور اسے بدنام کرنے کا بی جے پی نے کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بی جے پی ویسے بھی اپنے حریف کے لیے خورد بین لیے تاک میں بیٹھی رہنے کی عادی ہے کہ کہیں سے کوئی معمولی سا بھی موقع مل گیا تو بس اس کا حملہ شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے شیوسینا کے ایک کارپوریٹر پانڈو رنگ سکپال کے ذریعہ اذان مقابلہ کی حوصلہ افزائی کو بھی بی جے پی نے اپنے وہی پرانے مسلمانوں کی منہ بھرائی والے نعروں کے ساتھ تنقید کے لیے چن لیا تھا۔ اس سے قبل بھی اور اس کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جب بی جے پی کے حملہ کے جواب میں ادھو ٹھاکرے نے یہ دعوی کیا کہ وہ اب بھی ہندوتوا کے ایجنڈے پر قائم ہیں لیکن ان کا ہندوتوا نفرت نہیں پھیلاتا جبکہ بی جے پی کا ہندوتوا ملک کو تقسیم کر رہا ہے۔ یہ الفاظ حالیہ دنوں میں شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت کے ہیں۔ آج کل یعنی اپریل کے پہلے ہفتہ میں بی جے پی والے مہاراشٹر میں بھی نفرت کے ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے اذان پر پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔اس کے جواب میں شیوسینا کی جانب سے سخت جواب دیا جا رہا ہے کہ یہاں کے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بی جے پی کے طرز عمل سے حکومت کو ہوشیار رہتے ہوئے ایسی حکمت اختیار کرنی ہو گی تاکہ نفرت کے ایجنڈے والے ناکام ہو جائیں۔
بی جے پی کی مرکزی حکومت کے ذریعہ اگھاڑی حکومت کے خلاف اول روز سے ہی پریشان کن حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے سب پہلی وار شرد پوار کو ای ڈی کا نوٹس بھیج کر کیا مگر یہ بی جے پی کی گلے کی ہڈی بن گیا اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کے شرد پوار سے معافی مانگنی پڑی۔ وزیر داخلہ انل دیشمکھ پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ اور اب نواب ملک کو پھانسنے کی کامیاب کوشش کے بعد ادھو ٹھاکرے کے برادر نسبتی پر ای ڈی کی دبش اور ان کی گیارہ کے قریب جائیدادوں کو قرق کیے جانے کا معاملہ۔ اب یہ وہ وقت ہے جب ادھو ٹھاکرے نے محسوس کیا کہ پانی سر کے اوپر سے گزرنے والا ہے تب انہوں نے کہا ہم تیس سال سے سانپ کے بچے کو دودھ پلا رہے تھے۔ ان کا ایک بیان یہ بھی آیا کہ اگر ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرو۔ جواب میں بی جے پی کی طرف سے وہی پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کیا گیا یعنی نواب ملک کو داود ابراہیم سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر شرد پوار نے بھی کہا کہ جو مسلمان ہوتا ہے اسے داود ابرہیم سے ملا دیتے ہیں۔ شیو سینا نے اس سلسلے میں بی جے پی کو سخت جواب دیا کہ ہمت ہے تو داود کو پکڑ کر لاو وہاں جا کر بریانی تم کھاتے ہو اور ہمیں داود کا ساتھی کہتے ہو۔
فی الوقت مہاراشٹر میں ہندوتوا کے تین دعویدار ہیں اول شیو سینا، دوسرے بی جے پی اور تیسرے اپنی سیاسی زمین کھو دینے والے راج ٹھاکرے، لیکن اصل مقابلہ بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان ہی ہے۔ راج ٹھاکرے نے اپنی سیاسی زمین کھو دینے کے بعد اپنی پارٹی کا جھنڈا اور ایجنڈا دونوں تبدیل کر دیے ہیں۔ انہوں نے اسے خالص اور کٹر ہندوتوا وادی پارٹی کی شناخت دینے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اپنی اس نئی پہچان کو بھی تین سال پورے ہوچکے ہیں لیکن مہاراشٹر میں کسی الیکشن کے نتائج سے راج ٹھاکرے کے تعلق سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ جبکہ باقی ساری پارٹیاں کہیں کم کہیں زیادہ اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔ کل ملا کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راج ٹھاکرے کا سیاسی سفر اب خاتمہ کے قریب ہے اب وہ میڈیا کے بھی منظور نظر نہیں رہے۔
کہا جاتا ہے کہ شیو سینا نے اپنا موجودہ رواداری والا چہرہ این سی پی اور کانگریس کے ساتھ حکومت کی مجبوری کے تحت بنایا ہے۔ یہ کچھ حد تک درست ہو سکتا ہے مگر یہ پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ اس میں بہت حد تک ادھو کی متانت اور سنجیدگی کا بھی دخل ہے۔ اس کے علاوہ شیوسینا کے تیز وطرار سنجے راوت نے بھی ہوا کا رخ بھانپ لیا ہے اس لیے شیوسینا اگرچہ ہندوتوا کے ایجنڈے پر چلنے اور اس پر قائم رہنے کی بات کرتی ہے مگر وہ فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی نہ کوئی بیان دیتی ہے اور نہ کوئی قدم اٹھاتی ہے۔ اس کی مثال تو گزشتہ سال نومبر کے دوسرے ہفتہ میں مہاراشٹر کے تین شہروں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد حالات کو قابو میں رکھنے کے ساتھ پولیس کا تبدیل شدہ رویہ بھی ہے۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت کی جانب سے ایسا قدم اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں سے جن میں معلم، سماجی کارکن اور صحافی شامل ہیں، ان سے بی جے پی اور شیو سینا کے ہندوتوا کو جاننے کی کوشش کی گئی۔
پیشہ سے معلم اور سماجی کارکن عاکف دفعدار کہتے ہیں کہ شیو سینا کبھی فرقہ پرست نہیں تھی اس کی سیاسی مجبوریوں نے اس کو ہندو کارڈ کھیلنے پر مجبور کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ شیو سینا کا عروج جنوبی بھارت کے لوگوں اور گجراتیوں کے خلاف تحریک سے ہوا۔ اس کی اس تحریک سے پریشان کانگریس نے اس کو مسلمانوں سے ٹکرانے کا منصوبہ بنایا اور بھیونڈی فساد کے سبب یہ موقع انہیں مل گیا۔ عاکف دفعدار کہتے ہیں کہ بھیونڈی فساد کے بعد جس طرح حکمت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت تھی وہ نہیں ہوا۔ وہ اردو اخبارات کے رویہ سے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اردو اخبارات نے بھی جلتی میں تیل ڈالنے کا کام کیا۔ لیکن انہیں یہ بتانے پر کہ آج تو اردو اخبارات زیادہ متحرک ہیں کہ یہ دوری ختم ہو؟ عاکف کہتے ہیں کہ ہاں اب تو ٹھیک ہے، مگر یہ کام پہلے کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ اگر شیوسینا فرقہ پرست ہوتی تو مسلم لیگ کے ساتھ مل کر کارپوریشن کے الیکشن کیوں لڑتی جس میں مسلم لیگ اور سینا دونوں کو سیاسی فائدہ ہوا۔ بعد کے دنوں میں وہ اتحاد قائم نہیں رہا اور شیوسینا کے فائر برانڈ لیڈر بال ٹھاکرے نے ہندو سیاست کا چولا پہنا۔ اصل میں شیوسینا پر فرقہ پرست پارٹی کا لیبل بال ٹھاکرے کے بڑ بولے پن کی وجہ سے بھی لگا، مثال کے طور پر انہوں نے کہا اگر میرے شیو سینکوں نے بابری مسجد کی شہادت میں اہم رول ادا کیا تو مجھے فخر ہے یہ اور اسی طرح کے دوسرے بیانات نے انہیں ہندو ہردے سمراٹ والی شبیہ میں تبدیل کر دیا۔
سینئر صحافی اور ایشین ایج جیسے اخبارات میں اپنی خدمات دینے والے وویک بھاوسار کہتے ہیں شیوسینا اور بی جے پی کے ہندوتوا میں فرق ہے۔ اس میں فرق ہے جب ہی اس نے موجودہ حالات میں خود کو تبدیل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں ادھو ٹھاکرے کا ایودھیا وغیرہ جانا دراصل نریندر مودی کے ہندو ہردے سمراٹ والی شبیہ کو چیلنج کرنا تھا لیکن جب انہیں کوئی فائدہ نہیں ملا تو وہ مہاراشٹر کی زمین بچانے میں مصروف ہو گئے۔ ان کے بیانات اپنے ووٹرس کو نریندر مودی سے دور رکھنے کی ایک کوشش ہے۔
مراٹھی اخبارات سے وابستہ صحافی خلیل گیرکر پہلے تو کہتے ہیں کہ بی جے پی اور شیوسینا کے ہندوتوا میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے لیکن پھر کچھ یاد کر کے کہتے ہیں کہ ’’دونوں کے نظریات میں بہت فرق ہے‘‘۔ پھر وہ کئی مثالیں دیتے ہیں کہ کئی جگہوں پر مساجد ومقابر کی حفاظت کے لیے وہ آگے ہیں۔ کوکن کے کسی گاوں کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں ایک مسجد سڑک تعمیر کے راستے میں تھی، شیوسینا کے وزیر اعلیٰ نارائن رانے نے ذاتی دلچسپی لے کر سڑک کی روٹ تبدیل کروائی اور مسجد اسی طرح قائم رہنے دی گئی۔ اس کے علاوہ خلیل گیرکر تبلیغی جماعت کے ممبئی باندرہ میں ہونے والے اجتماع کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں شیوسینا نے کافی تعاون کیا تھا۔ خود مضمون نگار کا ذاتی تجربہ رہا ہے کہ ان کےکارپوریٹر یا ایم ایل اے کسی کام کو منع نہیں کرتے اور مسجد و مدارس کے کاموں میں زیادہ دلچسپی لے کر مسائل کو حل کرتے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں جماعت اسلامی ہند ممبئی میٹرو کے ایک پروگرام میں سنجے راؤت کی شرکت کا معاملہ بھی یاد کیا جانا چاہیے جہاں انہوں نے کہا تھا ’’جو ڈر گیا وہ مر گیا، ہم نے ڈرانے والوں کے سامنے جرات کا مظاہرہ کیا ہے‘‘۔ جماعت اسلامی ہند کے پروگرام میں شیوسینا کے کسی لیڈر کی شرکت ہی تبدیل شدہ تصویر کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے ۔
بہر حال مہاراشٹر کی اگھاڑی حکومت کے گرد بی جے پی کی انتقامی سیاست کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ دائرہ جتنا زیادہ تنگ ہو رہا ہے اسی قدر شیوسینا کا رویہ بھی سخت جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ عاکف دفعدار نے کہا کہ عوامی طور پر ادھو ٹھاکرے نے شیواجی پارک کی ریلی میں کہا کہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں پربھو دھانکر ٹھاکرے کا پوتا ہوں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں بال ٹھاکرے کا بیٹا ہوں۔ واضح ہو کہ پربھو دھانکر ٹھاکرے نے ہندو رسم ورواج پر بہت سخت حملے کیے ہیں۔شاید اسی لیے بال ٹھاکرے نے کبھی ان کا نام نہیں لیا۔ لیکن پربھو دھانکر ٹھاکرے کے ذریعہ ہندورسم ورواج کا مذاق اڑائے جانے کے باوجود انہیں مہاراشٹر میں ایک مصلح مانا جاتا ہے۔ وویک بھاوسار بھی انہیں بہت بڑا مصلح قوم مانتے ہیں۔ یعنی برادران وطن میں پائے جانے والی خرافات کو پڑھا لکھا طبقہ سمجھتا اور جانتا ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ غرض ادھو ٹھاکرے کی موجودہ شیوسینا خواہ ہندوتوا کا جتنا دعویٰ کر لے وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ غور کریں تو بیانات میں صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس نے ہندوتوا کے ایجنڈے کو نہیں چھوڑا ہے یا وہ سب سے بڑی ہندوتوا وادی پارٹی ہے، مگر وہ کیا کر رہی ہے اور اس کا طرز حکمرانی کس قسم کا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے۔ شیو سینا کی حکومت میں ڈر کے ماحول کو قابو میں کیا گیا ہے۔ الغرض شیوسینا، بی جے پی کی طرح نہیں ہے۔
***

 

***

 کہا جاتا ہے کہ شیو سینا نے اپنا موجودہ رواداری والا چہرہ این سی پی اور کانگریس کے ساتھ حکومت کی مجبوری کے تحت بنایا ہے۔ یہ کچھ حد تک درست ہو سکتا ہے مگر یہ پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ اس میں بہت حد تک ادھو کی متانت اور سنجیدگی کا بھی دخل ہے۔ اس کے علاوہ شیوسینا کے تیز وطرار سنجے راوت نے بھی ہوا کا رخ بھانپ لیا ہے اس لیے شیوسینا اگرچہ ہندوتوا کے ایجنڈے پر چلنے اور اس پر قائم رہنے کی بات کرتی ہے مگر وہ فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی نہ کوئی بیان دیتی ہے اور نہ کوئی قدم اٹھاتی ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 تا 16 اپریل  2022