کوریائی دوشیزہ ،جی یون لی کاقبول اسلام
’’اللہ کو تم سے محبت ہے‘‘ مسجد کے امام کا ایک بول، جس نے دل کی دنیا بدل دی
عمارہ رضوان، نئی دلّی
کرونا وائرس کے زمانے میں جہاں ہر چہار جانب سے ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں جن سے دل غم گین اور رنجیدہ ہو جاتے ہیں وہیں 17؍ جون 2020 کو ساؤتھ کوریا سے ایسی خبر سننے کو ملی جس سے دل باغ باغ ہو گیا اور پور ے بدن میں فرحت وانبساط کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ساؤتھ کوریا سے تعلق رکھنے والی مشہور یوٹیوبر جی یون لی جو گزشتہ سات سالوں سے دین حق کی تلاش میں سرگرداں تھیں اور اس عرصہ میں انہوں نے الحاد وتشکیک کے کئی مراحل طے کیے لیکن آخر دینِ حق کے دامن میں ہی انہیں اطمینانِ قلب حاصل ہوا۔ تقریباً سات سالوں کے اس دشوار گزار سفر کی روداد جی یون لی نے اپنے چار منٹ چوّن سیکنڈ 4:54 کے ایک مختصر سے ویڈیو کے ذریعے دی، جس کا عنوان جنت نے ’’ہاں میں مسلمان ہوگئی‘‘ دیا۔ اس ویڈیو کلپ میں جی یون لی نے اپنا تعارف اپنے نئے نام جنت سے کرایا اور کلمہ شہادت کو پڑھ کر اپنے داخل اسلام ہونے کا اعلان کیا۔ سوشل میڈیا پر جنت کا والہانہ استقبال کیا گیا اور جنت کے اس مبارک فیصلے پر مبارک بادیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
یو ٹیوب پر جنت کے بیس لاکھ سے زائد فالوورس ہیں۔ جب جنت کا اکاؤنٹ جی یون لی کے نام سے تھا تو ان کے فالوورس چار لاکھ سے کچھ زائد تھے مگر قبول اسلام کے اعلان کے بعدسے جنت ساؤتھ کوریا کے ساتھ ساتھ عرب دنیا میں بہت مقبول ہوگئی ہیں۔ جنت کا تعلق ساؤتھ کوریا سے ہے وہ یوٹیوب پر اپنا ایک چینل چلاتی ہیں اور عربی زبان جاننے والوں کو کوریائی زبان سکھاتی ہیں۔ جنت کوریائی لہجہ میں عربی زبان بولتی ہیں اور عربی میں کوریائی سیاحت وثقافت کے فروغ کا کام انجام دیتی ہیں۔ جو عرب سیاح کوریا کی سیاحت پر آتے ہیں ان کی رہنمائی کے لیے جنت نے ایک پورٹل بھی بنا رکھا ہے جس کے ذریعے وہ انہیں حلال کھانوں، ریسٹورنٹ ومساجد کی رہنمائی کرتی ہیں۔ جنت کی پرورش ایک بدھسٹ گھرانے میں ہوئی، جو اپنی مذہبی روایات کا سختی سے پابند تھا، یہ پابندی جنت کے لیے گراں بار تھی اور شعور سنبھالتے ہی انہوں نے ان مذہبی روایات کے خلاف بغاوت کا علم اٹھا لیا اور بدھ مت کی تعلیمات کے انکار کے ساتھ ساتھ تمام ادیان کو بھی مسترد کر دیا۔ کالج کی تعلیم کے دوران ہی جنت یوٹیوب کے ذریعے عربی زبان سیکھنے کے لیے آن لائن کلاسز لینے لگیں۔ جب جنت عربی زبان پر اتنی قادر ہوگئیں کہ وہ اپنا مدعا آسانی سے کسی کے سامنےعربی میں رکھ سکیں تو انہوں نے چند ماہ کسی عرب ملک میں گزارنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ان کی نظرِ انتخاب لبنان پر پڑی جہاں انہوں نے چند ماہ قیام کر کے عربی زبان پر مزید قدرت حاصل کی۔ آن لائن کلاس کے دوران کئی بار جنت کا دین کے تعلق سے اپنے عرب شاگردوں سے بہت تلخ مباحثے ہوئے، حالاں کہ جنت ان موضوعات سے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتیں کیوں کہ یہ بحث و مباحثے ان کے پروفیشنل کیریئر کو نقصان پہونچا سکتے تھے۔ کئی عرب طلبہ جنت سے ان کے دین کے بارے میں سوال کرتے جسے جنت بہت خوب صورتی سے ٹال جاتی تھیں۔ لیکن 2018 کے اوائل میں جنت اپنے اندرون کے اتھل پتھل کو اپنی زندگی کا اہم موڑ مانتی ہیں جس نے ان کو دین حق کی تلاش پر مجبورکیا۔ جنت اپنے سفرِ ایمان کو بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’’میں نے بدھ مت کو اپنے گھر میں دیکھا مگر اس کو ترک کرنے کے بعد میں نے کئی مذاہب کا تفصیل سے مطالعہ کیا۔ میں نے ہندومت اور عیسائیت کا مطالعہ کیا، مندر اور چرچ کے چکّر کاٹے لیکن تمام مذاہب کے مطالعہ کے علی الرغم دینِ اسلام کا مطالعہ کافی مختلف تھا، اسلام نے مجھے اوّل روز سے ہی اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، میں نے اسلام کو اپنے دل ودماغ سے قریب تر پایا، اسلام سے میرا پہلا تعارف 2013 کے اواخر میں ایک مسلم نوجوان کے ذریعے ہوا جس نے مجھے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا اور اسلام کے بارے میں ایک کتاب دی۔ جنوری 2016 میں میں پہلی بار کوریا میں کسی مسجد کے اندر داخل ہوئی اور وہاں پر طریقہ نماز نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ میں تین سال تک کوریا کے مختلف مساجد کی زیارت کرتی رہی اور کبھی کبھی نمازیوں کے ساتھ نماز کی نقل بھی اتارتی رہی، میں ایک دن مسجد میں نماز کی نقل اتار رہی تھی کہ مسجد کے امام میرے پاس آئے اور کہا کہ اللہ کوتم سے حد درجہ محبت ہے۔ امام مسجد کے اس ایک جملے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں وہیں سر پکڑ کر رونے لگی۔جنت آگے بتاتی ہیں کہ کوریا میں میرے دل کی یہی کیفیت بار بار ہوتی اور میں بار بار اس تجربے سے گزرتی مگر میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ جب میں چند ماہ کے لیے لبنان منتقل ہوئی تو وہاں بھی میں نے اپنے اس عمل کو جاری رکھا اور یہاں آ کر میں بعض مواقع پر حجاب کا اہتمام کرنے لگی اور مساجد میں جاکر نمازیوں کے ساتھ نمازکی نقل کرنے لگی۔ ایسا کئی بار ہوا کہ جب میں سجدے میں ہوتی تو بے ساختہ میری آنکھیں بہہ نکلتیں اور آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے لبنان میں اچھی اور نیک سہیلیاں میسر آگئیں، جنہوں نے میری صحیح رہمنائی کی اور ہر سخت موقع پر میری ڈھارس بندھائی۔ جنت روتے ہوئے کہتی ہیں کہ اسلام نے میرے دل میں گھر کر رکھا تھا اور اسلام کو مجھے بہت پہلے قبول کر لینا چاہیے تھا مگر مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ شاید میں ارکانِ اسلام کی پابندی نہیں کر سکوں گی بالخصوص پانچ وقت کی نمازوں اور رمضان کے روزوں کا اہتمام میرے لیے مشکل ہوگا، مگر اس سال میں نے رمضان میں روزوں کا بھی تجربہ کیا جو بہت خوش گوار تھا۔ میری سہیلیوں نے میری بڑی الجھن دور کر دی ہے کہ میں دھیرے دھیرے تمام ارکان اسلام کی پابندی کے قابل ہوجاؤں گی اور جب تک میں اس قابل نہ سکوں میرا اللہ میری کوتاہیوں پر گرفت نہیں کرے گا۔ جنت اپنی اس سہیلی کا شکریہ اپنے آنسؤوں سے ادا کرتی ہیں ،جس نے قبول اسلام کے دن جنت کو قرآن مجید اور ایک مصلے کا تحفہ دیا اور کہا کہ یہ دونوں چیزیں دے کر میری اس سہیلی نے میرے اوپر بڑی ذمہ دار ی ڈال دی ہے ، ایک یہ کہ میں اپنے رب سے اپنے تعلقات کو استوار کرلوں اور دوسرے اپنے رب کے کلام کے ذریعے اپنے ملک کے ان لوگوں تک پہنچوں جو اب تک اس دینِ حق سے دور ہیں ۔
جنت نے اب سورہ فاتحہ کے ساتھ ساتھ چند چھوٹی سورتوں کو زبانی یاد کرلیا ہے جنہیں وہ اپنی نمازوں میں اپنے رب سے بات کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں ، عربی زبان جاننے کی وجہ سے جنت اللہ کے کلام کو براہِ راست سمجھنے پر بھی قادر ہیں۔
جنت نے تو اپنی جنت، دینِ حق کو اپنا کر اور اس کا اظہار کر کے پکّی کر لی ہے۔ آخر ہم لوگ کب اس نعمت کی قدر کریں گے جو ہمیں اپنے آباء و اجداد سے ورثے میں ملی ہے؟
میں نے ہندومت اور عیسائیت کا مطالعہ کیا ، مندر اور چرچ کے چکّر کاٹے ،لیکن تمام مذاہب کے مطالعہ کے علی الرغم دینِ اسلام کا مطالعہ کافی مختلف تھا ، اسلام نے مجھے اوّل روز سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، میں نے اسلام کو اپنے دل ودماغ سے قریب تر پایا ۔۔