کورونا کے قہر سے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات
دنیا بھر میں جی ڈی پی بری طرح متاثر، غربت میں اضافہ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
کورونا وائرس کے قہر کی وجہ سے عالمی معیشت کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کو ۹ ہزار ارب ڈالر کا خسارہ ہوسکتا ہے۔ صرف اپریل میں امریکہ میں پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں ۴۸ فیصد اور برطانیہ میں 20.4فیصد کی نمایاں کمی درج کی گئی۔ یوروپی یونین جس کا جی ڈی پی میں ۲۰ فیصد حصہ ہے وہاں بھی گزشتہ ۱۴ سالوں میں پہلی مرتبہ گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ عالمی بینک کے حالیہ جائزے میں بیس لائن کی بنیاد پر ۲۰۲۰ میں عالمی جی ڈی پی میں 5.2فیصد کی کمی کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ ۲۰۲۰ میں کئی ملکوں کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے ممالک میں فی کس آمدنی میں پہلی دفعہ کمی آئے گی۔ ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتوں میں ۷ فیصد تک سکڑاو کا اندیشہ ہے۔ عالمی بینک کے مطابق مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں محض 0.5فیصد کا معمولی اضافہ ہوگا۔ مگر جنوبی ایشیائی خطے کی معیشتوں میں 2.7فیصد، مشرق وسطیٰ و شمالی امریکہ 4.2-7فیصد ، یوروپ و وسطی ایشیائی 7.4فیصد اور لاطینی امریکہ کی معیشتوں میں 7.2فیصد کے سکڑاؤ کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں 0.4فیصد تک کی کمی یعنی ۳ہزار ارب روپیوں کے نقصان کا اندازہ ہے۔ وہاں وائرس سے قبل اقتصادی اصلاحات کے لیے اٹھائے گئے اقدام سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 3 فیصد تک کے اضافہ کا امکان تھا۔ بھارت کو بھی سخت ترین لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے اقتصادی بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔ بینک آف انڈیا کے چیف اکانومک مشیر سومیہ کانتی نے کہا کہ اس قہر کے باعث مجموعی گھریلو پیداوار کو ایک سہ ماہی میں ۴۰ تا ۵۰ لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مالیاتی امداد کا کوئی پیاکیج اس سے باہر نکلنے میں مدد نہیں کرسکے گا۔ لاک ڈاون کے سبب تارکین وطن محنت کشوں کے معاملے کو اچھی طرح کنٹرول نہیں کیا گیا ہے۔ غربت کی مار جھیل رہی دنیا میں کورونا وبا کی وجہ سے مزید ایک ارب سے زیادہ لوگ غریب ہو سکتے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق انتہائی غریب لوگوں کی تعداد 39.5 کروڑ ہوگی اس میں سے نصف جنوبی ایشیاء کے ہوں گے۔ یہ غربت کی مار سہنے والا سب سے بڑا خطہ ہوگا۔ کنگس کالج لندن اور آسٹریلین یونیورسٹیز کے محققین نے ایک مطالعہ کے بعد یہ اطلاع دی ہے۔ یہ مطالعہ اقوام متحدہ یونیورسٹی کے عالمی ترقی پذیر اکانومی ریسرچ تنظیم کے نئے جرنل میں شائع ہوا ہے۔ مطالعہ کے مطابق متوسط آمدنی والے ترقی پذیر ملکوں کی غربت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کی بڑی آبادی کا غریب ہونا ہے۔ غربت کے دلدل میں پھنسنے والے نئے لوگوں میں 30فیصد یعنی 11.9کروڑ لوگ افریقہ صحارا ملکوں کے ہوں گے۔ ایسے میں جنوبی اور مشرقی ایشیاء کے ترقی پذیر ملکوں میں غریبوں کی تعداد بے انتہا بڑھ سکتی ہے۔
کووڈ۔۱۹ کی مار کی وجہ سے جو دنیا بھر میں صورتحال ابھر رہی ہے اس میں آئی ایم ایف ۲۰۲۰ میں عالمی معیشت میں اپنے گزشتہ اندازہ سے بھی زیادہ سکڑاو کا اندازہ قائم کر سکتی ہے کیونکہ تنظیم کو معاشی ریکوری کے معاملے میں بہت زیادہ ہی غیر یقینیت نظر آرہی ہے۔ آئی ایم ایف کے بھارتی نژاد چیف ماہر اقتصادیات گیتا گوپی ناتھ نے ایک بلاگ میں یہ بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کووڈ-۱۹ کی وجہ سے پیدا شدہ مصائب کا بہت زیادہ اثر دنیا بھر کی معیشت پر پڑا ہے۔ اور یہ پہلے کی مصیبت سے مختلف نظر آرہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ اور ابھرتے ہوئے بازاروں میں مینو فیکچرنگ سیکٹر سے زیادہ ابتر حالت خدمت سیکٹر میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ انہوں نے مالیاتی بازاروں میں بہت زیادہ انحراف اور کافی اتار چڑھاؤ بلکہ بھاری گراوٹ کا بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف ۲۴ جون کو ورلڈ اکانومک آوٹ لُک کو اپ ڈیٹ کرے گا۔ آئی ایم ایف کے مینیجنگ ڈائرکٹر کرسٹیلینا جیورجیوا نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ یہ تنظیم ۲۰۲۰ میں عالمی کل گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں ۳ فیصد کے سکڑاؤ کو اپنے گزشتہ امکان کو ڈاؤن گریڈ کرسکتا ہے۔ مگر گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ کئی ملکوں میں افتتاحی ریکوری کے علامات دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن وبا کا نئے سرے سے تیزی سے پھیلاؤ اور لاک ڈاون کا پھر سے نافذ کیا جانا معاشی بازیافت کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ ان کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں بڑے پیمانے پر سرکاری خزانے کے پیکیج کے ذریعے اصولی تراکیب بھی کیے گئے ہیں لیکن غریب ممالک کے پاس وسائل محدود ہیں اور غیر منظم سیکٹرس کو اب تک خصوصی مدد نہیں مل پائی ہے۔ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ سیاحت پر منحصر معیشت پر لمبے عرصہ تک اس کا اثر دیکھنے کو ملے گا جو بہت تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ حکومتوں کو ایسی ضابطہ بندی کرنی چاہیے جس کے تحت سکڑاؤ والے عملوں کو مضبوط سلکٹرس کی طرف لے جانے میں مدد ملے۔ آئی ایم ایف کے چیف کرسٹین لیگارڈ نے بتایا کہ امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وہیں پیرس ایکونامک فارم ایونٹ میں بولتے ہوئے فرانس کے وزیر مالیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ دو بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کے عالمی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی درمیان مالی خدمت فراہم کرنے والی امریکی فرم مارگن اسٹینلی نے عالمی معیشت کی پرامید اور خوش نما تصویر پیش کی ہے۔ مارگن اسٹینلی کے معاشی ماہرین کی طرف سے ۱۴ جون کو تیار کیے گئے مڈ ایر پیدا ہونے والی آوٹ پٹ ۲۰۲۰ کی چوتھی سہ ماہی تک عالمی معیشت کورونا وبا کے پہلے مقام پہنچ جائے گی۔ جتن اہیا کی سربراہی میں تیار کیے گئے ریسرچ نوٹ میں گروتھ ڈاٹا میں آئی تیزی اور متعلقہ حکومتوں میں موجود سستی کو تیز مگر مختصر مدت میں رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال دوسری سہ ماہی میں عالمی جی ڈی پی گروتھ منفی 8.6فیصد رہے گا لیکن ۲۰۲۱ کی پہلی سہ ماہی میں یہ ریکوری کرتے ہوئے ۳ فیصد تک پہنچ جائےگی۔ مارگن اسٹینلی نے مندی کی مختصر مدت میں رہنے کے تین وجوہات بیان کیے ہیں۔
(۱) موجودہ مصیبت بھاری غیر متوازن حالات سے پیدا شدہ ترقی یافتہ جھٹکا نہیں ہے۔
(۲) ایکویٹی کیپٹل میں قرض کی پونجی کو کم کرنے کا دباؤ زیادہ تبدیلی لائے گا۔
(۳)متعلقہ حکومتوں کی طرف سے اصولی امداد فیصلہ کن اور کام میں آنے والی ہوگی اور اس سے جلد ریکوری میں مدد ملے گی۔
مگر وی شکل ہی کی ریکوری جس کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے صرف ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے سلسلے میں ہوں گے۔ غریب ممالک میں یہ ریکوری وی اور ایم شکل کے بجائے ڈبلیو شکل بھی ہوسکتی ہے کیونکہ متعلقہ حکومتوں کی طرف سے اصولی امداد نہیں بھی آسکتی ہے۔ اس لیے معیشت کی ریکوری دھیمی بھی رہ سکتی ہے۔ ریسرچ رپورٹ کے مطابق اکثر ممالک کے مرکزی بینکس اور وزارت مالیات اپنی معیشتوں میں پیسے ڈال رہے ہیں ایسے میں ریکوری کے لیے کی جارہی کوششوں کو حکومتی امداد جلد ہی ہٹائے جانے کی توقع کم ہے۔ اس آوٹ لک میں کووڈ۔۱۹ ویگن پر ہو رہی تحقیق کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اعلیٰ معیار کے کورونا ویکسین کی ۲۰۲۱ کی گرمیوں میں دستیابی کے امکان کو سامنے رکھ کر یہ تحقیقی نوٹ سامنے آیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کی دوسری لہر موسم سرما کے آس پاس آئے گی۔ پچھلے تجزیہ پر مارگن اسٹینلی کی رپورٹ زیادہ ہی خوش آئند نظر آرہی ہے لیکن آئی ایم ایف کے آوٹ لک کے مخالف ہے۔ ائی ایم ایف نے گزشتہ ہفتہ عالمی معیشت میں مدھم ریکوری اور غیر یقینیت کا آوٹ لک جاری کیا ہے۔ مذکورہ اقتباس میں اس پر بحث آگئی ہے۔
آئی ایم ایف کی طرح ہی ایشیائی ترقیاتی بینک نے امسال ایشیاء کی ترقی پذیر معیشتوں کا شرح نمو محض 0.1فیصد رہنے کے امکان کا اظہار کیا ہے۔ اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو سال ۱۹۶۱ کے بعد یہ ایشیا کا سب سے کم شرح نمو ہوگا۔ ساتھ ہی منیلا میں قائم اس بینک نے اپریل کے مہینے میں اس اندازہ سے ترمیم کی ہے جس کے تحت اس نے ایشیا کی ۴۵ ترقی پذیر معیشتوں کی ترقی کے شرح کے 2.2فیصد رہنے کا اندازہ کیا تھا۔ اس بارے میں اے ڈی بی کے خاص ماہر معیشت ماسویو کی سوادا نے کہا کہ ایشیاء کی میعشت پر کووڈ۔۱۹ کا گہرا اثر پڑے گا۔ لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کی شروعات پہلے ہی ہوگئی ہے۔ لیکن حالات کو پوری طرح معمول پر آنے کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک دنیا نئے ماحول میں کام کرتی نظر آئے گی۔ آئندہ سال معیشت میں تیز اچھال نظر آئے گا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہوگی کہ اس سال ترقی کی رفتار کافی کم رہے گی۔ بینک نے چین کے شرح نمو کو اس سال کے لیے 1.8رہنے کا اندازہ لگایا ہے جو کہ گزشتہ سال 6.1فیصد تھی۔ اس درمیان اے ڈی بی نے اس سال بھارت کے شرح نمو میں چار فیصد سکڑاؤ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
***
آئی ایم ایف کے چیف کرسٹین لیگارڈ نے بتایا کہ امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وہیں پیرس ایکونامک فارم ایونٹ میں بولتے ہوئے فرانس کے وزیر مالیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ دو بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کے عالمی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔