کورونا کی تباہی اور اللہ کی بندگی

یہ اسلام کی بہت بڑی خوبی کے اظہار کا وقت ہے

ڈاکٹر محی الدین غازی

کورونا کے خوف سے لاک ڈان اور سوشل ڈسٹینسنگ کی جو صورت حال پوری دنیا میں پیدا ہوئی، اس نے اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو آشکار کیا، اور وہ ہے اس کا اس قدر لچک دار ہونا کہ دنیا کو مفلوج کر کے رکھ دینے والی یہ آفت اسلام کے ستونوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی، اور سارے ستون پورے ثبات اور مضبوطی سے کھڑے رہے۔ اسلام کے تمام مطلوب اعمال انجام دیے جاتے رہے، اور اسی طرح انجام دیے جاتے رہے جس طرح معبود کو مطلوب ہیں۔ کسی عمل کو محض اس آفت کی وجہ سے معطل نہیں کرنا پڑا۔
یہ سچا واقعہ ہے کہ اس آفت کے نتیجے میں نہ تو اسلام سے کسی طرح کی دوری اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئی، اور نہ ہی کسی نئے اسلام کو ایجاد کرنے کی نوبت آئی۔ اور ہر موقع پر انکشاف ہوا کہ اسلام کے اندر اتنی زیادہ گنجائش خود نصوص (آیتوں اور حدیثوں) نے رکھی ہے، کہ نصوص کے دائرے سے ذرا بھی باہر نکلنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
اگر آج خانہ کعبہ کی زیارت ممکن نہیں ہو پا رہی ہے تو اسلامی نص نے صاف کہا ہے، {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیهِ سَبِیلًا} [آل عمران: 97] خانہ کعبہ کی زیارت اسی وقت مطلوب ہے جب کہ اس تک پہونچنے کی استطاعت ہو، اگر صورت حال سب لوگوں کی وہاں تک رسائی خطرناک بنادے تو خود قرآن کی آیتیں رہنمائی کر رہی ہیں کہ خود کو خطرے میں ڈال کر اور استطاعت کی حدوں کو پھلانگ کر وہاں پہونچنا مطلوب نہیں ہے۔اگر مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جمع ہونا صحت اور جان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے تو اسلامی نصوص خود اس کی گنجائش بتاتی ہیں کہ نماز کسی بھی جگہ پڑھی جاسکتی ہے، اسلام میں کسی بھی مخصوص جگہ پر نماز کے لیے جمع ہونا ضروری نہیں کیا گیا ہے۔
اگر اس آفت سے بچنے کے لیے کچھ لوگوں کا روزہ نہ رکھنا ناگزیر ہو، تو اسلامی نص نے خود تاکید کے ساتھ اس کی گنجائش رکھی ہے۔
{فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَیامٍ أُخَرَ} [البقرة:184]، جو بیمار ہو یا سفر پر ہو وہ بعد میں تعداد پوری کرلے۔
دین کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جو اپنے اندر لچک نہیں رکھتی ہو، اور یہ لچک ان حالات کے لیے بھی ہوتی ہے جو انسان اپنے لیے پیدا کرتا ہے، جیسے سفر اور ان حالات کے لیے بھی جو اس کی مرضی کے بغیر اس پر مسلط ہوجاتے ہیں، جیسے بیماری وغیرہ۔
موجودہ صورت حال سے کچھ لوگ بد دل سے نظر آتے ہیں، گویا ان سے ان کا اسلام چھین لیا گیا ہو، اور اب وہ دین پر عمل کرنے سے محروم ہوگئے ہوں، دوسری طرف کچھ لوگ تالیاں بجاتے نظر آرہے ہیں، ان کو بند مسجدیں اور حرم کا خالی مطاف دیکھ کر لگتا ہے کہ اسلام اس آفت کے مقابلے میں ہار گیا۔یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ اہل ایمان کی زندگی اگر پہلے اسلام اور اسلامی اعمال سے سے آراستہ تھی، تو اب بھی اسی طرح آراستہ ہے، کچھ بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کسی مومن نے حج کے لیے کبھی نہیں جانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، کسی مومن نے یہ طے نہیں کیا ہے کہ اب وہ کبھی مسجد نہیں جائے گا۔ کسی مومن نے زندگی بھر روزہ چھوڑ دینے کا ارادہ نہیں کیا ہے۔ غرض کوئی نمازی بے نمازی نہیں ہوا۔یہ صحیح ہے کہ عام حالات میں اسلام کے مظاہر بہت نمایاں ہوکر نظر آتے ہیں، مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، حرم کے صحن میں طواف کرنے والوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے، جنازے کی نماز سے لے کر دفن کرنے تک پوری بستی کے لوگ جمع رہتے ہیں۔یہ بھی صحیح ہے کہ اس آفت کے زمانے میں اسلام کے مظاہر کا اس طرح کھل کر اظہار نہیں ہورہا ہے، لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اسلامی اعمال کا سلسلہ جاری وساری ہے، اللہ اور بندے کا تعلق اسی طرح قائم ہے۔ اللہ کی تکبیر، تسبیح، حمد سے اہل ایمان کی زبانیں تر ہیں۔ دعائیں اور مناجاتیں زمین سے آسمان کی طرف بغیر وقفے کے رواں دواں ہیں۔ یہ اسلام کی بہت بڑی خوبی ہے، اور اس کے دین حق ہونے کی بہت روشن دلیل ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات کا مطالعہ کرلیں، دین کے تمام تر احکام دو سطح رکھتے ہیں، عام حالات میں دین پر عمل کرنے کی سطح اور مخصوص حالات میں دین پر عمل کرنے کی سطح۔
دنیا والے ہمیں معمول والی سطح کی عبادت کرتے ہوئے دیکھنے کے عادی ہوگئے تھے، اور ہم بھی اسی سطح کے عادی تھے، موجودہ صورت حال نے دین پر عمل کرنے کی دوسری سطح کے علم کو تازہ کردیا۔ دین کا یہ علم بھی بہت اہمیت رکھتا ہے، اور دین کی بہت بڑی خوبی کو انسانوں کے سامنے لاتا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں اسلام کا دوسرا رکن، یعنی زکات وصدقات غیر معمولی آب وتاب کے ساتھ اسلام کی ترجمانی کررہے ہیں، اگر نماز مکمل ادائیگی کے باوجود کھل کر سامنے نہیں آرہی ہے، تو زکات وصدقات کی عبادت ایک آفتاب بن کر طلوع ہوئی ہے اور پورے انسانی معاشرے پر اس کی روشنی پھیل گئی۔

***


دنیا والے ہمیں معمول والی سطح کی عبادت کرتے ہوئے دیکھنے کے عادی ہوگئے تھے، اور ہم بھی اسی سطح کے عادی تھے، موجودہ صورت حال نے دین پر عمل کرنے کی دوسری سطح کے علم کو تازہ کردیا۔ دین کا یہ علم بھی بہت اہمیت رکھتا ہے، اور دین کی بہت بڑی خوبی کو انسانوں کے سامنے لاتا ہے۔