عبدالباری مومن
کرونا وائرس کی وبا کا مقابلہ دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے اپنے طریقوں سے کیا اور کر رہے ہیں۔ ان کے اثرات بھی مختلف نظر آرہے ہیں۔ چین نے تو مکمل کامیابی کا اعلان کردیا ہے۔ اس وقت تک کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور، دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی حد تک کامیاب جارہے ہیں۔ یہ تینوں ممالک سال 2000 کے سارس حملے کے بعد سے ہی ہوشیار اور تیار تھے۔ کوووِڈ۔۱۹ کی بھنک پاتے ہی وہ اس کے دفاع میں جُٹ گئے۔ پڑے پیمانے پر انہوں نے اس کی تشخیص شروع کردی اور وقت رہتے اس کا زور توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان ممالک میں سے جنوبی کوریا ایک مرکزی نظم کی حامل جمہوریت ہے۔ تائیوان کا نظمِ حکومت غیر مرکزیت پر مبنی ہے اور وہاں شہری جمہوریت کا بول بالا ہے۔ جب کہ سنگاپور کا نظمِ حکومت آمرانہ نوعیت کا ہے۔ یہ تینوں ممالک بہت چھوٹے ہیں۔ اسی لیے یہاں بڑے پیمانے پر مرض کی تشخیص اور مریضوں کی قرنطینیت کے سلسلے میں کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
ب دنیا کے تین بڑے ممالک کی مثال لیجیے۔ ان میں چین ایک جابرانہ نظام حکومت کا حامل ہے، بھارت جو کچھ عرصہ پہلے تک واقعی ایک جمہوری ملک تھا لیکن اب تشویش ناک حد تک یہاں جمہوریت کا نظام روبہ زوال نظر آرہا ہے۔ امریکہ میں بھی جمہوریت کسی حد تک تنزل کا شکار ہے لیکن بہر حال وہاں اتنی خراب صورت حال نہیں ہے۔ وہاں صدر مملکت پر تنقید کے نتیجے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ چین کو سارس کی وبا پر قابو پانے کے لیے کافی جد وجہد کرنا پڑی تھی۔ لیکن اس کے بعد اس نے اپنے اطلاعاتی نظم کو چوکس کردیا اور کرونا کے پھیلنے کی اطلاع ملتے ہی دوسرے مقامات تک اس کو روکنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ حکومت کے ماتحت افسران نے شروع میں اس اطلاع کو اوپر تک پہنچنے سے روکا کیوں کہ ان کو اندیشہ تھا کہ ان کا ڈکٹیٹر ایک ناخوش گوار اطلاع کو سن کر کہیں خود ان کی کلاس نہ لے ڈالے۔ لیکن اس تاخیر کے باوجود چینی حکومت کی پوری مشینری فوراً حرکت میں آگئی اور اطلاعات کے مطابق اس نے وبا پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ (اگرچہ کچھ لوگوں کو اس پر یقین نہیں آرہا ہے) لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین کے پاس صنعتوں کو چلانے اور انفرا اسٹرکچر کی تیاری کا جو زبر دست تجربہ تھا وہ اس وبا کو کنٹرل کرنے میں اس کے معاون ثابت ہوا۔ اس نے تیزی سے اقدام کرتے ہوئے ریکارڈ وقت میں اسپتال تعمیر کیے اور وافر مقدار میں وینٹی لیٹر بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ دیگر ممالک کے پاس یہ سہولتیں نہیں تھیں کیونکہ انہوں نے یہ کام چین کو آوٹ سورس کردیے تھے۔ خود ہمارے ملک نے سردار پٹیل کا آہنی مجسمہ چین سے بنوایا۔ اس سلسلے میں چین کو جو تجربات حاصل ہوئے وہ وبا کو روکنے میں اس کے بہت کام آئے۔
امریکہ میں چونکہ خود صدر مملکت اور حزب اقتدار کے اکثر اراکین بھی، ماہرین کی آراء کو وہ اہمیت نہیں دیتے تھے جس کی وہ مستحق ہوتی ہیں اس لیے انہوں نے ان کی رایوں کو نظر انداز کیا۔ لیکن آخر کار مارچ ۲۰۲۰ء کے وسط میں جاکر وبا کا باقاعدہ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تب تک کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ طرفہ تماشہ یہ کہ امریکہ کی آبادی میں بوڑھوں کی تعداد بھی زیادہ ہے جو کورونا کے لیے آسان شکار ہیں۔ نیز ان کے پاس وافر مقدار میں وینٹی لیٹر بھی موجود نہیں ہیں۔ اس کا جو نتیجہ ہونا تھا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ چونکہ امریکہ میں سہولتیں امیروں کے لیے زیادہ ہیں اس لیے کم آمدنی والوں کے لیے بہت سے مسائل ہیں۔ یہاں تک کہ میڈیکل جانچ کے آلات اور بستروں کے استعمال میں بھی ترجیح اس بات کو دی جاتی ہے کہ کس کے زندہ بچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ بیمہ کمپنیوں کا نظام بھی ابتر ہے۔ سہولتیں بہم پہنچانے کی بجائے وہ یہ دیکھتی ہیں کہ کس طرح پالیسی ہولڈرس کی تعداد کم سے کم ہو اور پریمیم کی رقم زیادہ سے زیادہ۔
امریکہ میں وینٹیلیٹر کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ دس سال سے زیادہ عرصے قبل سے وہاں کا مرکز برائے تدارک امراض (CDCP) حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وینٹی لیٹرس کافی تعداد میں تیار کر کے رکھے جائیں تاکہ ناگہانی صورت حال میں کام آسکیں۔ ان کی پیہم گزارشات کے نتیجے میں پہلے تو وینٹیلیٹرس تیار کرنے کا کام ایک چھوٹی کمپنی کو دیا گیا۔ لیکن اس چھوٹی کمپنی کو ایک بڑی کمپنی نے خرید لیا۔ جب اس نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ حکومت وینٹیلیٹر بنانے کے لیے بہت کم قیمت دے رہی ہے، اس لیے اس نے اس کام اپنی ترجیحی فہرست سے نکال دیا۔ نتیجہ! آج اسپتالوں میں وینٹیلیٹرس کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ بھارت بھی کم وبیش امریکہ کی ہی پیروی کرتا رہا ہے۔ صحت و علاج کے معاملات پر حکومت جی ڈی پی کا بہت کم فیصد خرچ کر رہی ہے۔ جو ملک کی وسعت کو دیکھتے ہوئے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم بھی امریکہ کی مانند کورونا کی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ ہم نے بھی فروری ۲۰۲۰ء کا مہینہ اور نصف مارچ (جو بہت قیمتی تھا) انتظار میں کھودیا، اس لیے نہیں کہ ہمیں ماہرین پر اعتماد نہیں بلکہ اس لیے کہ ہماری سیاست پر کورونا سے زیادہ طاقت ور دو عدد اور وائرس چھائے ہوئے تھے۔ نفرت اور عدم برداشت کے وائرس۔ کورونا کا عذاب نازل ہوجانے کے باوجود یہ دونوں وائرس ہم پر مسلط ہیں۔مارچ کے تیسرے ہفتے میں یکایک بغیر کسی تیاری اور مشورے کے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اس سے کیا مسائل پیدا ہوں گے، (غریبوں کے لیے کھانے پینے کے، شب باشی، بے گھری، بے کسی اور بدحالی، بے روزگاری، پولیس کی ڈنڈا بازی وغیرہ) یکایک صرف چار گھنٹے کی مہلت دے کر (وہ بھی رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک کی) پورے ملک کے میں لاک ڈاون کا اعلان کردیا گیا۔ چند دنوں کے بعد جس مالیاتی پیکیج کا اعلان کیا گیا حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھا۔ اس میں نصف تو وہی اسکیمیں تھیں جن کا اعلان پہلے ہی عام حالات کے تحت ہوا تھا۔ بس ان کو نیا لباس پہنا دیا گیا۔
بھارت کو اس وقت دو کیفیتوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک طرف لاک ڈاون ہے جس کے نتیجے میں معیشت ڈانوا ڈول ہو رہی ہے۔ غریبوں کے سر پر تباہی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ دوسری طرف لاک ڈاون ہٹانے کے نتیجے میں طوفانی رفتار سے وبا کے بڑھنے کا امکان ہے، جس کا سیدھا وار بڑی عمر کے بزرگوں پر ہوسکتا ہے۔یہ تواز ن کس طرح قائم رکھا جائے، اس کے لیے سب کو ساتھ لے کر گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ البتہ ایک بات یقینی ہے کہ اس معاملے میں مغرب کی اندھی پیروی کام آنے والی نہیں ہے۔ وہاں کی آبادی میں بزرگوں کا تناسب بہت زیادہ ہے جب کہ ہمارے یہاں نوجوانوں کا تناسب آبادی میں ماشاءﷲ اچھا خاصا ہے۔
موجودہ دور انفارمیشن ٹکنالوجی اور ڈیجیٹل ترقی کا دور ہے۔ اس کے نتیجے میں ’’ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم‘ ‘ ہرکام میں آسانی ہوگی۔ چٹکیاں بجاتے ہر خواہش پوری ہوجائے گی۔ لیکن لاک ڈاون نے ہم کو اپنی اوقات بتا دی ہے۔ضروری نہیں کہ ٹکنالوجی ہمیشہ ہماری توقعات پر پوری اترے۔ یہ ہر مسئلے کا حل نہیں ہے، اس لیے کہ ہر ایک کو اس تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ بے شمار لوگ ہیں جو اس کی برکتوں سے بے بہرہ ہیں۔ ڈیجیٹل پروسیس میں ایک اہم حصہ انسان کے شخصی عمل کا بھی ہے، جس سے بے نیاز رہنا ممکن نہیں ہے۔آج بھی تعلیم یافتہ اور خوش حال لوگ ہی اس سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہیں ہر اطلاع وقت پر مل جاتی ہے۔ آج کے اس انتشار زدہ اور اندیشوں بھرے ماحول میں وقت پر حاصل ہونے والے معلومات ہی سب سے بڑا سہارا ہیں۔ تعلیم کو تو بڑے پیمانے پر آن لائن کیا جارہا ہے ۔ لیکن کیا دیہاتوں کے طلبہ بھی شہر کے طلبہ کی طرح ان سے فائدہ اٹھانے کے لائق ہوں گے۔ آمدنی کی عدم مساوات کی طرح ڈیجیٹل عدم مساوات بھی ایک بڑا عامل ہے جو غریبوں کے لیے سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ادائیگی کی ڈیجیٹل سہولتوں کے باوجود چھوٹے دوکاندار آج بھی نقد لین دین کو ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ اس میں ان کے لیے بہت آسانیاں ہیں۔
ایک بہت بڑا مسئلہ جو لاک ڈاون کے نتیجے میں پیدا ہورہا ہے وہ خواتین پر گھریلو تشدد میں اضافہ کا ہے جبکہ عام دنوں میں بھی اس سے مفر نہیں تھا۔ لاک ڈاون کے نتیجے میں اس کی شدت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۴ء میں جب مغربی افریقہ کے ممالک میں ایبولا کی وبا کے حملہ کے نتیجے میں وہاں لاک ڈاون ہوا تھا تو گھریلو خواتین پر تشدد، جنسی حملوں وغیرہ میں ایک سال میں ۴۰؍ فیصد کا اضافہ ہوگیا تھا۔ موجودہ لاک ڈاون کے نتیجے میں بھی متاثرہ ممالک میں یہی صورت حال پیدا ہورہی ہےبھارت میں مارچ کے مہینے میں خواتین کے قومی کمیشن کو گھریلو تشدد کی ۱۹۱؍ شکایات موصول ہوئیں ۔ اب تو وہ صرف ای میل پر شکایات لے رہی ہیں۔ حیرت انگیز طور سے خواتین کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے فون بالکل خاموش ہیں۔ شاید گھروں میں مردوں کے ہمہ وقت موجود رہنے کی وجہ سے خواتین کو حکومت کے ذمہ داروں تک اپنی شکایتیں پہنچانے میں دشواری ہورہی ہے۔ ہمارے یہاں تو یہ عام رواج ہے کہ پولیس زیادہ تر خواتین پر تشدد کے معاملات میں سنجیدگی نہیں برتتی۔ اکثر معاملات جب کسی این جی او یا خواتین کمیشن کے ذریعے ان تک پہنچتے ہیں تب ہی وہ ان میں کچھ کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام معاملات پر بھی غور کرے۔ ان کو معمولی نہ سمجھے۔ صرف امیروں، تعلیم یافتہ طبقے اور اوسط درجے کی آبادی کو ہی مدنظر نہ رکھے، یہ لوگ تو سہولتوں سے کسی نہ کسی طرح فائدہ اٹھا ہی لیں گے لیکن، ان پڑھ، غریب اور دیہاتی بے چارے کیا کریں گے؟
***
ہم بھی امریکہ کے مانند کورونا کی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ ہم نے بھی فروری ۲۰۲۰ء کا مہینہ اور نصف مارچ (جو بہت قیمتی تھا) انتظار میں کھودیا، اس لیے نہیں کہ ہمیں ماہرین پر اعتماد نہیں بلکہ اس لیے کہ ہماری سیاست پر کورونا سے زیادہ طاقت ور دو عدد اور وائرس چھائے ہوئے تھے۔ نفرت اور عدم برداشت کے وائرس