منصور قاسمی ، ریاض سعودی عرب
کورونا وائرس ایک ایسا نام ہے جس کو سنتے ہی لوگ خوف ودہشت سے بھاگ کھڑے ہو رہے ہیں۔ اس کے اثرات سے دنیا لرزہ بر اندام ہے۔ 175سے زائد ممالک کی رفتار تھم گئی ہے، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک بھی بے بس نظر آ رہے ہیں، شاہراہ عام خاموش پڑی ہے، پبلک مقامات میں سناٹا چھایا ہواہے، شاپنگ مالز بازار اور اجتماعی تقریبات سب بند ہیں۔ صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ میڈیکل سائنس، ریسرچ سنٹر اور جدید ٹکنالوجی سب فیل ہو گئے ہیں۔تا دم تحریر دنیا بھر میں 13ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس وقت اٹلی میں سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں جبکہ چین نے اس پر بہت حد تک قابو پالیا ہے۔ ہندوستان میں بھی اس وائرس کے متاثرین میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور 7لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔کہا جاتا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر شخص جب کھانستا یا چھینکتا ہے تو اس سے خارج ہونے والے لعاب یا چھینٹوں کے ذریعہ جراثیم فضا میں پھیل جاتے ہیں پھر جب اس کے اطراف میں لوگ چلتے پھرتے ہیں یا ساتھ بیٹھتے ہیں یا اس سے بالمشافہ ملتے ہیں تو وہ جراثیم ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن لاحق ہونے سے علامت ظاہر ہونے تک 14ایاملگتے ہیں۔ اس دوران اگر احتیاط برتی گئی، خاطر خواہ علاج کیا گیا تو یہ وائرس مرجاتے ہیں ورنہ پھیپھڑوں میں پہنچ کر اس کو خراب کر دیتے ہیں اور مریض کی جان چلی جاتی ہے۔ تمام ممالک اعلان کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ کو صابن یا جیل سے خوب اچھی طرح دھوئیں اور بار بار دھوئیں، ماسک کا استعمال کریں، کھانستے یا چھینکتے وقت اپنے منہ اور ناک کو ٹشو پیپر یا کپڑے سے ڈھانپ لیں، اپنی آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے بچیں۔ سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس یا اس طرح کی دیگر بیماریاں کیوں کر پیدا
ہوتی ہیں؟
دراصل بیماریوں کی جڑ گندگی اور غلاظت ونجاست ہے۔ اگر صفائی اور نظافت وطہارت کا اہتمام کیا جائے تو کورونا وائرس جیسے مہلک مرض سے بچا جا سکتا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ چین کے شہر ووہان کے اس بازار سے یہ وبا پھیلی ہے جہاں کتے، بلی، سانپ، چھپکلی، خنزیر، چمگادڑ، لومڑی، ریچھ اور دیگرحرام جانوروں کے گوشت فروخت ہوتے ہیں۔ بعض چینیوں کو زندہ چوہے، ککروچ، مینڈک اور بچھووں کو کھاتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ چینیوں کا سب سے مہنگا اور مرغوب سوپ ’’جنین کا سوپ‘‘ ہے۔ کورونا یا چمگاڈر سے پھیلا ہے یا پنگولین سے اس کی تحقیق جاری ہے۔ اس سے پہلے2003 میں ’’سارس‘‘ نامی وائرس چمگاڈر ہی سے پھیلا تھا جس میں 774 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں تھیں اور 1800 افراد متاثر ہوئے تھے۔ دل تھام کر بتائیں کہ ایسے کھان پان کرنے والے کورونا وائرس کے شکار ہوں گے یا نہیں؟ اسی لیے شریعت مطہرہ نے نظافت وطہارت کو ایمان کا جز قرار دیا ہے۔ پاک صاف غذا کھانے کا حکم دیا ہے جس کو اسلام نے حلال کہا ہے۔ دنیا اسے مانتی اور کھاتی ہے۔ جس کو حرام قرار دیا ہے کھانے والے بھی اسے برا سمجھتے ہیں مگر نفس میں طہارت نہ ہونے کی وجہ سے کھاتے ہیں اسی لیے کورونا وائرس اور دیگر وبائی امراض پھیلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں پاکی، صفائی وستھرائی کی بڑی اہمیت ہے۔ آپ احکام اسلام کے تمام اصول و فروع پر نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ عبادات، معاملات، اعتقادات کے ساتھ ہی طہارت و نظافت کے سلسلے میں بھی واضح ہدایات موجود ہیں۔ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو اپنے بدن اور کپڑوں کے ساتھ ماحول کو بھی صاف و شفاف رکھنے کا حکم دیا ہے، اس پر کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: یہ ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (التوبہ108) اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے (البقرہ222) حکم ربانی ہوا: اور (اے رسول) آپ اپنے کپڑوں کو پاک و صاف رکھا کرو (المزمل 4) ہادی دو جہاں حبیب خدا محمد ﷺکا ارشاد ہے:پاکی آدھا ایمان ہے۔ فرمایا:مسواک کیا کرو کہ اس میں منہ کی پاکی اور حق تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان 1994میں جب استنبول کے میئر منتخب ہوئے تو اس وقت استنبول میں صفائی ستھرائی کا معقول انتظام نہیں تھا۔ انہوں نے سلوگن دیا ’’مجھے ترکی کو صاف ستھرا بنانا ہے‘‘۔ چنانچہ آج استنبول دنیا کا ایک صاف ستھرا اور خوبصورت شہر ہے اور اردگان ترکی کے صدر۔ در اصل انسان کی سرشت میں صفائی وستھرائی ہے جس سے روح میں نشاط اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ وہ گندگی اور غلاظت کو ناپسند کرتا ہے جس سے دل متنفر ہوتا ہے۔ ماہرین طب کہتے ہیں کہ ڈائریا، ٹائیفائڈ، جلدی ودیگر بیماریوں کی جڑ گندگی اور نجاست ہے، انگلیوں کے ناخن نہ کاٹے جائیں تو اس میں میل کچیل جمع ہو کر جراثیم پرورش پاتے ہیں، پھر کھانے کے ذریعہ پیٹ میں چلے جاتے جس سے بیماری لاحق ہوجاتی۔ کورونا وائرس ہاتھ کے ذریعہ ہی ایک آدمی سے دوسرے آدمی تک پہنچ رہا ہے۔ اسی لیے شریعت کا مطالبہ ہے کہ ہفتے میں ایک بار ناخن کی صفائی کرلیں۔ یہ اسلام ہی کی شان ہے کہ جس نے عبادت کی صحت و تندرستی کے لیے طہارت ونظافت کو شرط قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:اللہ تعالیٰ طہارت کی بغیر نماز قبول نہیں کرتا۔ اب جب کہ پوری دنیا میں کرونا وائرس کی وبا پھیل چکی ہے تو دیکھیں کہ شریعت اسلامی اس سلسلے میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟
دور نبوی میں ایک مرتبہ طاعون پھیل گیا اس وقت طاعون کا کوئی علاج نہیں تھا اور یہ ایک متعدی مرض تھا جیسا کہ آج کورونا وائرس پھیلا ہوا ہے۔ اگر کوئی طاعون میں مبتلا ہوتا تو اسے موت اپنے شکنجے میں لے لیتی۔ کورونا وائرس کی صورت حال بھی یہی ہے ۔طاعون کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ سے جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے جاننا چاہا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے وہ جس قوم پر چاہتا ہے اس کو بھیجتا ہے، لیکن مومن بندہ کے لیے یہ رحمت ہے کسی مقام پر طاعون پھیل جائے اور کوئی مومن بندہ وہاں موجود ہو تو وہاں سے نہ نکلے، اس کا عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جو مقدر کردیا ہے اس کے سوا کوئی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اگر مومن بندہ طاعون سے مرجائے تو اس کو شہید ہونے کا ثواب ملے گا۔
ایک مرتبہ رحمت عالم محمد ﷺ نے فرمایا:جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاو لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے مت نکلو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں مجاہدین کا ایک لشکر جو مدینہ سے باہر کسی مقام پر ٹھہرا تھا، اس کو لے کر ملک شام جانا چاہتے تھے۔ اس وقت شام میں طاعون پھیلا ہوا تھا، جانے اور نہ جانے کے سلسلے میں لشکر میں اختلاف ہو گیا پھر فتح مکہ کے وقت ایمان لانے والوں سے مشورہ کیا گیا تو انہوں نے آگے بڑھنے رک جانے کا مشورہ دیا۔ خلیفہ نے لشکر کو لوٹنے کا حکم دیا اس پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تقدیر سے بھاگا جا سکتا ہے؟ حضرت عمر نے کہا ہاں! میں تقدیر سے بھاگ رہا ہوں لیکن ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف۔ کچھ دیر بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف تشریف لائے اور انہوں نے نبی ﷺ کی ایک حدیث سنا کر خلیفہ کے فیصلے کی تائید کی۔
حضرت ایوب علیہ السلام صبر وشکر کی علامت تھے۔ ایک بار انتہائی موذی مرض کے شکار ہو گئے۔ اپنے سب ساتھ چھوڑ گئے سوائے ایک صابرہ بیوی کے۔ جب تکلیف بہت بڑھ گئی تب بھی حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنے رب سے شکوہ نہیں کیا بلکہ عرض کیا:أَنِّی مَسَّنِی الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ( الانبیاء 83) مجھے یہ بیماری چھو گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان کو صحت عطا فرمائی۔
مذکورہ قرآنی آیات اور احادیث سے ہمیں جو درس ملتا ہے اس کی روشنی میں اگر آپ کے شہر میں کورونا وائرس کی وبا پھیل گئی ہے تو اپنے شہر کو نہ چھوڑیں۔ اگر آپ اس مصیبت کی زد میں آگئے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصائب میں مبتلا کردیتا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح صبر وشکر کے ساتھ رہیں اللہ سے رحم و کرم اور شفاء کی دعا مانگیں۔ اس شہر میں نہ جائیں جہاں کورونا وائرس سے لوگ متاثر ہیں۔ جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا اور حضرت عمر نے کیا، یہ عین شریعت اور تقاضائے تقدیر ہے۔ عوامی مقامات اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے دور رہیں۔ اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثر ہے تو اس سے ملنے میں احتیاط برتیں۔ کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے سب سے عمدہ طریقہ بار بار ہاتھوں کا دھونا ہے اور یہ مطلوب وضو سے پورا ہوتا ہے۔ کھانے سے قبل اور بعد میں اور بیت الخلاء کے استعمال کے بعد صابن سے اچھی طرح ہاتھوں کو دھوئیں۔ صفائی کا یہ طریقہ اسلام نے پہلے ہی بتایا ہے۔ سلام ترک نہ کریں البتہ مصافحہ اور معانقہ کرنے سے بچیں کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ کھانسی اور چھینک کے وقت منھ ڈھانپ لیں تاکہ کوئی عیب نہ سمجھے اور اگر آپ کورونا وائرس میں مبتلا ہیں تو دوسرا آپ سے محفوظ رہے۔ سردی کھانسی، بخار اور بدن شکنی کی شکایت ہو تو گھر ہی میں رہیں۔ اجتماعات سے پرہیز کریں اور نماز کے لیے بھی مسجد نہ جائیں بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھیں۔ مسجد بالکل بند نہ کی جائے تاہم مسجد کے انتظامیہ مسجد میں رکھے تولیوں اور ٹوپیوں کو ہٹالیں، وضو خانے، استنجاء خانے کی خوب صفائی ہو، مسجد کے فرش کو خوب اچھی دھوکر نماز پڑھیں، جمعہ کے دن ازدحام سے بچنے کا معقول انتظام کریں، اپنے گھر اور محلے کی خوب صفائی کا اہتمام کریں، ہر نماز میں کورونا وائرس جیسی وبا سے حفاظت کی دعا کریں اور کثرت سے توبہ و استغفار کریں کہ یہی شریعت مطہرہ کی تعلیمات و ہدایات ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کی کورونا وائرس اور اس جیسی وباوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین
[email protected]
مسجد بالکل بند نہ کی جائے تاہم مسجد کے انتظامیہ مسجد میں رکھے تولیوں اور ٹوپیوں کو ہٹالیں، وضو خانے، استنجاء خانے کی خوب صفائی ہو، مسجد کے فرش کو خوب اچھی دھوکر نماز پڑھیں، جمعہ کے دن ازدحام سے بچنے کا معقول انتظام کریں، اپنے گھر اور محلے کی خوب صفائی کا اہتمام کریں، ہر نماز میں کورونا وائرس جیسی وبا سے حفاظت کی دعا کریں اور کثرت سے توبہ و استغفار کریں کہ یہی شریعت مطہرہ کی تعلیمات و ہدایات ہیں۔