کورونا وائرس: کیا میڈیا کے ذریعے ’’ویلن‘‘ کے طور پر پیش کی گئی تبلیغی جماعت ’’مسیحا‘‘ کی شکل میں سامنے آئے گی؟

نئی دہلی، اپریل 27: گذشتہ چند دنوں میں سوشل میڈیا پر تبلیغی جماعت کے ممبروں کی ایسی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں، جن میں وہ کورونا وائرس کے سنگین مریضوں کی جان بچانے کے لیے اپنے خون کا پلازما عطیہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو کورونا وائرس میں مبتلا تھے لیکن اب ان کا مکمل علاج ہو گیا ہے اور یہ صحت یاب ہیں۔ ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے #تبلیغی ہیروز اور #تبلیغی جماعت پر گَرو(فخر) ہے، جیسے ہیش ٹیگس ٹویٹر پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

ابھی کچھ ہفتہ پہلے ہی تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز سے سیکڑوں افراد کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہونے کے بعد میڈیا کے ایک حصے نے خاص طور پر تبلیغی جماعت اور اس کے ممبران اور عام طور پر تمام مسلمانوں کو ’’ویلن‘‘ قرار دے دیا تھا۔ دہلی کے نظام الدین علاقے میں تبلیغی جماعت کے مرکز کی عظیم الشان مسجد سے 2،000 سے زیادہ افراد کو باہر نکالیا گیا تھا۔ اور میڈیا کے ذریعے انھیں ملک میں متعدی بیماری کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

اپنی یومیہ پریس بریفنگ میں مرکزی وزارت صحت نے 18 اپریل کو کہا تھا کہ اس دن تک ملک میں کورون وائرس کے 14،378 مثبت واقعات میں سے 4،291 (29.84فیصد) تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز سے وابستہ ہیں۔

تاہم گذشتہ ہفتے (22 اپریل) کو مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے آئی سی ایم آر اور عالمی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے خون کے پلازما سے اس بیماری کے سنگین مریضوں کی زندگی کو بچایا جاسکتا ہے۔ جس کے بعد تبلیغی جماعت کے امیر نے اپنے صحت یاب ممبروں اور عام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے خون کا پلازما عطیہ کریں۔ انھوں نے ان سے کہا ’’وہ آگے آئیں اور انسانیت کے ساتھ اس احسان کا مظاہرہ کریں اور خون کا پلازما عطیہ کرکے معاشرے اور حکومت کی مدد کریں۔‘‘

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بھی کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد صحت یاب ہونے والے لوگوں سے خون کا پلازما عطیہ کرنے کی اپیل کی۔ جس کے بعد مبینہ طور پر سرکاری سطح پر چلنے والے قرنطینہ مراکز میں مقیم تبلیغی جماعت کے درجنوں ممبران سامنے آئے اور اپنا خون عطیہ کیا۔

تبلیغی جماعت کے ممبران کے اس عمل کی ستائش کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کئی ہیش ٹیگس ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ بہت سارے سوشل میڈیا صارفین نے ان کی تعریف کی ہے اور میڈیا اور حکومت سے اس ماہ کے شروع میں ان لوگوں کو مجرم کے طور پر پیش کرنے پر سوال اٹھایا۔

معروف بالی ووڈ اداکار اعجاز خان نے ٹویٹ کیا ’’آپ نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ آپ نے جعلی خبروں سے ان کا مذاق اڑایا۔ آپ نے ان کے ایمان کے لیے ان کو شیطان بنا ڈالا۔ بدلے میں#تبلیغی ہیروز نے آپ کو پلازما دیا۔ اس طرح تبلیغیوں نے ثابت کیا کہ ان کا ڈی این اے پیار ہے نہ کہ نفرت۔‘‘

جے این یو کے سابق ریسرچ اسکالر عمر خالد نے بھی ٹویٹ کیا ’’تم نے کہا: یہ کورونا جہاد کر رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کے خلاف سازش ہے۔ یہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ اے گودی میڈیا! یہ تبلیغی تو اپنا پلازما عطیہ کر کے لوگوں کی جان بچا رہے ہیں۔ یہ جان لینے والے جان بچانے والے کیسے بن گئے؟ لو ہو گیا نا! خون کا خون پانی کا پانی۔‘‘

ایک ٹویٹر صارف شریا یادو نے کہا ’’تبلیغی جماعت کے لوگ جس گرم جوشی کے ساتھ ملک کی خدمت میں آگے آئے ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔ غلطیوں کو پھر سے سدھارا نہیں جا سکتا لیکن بہترین کام کر کے ان کی بھرپائی ضرور ہو سکتی ہے۔‘‘

ایک اور صارف نے تبلیغی ممبران کے ذریعے خون کا پلازما عطیہ کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ٹی این کے ایک اور # تبلیغی ہیرو فاروق باشا سب سلطانپوری سنگرودھ مرکز میں کوویڈ 19 مریضوں کی امداد کے لئے خون اور پلازما کا عطیہ دیتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم یقین کریں کہ ان لوگوں نے نرسوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور ڈاکٹروں پر تھوک دیا۔ لوز سازشی تھیوریوں کو اپنے پاس رکھیں۔

اے بی پی نیوز کے صحافی جینندر کمار نے ٹویٹ کیا ’’تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کی اپیل کے بعد دہلی کے الگ الگ قرنطینہ مراکز میں صحت یاب ہونے والے تبلیغی جماعت کے ممبران خون کا پلازما عطیہ کر رہے ہیں، تا کہ وائرس سے متاثر دوسرے لوگوں کو بچایا جا سکے۔‘‘