کورونا وائرس: خدشہ کچھ اور ہے اس ورطۂ بیماری میں

خصوصی مضمون

اے رحمان

یہ ممکن ہی نہیں کہ وطنِ عزیز میں کوئی بڑا واقعہ یا حادثہ رونما ہو،کوئی سیاسی یا معاشی بحران آئے،کوئی آفتِ ارضی یا سماوی نازل ہو ،قحط،بیماری یا وبا پھوٹ پڑے اور افواہوں کا بازار گرم نہ ہو نیز حلّ ِ مشکلات اور علاج معالجے کا وسیع پیمانے پر کاروبار شروع نہ ہو جائے۔صورتِ حال کتنی ہی دل دوز اور سنگین کیوں نہ ہو بے شمار بے ضمیر افراد اور تنظیمیں اسے بھنانے کے لیے رات دن سرگرم ہو جاتے ہیں۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حالات جتنے زیادہ سنگین ہوتے ہیں اتنی ہی بڑی تعداد میں اور اتنی ہی شدّت کے ساتھ مذکورہ کارو بار وجود میں آ کر سادہ لوح عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ان کو خاطر خواہ کامیابی ملتی ہے عوام الناس کے اس رجحان بلکہ خصلت سے جس کے تحت اخبار میں چھپا ہوا کوئی لفظ اور اس سے بھی بڑھ کر کسی ٹی وی چینل سے نشر کی گئی کوئی اطلاع آکاش وانی یعنی ندائے غیبی کا درجہ رکھتی ہے۔ یو ٹیوب پر مفت اور آسانی سے بن جانے والے ’’نیوز چینلوں ‘‘ نے جہاں عوام کو اطلاعات اور موضوعات تک خصوصی اور ہمہ وقت رسائی فراہم کی ہے وہیں ایسے حریص اور بے ضمیر ’’صحافی‘‘ بھی پیدا کر دیئے ہیں جو شرمناک غیر ذمّہ داری کے ساتھ سنسنی خیزیت کے بارہ مسالے ڈال کر اخبار و مباحث کی ایسی چٹپٹی چاٹ کا دسترخوان سامعین و ناظرین کے سامنے سجاتے ہیں جو سریع ا لاعتقادعوام کےلیے  گم راہ کن تو ہوتا ہی ہے ،بعض حالات اور معاملات میں مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ایسا ہی سنگین معاملہ فی الوقت کورونا وائرس کے پھیلائے ہوئے قہر کا ہے۔پرنٹ میڈیا (جو کافی حد تک قابل ِ اعتبار اور ذمہ داررپورٹنگ کرتا ہے)اور ٹی وی نیوز چینل (جو زیادہ تر مشکوک ہیں) شب و روز کورونا کی خبروں سے معمور ہیں۔لیکن یو ٹیوب چینلوں پر تو بہار آئی ہوئی ہے۔واضح ہو کہ ان چینلوں کے مالکان زیادہ تر اس دبستانِ صحافت کی پیداوار ہیں جس کا اصول تھا کہ اگر کتّا آدمی کو کاٹ لے تب ہی خبر بنتی ہے یعنی وہی چٹپٹا اور/یا سنسنی خیز عنصر۔یہ لوگ مثبت خبر رسانی میں یقین نہیں رکھتے اور دو تجسّس خیز یا تحیّر آمیز خبروں کے درمیانی وقفے کو ’’ ماہرین‘‘ کے انٹرویو ز اور مباحث (debates ) سے پُر کرتے ہیں۔اور ان ماہرین کی معتبریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ کل ایک ایسے ہی ’چینل‘ پر ایک ’ڈاکٹر صاحب ‘کو انٹرویو کیا جا رہا تھا جن کا فرمانا تھا کہ کورونا وائرس معمولی نزلے زکام کا وائرس ہے اور اس کی ہلاکت انگیزی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو امریکہ اور چین نے مل کر پوری دنیا سے کیا ہے نیز اس دھوکے سے ہونے والے منافع میں دونوں ممالک برابر کے حصّے دار ہیں۔اپنی بات کے ثبوت میں انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ ایسا ہی بہت بڑا دھوکہ ماضی میں امریکہ اور فرانس نے مل کر HIV کے نام سے کیا تھا جب کہ اس وائرس یعنی HIV کا وجود ہی آج تک ثابت نہیں ہو سکا۔اور نا ہی کسی شخص کی اس وائرس سے موت ہوئی۔جو دو چار لوگ مرے بھی تو وہ AIDS سے ہلاک ہوئے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایڈز کے بے شمار مریضوں کا علاج بھی کیا ہے۔اس ’ماہر‘ نے کورونا کی ابتلا کے سلسلے میں کیا مشورے دیئے ہوں گے اس کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔لبّ ِ لباب اس انٹرویو کا یہ تھا کہ کورونا وائرس مارکیٹنگ کی ایک حکمتِ عملی ہے جس کے تحت اربوں روپے کا کاروبار کیا جائے گا۔یہ بھی بتا دوں کہ دیکھنے میں بھی ایک معمولی سی ٹی شرٹ پہنے ہوئے وہ دبلا پتلا سیہ رو شخص ڈاکٹر سے زیادہ پنواڑی معلوم ہوتا تھا۔نکتہ اس بحث میں یہ مضمر ہے کہ کسی بھی ناگہانی یا ہنگامی صورت ِ حال میں، خواہ اس کا سبب عالمی وبا ہو یا عالمی جنگ،غلط اطلاعات (misinformation ) اور گمراہ کن ہدایات و مشورے وبا اور جنگ سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔جنگ ہو وبا ہو یا کوئی آفت،صحیح وقت پر صحیح عمل،علاج اور احتیاط ہی بہتری کا موجب ہے۔

کورونا اپنی موجودہ شکل میں فی نفسہ مہلک نہیں ہے مگر ان لوگوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے جو پہلے ہی کسی سنگین آزار جیسے ذیا بیطس ،فشارِ خون یا قلبی کم زوری کا شکار ہوں یا کسی بھی دوسری وجہ سے جن کے جسم کا دفاعی نظام کمزور ہو چکا ہو،یہی وجہ ہے کہ مریض اور معمّر (پچپن سے متجاوز) لوگوں کو کورونا سے مہلک خطرہ ہے۔

کورونا کی افزائش کہاں اور کیوں ہوئی اور اس نے باہر آ کر کس طور انسانوں کو infect یعنی متاثر کیا اس سلسلے میں مختلف اور متضاد نظریات گردش میں ہیں۔لیکن یہ سوال ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔بنیادی مسٔلہ ہے اس وائرس کی ہلاکت خیزی سے بچنے اور اس کا علاج ڈھونڈنے کا۔ابھی تک اس سے پیدا شدہ عفونت اور بیماری (جس کا حملہ انسانی نظام ِ تنفّس پر ہوتا ہے)کے لیے نہ تو کوئی توڑ موجود ہے نہ دوا۔اس کی ویکسین بنانے کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن اس کے لیے بہت وقت درکار ہوتا ہے۔یہاں دوا اور ویکسین (vaccine) کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔دوا کا تعلّق علاج سے ہے اور ویکسین کا انسداد سے۔قدرت نے انسانی جسم کا مدافعتی نظام اس طریقے سے ترتیب دیا ہے کہ اگر جسم میں کسی بھی ذریعے سے کوئی مرض یا مولد مرض جرثومہ داخل ہو جائے تو خود بخود اس قسم کے جرثومے بننا شروع ہو جاتے ہیں جو اس مرض سے جنگ کرتے ہیں۔انہیں antibodies کہا جاتا ہے۔ اگر مرض زیادہ طاقت ور ثابت ہو تو مریض کو دوا کی حاجت ہوتی ہے اور اس کے مہیّا نہ ہونے کی صورت میں وہ ہلاک ہو جائے گا۔لیکن اگر antibodies اس مرض یا مرض کے جرثومے پر حاوی ہو جائیں تو مرض پیدا ہی نہیں ہوگا۔ویکسین دوا نہیں بلکہ کسی وائرس یا اس وائرس کی کیمیائی شکل کی ایک قلیل سی مقدار ہوتی ہے جسے انجکشن کے ذریعے صحت مند جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے تاکہ جسم کا مدافعتی نظام اس جرثومے سے ممکنہ طور پر پیدا ہونے والی بیماری سے جنگ کرنے کے لیے ’دشمن جرثومے‘یعنی antibodies پیدا کر سکے۔لیکن کسی بھی وائرس کی کیمیائی ’نقل‘ بنانے اور انسانی جسم کے لیےاس کی محفوظ یعنی بے ضرر مقدارکا تعیّن کرنے کےلیے بے شمار تجربات درکار ہوتے ہیں جن میں ظاہر ہے وقت لگتا ہے۔کسی بیماری کی دوا بنانا تو اس سے بھی زیادہ دقّت طلب کام ہے کیونکہ اس کے لیے نہ صرف بیماری اور اس کے اسباب کا مکمل تجزیہ بلکہ مختلف الجنس اور مختلف العمر مریضوں کے لیے اس دوا کی تاثیر ، اس کے ممکنہ ضمنی (اورمضر) اثرات (side effects ) وغیرہ جیسے بے شمار عوامل کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔
کورونا اپنی موجودہ شکل میں فی نفسہ مہلک نہیں ہے مگر ان لوگوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے جو پہلے ہی کسی سنگین آزار جیسے ذیا بیطس ،فشارِ خون یا قلبی کم زوری کا شکار ہوں یا کسی بھی دوسری وجہ سے جن کے جسم کا دفاعی نظام کمزور ہو چکا ہو،یہی وجہ ہے کہ مریض اور معمّر (پچپن سے متجاوز) لوگوں کو کورونا سے مہلک خطرہ ہے۔لیکن عمر سے قطع نظر بچنے کی صورت توبچاؤ یعنی احتیاط میں ہی ہے۔اس وقت عالمی صحت تنظیم(WHO )کے ذریعے مشتہر کیےگئے اعداد و شمار اور احتیا طی تدابیر سب سے زیادہ  بھروسے کے قابل  ہیں اور دنیا کی تمام حکومتیں اسی تنظیم کے مشوروں اور ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔موجودہ منظر نامے میں یو ٹیوب اور دیگرذرائع ابلاغ سے نشر کیے جا رہے ’’ماہرین‘‘ کے مشوروں اور بے بنیاد افواہوں سے اس بیماری اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں میں  اضافے کا خدشہ کافی سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔بہتر یہی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے شب و روز نشرکی جا رہی ہدایتوں پر سختی سے عمل کیا جائے کیونکہ وہ تمام احتیاطی تدابیر اور ہدایات عالمی صحت تنظیم کے ماہرین کی آرا پر مبنی ہیں۔یہ بات بھی بخوبی عوام کے علم میں لائی جا چکی ہے کہ کورونا انتہائی درجہ متعدّی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والا وائرس ہے اور پوری دنیا میں اب تک ہوئی ہلاکتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بیشتر اموات بے احتیاطی اور غیر ذمّہ دارانہ رویّے کا نتیجہ تھیں جس کی بدترین مثال اٹلی میں واقع ہوئی بے شمار اموات ہیں۔ہندوستان میں نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے معاملے میں لوگ جس قسم کی مجرمانہ غفلت اور بد احتیاطی کا مظاہرہ کرتے نظر آ رہے ہیں اس کو اگر فوری طور پر لگام نہ دی گئی تو ملک کی بے حدو بست آبادی کو دیکھتے ہوئے یہاں اٹلی سے بھی زیادہ دہشتناک نتائج سامنے آسکتے ہیں خصوصاً اس صورت میں کے اس وائرس کی تشخیص اور ممکنہ علاج کے وسائل آبادی کے تناسب میں نا ہونے کے برابر ہیں۔


مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔