کوروناوائرس کامردم شماری اور این پی آر پر بھی اثر
(دعوت نیوز نیٹ ورک)
ملک میں کورونا وائرس کے قہر کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت این پی آر کے عمل کو آگے بڑھانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے یکم اپریل کی تاریخ میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے افسران کی کمی کی وجہ سے یہ عمل سست پڑسکتا ہے۔ لیکن وہ اسے کرانے کے لیے کر اٹل ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک کورونا وائرس کے ساتھ معاشی بحران کے دور سے گزر رہا ہے، مستقبل میں ملک کی مالی حالت اس کورونا وائرس کی وجہ سے مزید بگڑنے والی ہے، اس کے باوجود مرکزی حکومت کیوں ابھی بھی این پی آر کرانے پر اٹل ہے۔ کیوں اس پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کرنے کو تیار ہے، جبکہ پہلے ہی اس پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے۔آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ مرکزی حکومت یکم اپریل سے جس این پی آر کو کرانے جارہی ہے، صرف اس کے اپڈیٹنگپر مرکزی حکومت کا 3941.35کروڑ روپیہ خرچ ہوگا۔ وہیں مردم شماری کے کام پر 8754.23 کروڑ روپے لاگت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ مستقبل میں ان اخراجات میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ ریاستی حکومتوں کا خرچ الگ ہے۔ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے ہیں۔یہ اطلاع خود وزیر مملکت برائے امور داخلہ نتیانند رائے نے لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں دی ہے۔ اس تحریری جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2003 میں کی جانے والی شہریت کے اصول کے تحت ، سب سے پہلے 2010 میں این پی آر بنایا گیا تھا اور اسے 2015 میں اَپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ اس اپڈیٹنگ کے کام میں حکومت نے 6649.05 کروڑ خرچ کیے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سن 2003 میں مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ این پی آر کا مقصد کیا ہے، اس سے کیا حاصل ہوگا اور حکومت اسے کیوں کرانا چاہتی ہے؟ اس سوال پر حکومت زیادہ ترخاموش ہی نظر آرہی ہے۔ تاہم، حکومت کی ایک اہم دلیل یہ ہے کہ اس سے عام لوگوں تک سرکاری اسکیمیں لے جانے میں مدد ملے گی۔ لیکن اگر حکومت اپنے اسکیموں کو غریب اور نادار افراد تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر اس کے لیے آدھار کارڈ اور بہت سارے نظام پہلے سے ہی موجود ہیں۔بتادیں کہ 11 مارچ 2020 کو راجیہ سبھا میں کپل سبل کے ذریعہ جب پوچھا گیا کہ ‘نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) بنانے اور اس کے اہداف و مقاصد کی کیا تفصیلات ہیں’’تو وزیر مملکت برائے امور داخلہ نتیانند رائے کا تحریری جواب تھا۔این پی آر وہ رجسٹر ہے، جس میں کسی گرام یا دیہی علاقے یا شہر یا وارڈ یا پھرکسی شہر کے اندر وارڈ کی حدود كت علاقے میں عام طور پر رہائش پذیر افراد کی تفصیلات شامل ہوتے ہیں۔ شہریت ایکٹ ، 1955 کے تحت شہریت (شہریوں کا رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ جاری کرنا) کے قواعد 2003 کے ضابطہ 3 کے ضمنی اصول (4) کی پیروی میں مرکزی حکومت نے کسی گاؤں یا شہر میں رہنے والے تمام افراد سے متعلق معلومات اکٹھا کرنے کے لیےیکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 کے درمیان این پی آر تیار اور اپڈیٹ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ‘ لیکن یہاں یہ بھی واضح رہے کہ این پی آر کے اس پورے عمل میں ملک کے تمام شہریوں کی رازداری خطرے میں ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے میکانزم کیا ہوگا اس بارے میں ابھی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ یہی نہیں، این پی آر کے اس عمل کے بعد اکٹھا حساس نوعیت کا مرکزی ڈیٹا اگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے ہاتھ لگ گیا تو یہ ہمارے ملک کی قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ بہت محنت اور مشقت کے بعد 90 فیصد سے زیادہ لوگوں کے آدھار کارڈ بن چکے ہیں، تو پھر حکومت کو ہندوستان کی شہریت کے لیےاین پی آر کی ضرورت کیوں ہے؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کے بارے میں ہر ہندوستانی شہری کو ملکی مفاد میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ بہتر ہوگا کہ ان تمام سوالات پر سنجیدگی سے سوچیں اور ایک سچے ہندوستانی شہری کی حیثیت سے ان تمام سوالات کو حقائق کے ساتھ عام لوگوں تک پہنچائیں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ این پی آر کے بائیکاٹ مہم میں شامل ہوسکیں۔