کوروناسے بھارت کے پہلے جاں بحق محمدحسین صدیقی کی افسوسناک داستان

بیٹی بھی متاثر۔’’ ہسپتالوں میں سہولتوں کی کمی میرے والد کی موت کاسبب‘‘۔ بیٹے کا بیان

دکنی دنیا (دعوت نیوز نیٹ ورک)

کلبرگی (گلبرگہ) : کورونا وائرس سے فوت شدہ پہلے مریض ریاست کرناٹک ،کلبرگی کے متوطن 76 سالہ محمد حسین صدیقی کے 29 فروری کو سعودی عرب سے واپس لوٹے۔8/ مارچ سے طبعیت خراب ہونے لگی ۔ دوسرے دن سے ان کے ارکان خاندان انہیں لیکر کلبرگی اور حیدرآباد کے مختلف دواخانوں سے رجوع ہوتے رہے ۔ لیکن اسپتالوں میں مشتبہ کورونا وائرس کے مریضوں سے نمٹنے کیلیے کوئی تیاری نہیں ہونے کی ہر جگہ لاپرواہی برتی گئی ۔اور ارکان خاندان کو صحیح رہنمائی فراہم نہیں کی گئی ۔ یہاں تک کہ بروقت صحیح تفتیش بھی نہیں ہو پائی ۔اگر وقت پر علاج شروع ہوجاتا تو مریض کی جان بچائی جاسکتی تھی ۔ ضلع انتظامیہ بھی اس صورتحال کو بروقت قابو میں لیتا تو مریض کو راحت ملتی اور اہل خاندان دوسرے شہر لیجانے کے لیے مجبور نہ ہوتے۔ کورونا وائرس سے فوت شدہ پہلے مریض محمد حسین صدیقی کے علاج کیلیے اہل خاندان کو درپیش ابتدائی بنیادی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بیٹے قاضی حامد فیصل حسین نے دعوت نیوز ڈسک کو بتایا "9/ مارچ کی صبح سب سے پہلے ہم والد صاحب کو کرسٹی ہاسپٹل لیکر گئے وہاں پر کوئی رسپانس نہیں ملا۔ اس کے بعد فیملی ڈاکٹر جی عارف نے ہمیں سن رائیز ہاسپٹل بھیجا وہاں علاج شروع ہوا۔ 9/ مارچ دوپہر چار بجے ایکسرے اور سی ٹی اسکان کروانے کے بعد ڈاکٹر عارف نے جلد از جلد حیدرآباد منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی اثنا میری بہن کے مطابق وہیں گلبرگہ کے گورنمنٹ ہسپتال کے کچھ لوگ آکر کورونا وائرس کے ٹسٹ سمپل لیکر گئے۔ یہیں سے ہم کو غلط مشورہ دیا گیا۔ اگر کورونا وائرس جان لیوا اور متعدی تھا تب ڈاکٹر عارف کو چاہیئے تھا وہ ہمیں حیدرآباد بھیجنے کے بجائے گورنمنٹ ہاسپٹل منتقل ہونے کا مشورہ دیتے ۔یہ بہت بڑا سوال بار بار ہمارے دماغ میں چل رہا ہے۔ یہیں سے غیر ذمے داری اور لاپرواہی کا آغاز ہوا ہے۔ جب تین لوگ ٹیسٹ سیمپل لیکر گئے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ہم سے رجوع ہوکر ہمیں حیدرآباد جانے سے روکتے۔”
"اسی دن ہم رات گیارہ بجے امبولینس کے ذریعے حیدرآباد روانہ ہوئے جہاں پر کسی بھی ہسپتال میں کوئی توجہ نہیں ملی یہاں تک کے گاندھی ہاسپٹل میں بھی کوئی نہیں ملا ،پھر اپولو ہاسپٹل میں بھی کوئی رسپانس نہیں ملا۔ ہم مجبور ہوکر کیئر ہاسپٹل رجوع ہوئے۔ وہاں دو گھنٹے صرف ٹیسٹ ہوئے جس پر کافی بڑی رقم خرچ ہوگئی۔ اس کے بعد کیئر ہاسپٹل والوں نے بھی واپس لوٹ جانے کیلیے کہا ۔ان چوبیس گھنٹوں میں ،میں نے اپنے والد کو امبولینس میں لیکر پورا حیدرآباد پھرتا رہا۔ مریض کا خاطرخواہ علاج نہیں ہونے کے باعث ان کی زندگی کم ہوتی گئی۔”
قاضی حامد اس کے ذمے دارکلبرگی اور حیدرآباد کے ڈاکٹرز کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ان ہی کی وجہ سے میرے والد کی جان گئی ۔ڈاکٹرز کی لاپرواہی سے ہی بہت بڑا نقصان ہوا۔ اور میری بہن بھی اس مرض سے متاثر ہوگئی۔ دراصل ان سب کے پاس پہلے سے کچھ بھی احتیاطی حفاظتی انتظامات موجود نہیں تھے ۔اس پر یہاں کے ہیلت منسٹر نے بیان دیا کہ کورونا وائرس سے موت نہیں ہوئی اور دوسرے دن انہوں نے اپنا بیان بدل دیا یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ”
ان بیٹے بتاتے ہیں "تمام اخبارات میں ایسی اطلاعات آئیں کہ حیدرآباد سے واپسی کے راستے میں انتقال ہوا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کلبرگی پہنچنے تک ان کی سانسیں چل رہی تھیں ۔اس پر میں نے میرے والد کو گورنمنٹ سٹی ہاسپٹل میں داخل کروایا اس کے دس منٹ بعد وہ فوت ہوئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بار بار مانگنے کے باوجود آج تک ہمیں اپنے والد کی رپورٹس نہیں ملیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ڈاکٹرز اپنا پیشہ بھول چکے ہیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ اور کہنا نہیں چاہتا۔”