کشمیر میں اُم الخبائث!

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند

ش م احمد

کوئی ہفتہ عشرہ پہلے حکومت جموں و کشمیر نے وادی کشمیر میں ۶۷ اور جموں میں۱۱۶ شراب کی دوکانوں کے لیے لائسنس کی اجرائی کا حکم نامہ جاری کیا ۔ ایکسائز ڈپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں دونوں ڈویژنوں کا سروے کرنے کے بعد شراب فروشی کےجملہ ۱۸۳ نئے بکری مراکز کی نشاندہی کی تھی۔ فی الوقت جموں میں۲۲۰ اور وادی میں صرف ۴ عدد شراب کی دوکانیں ہائی سیکورٹی زون میں چل رہی ہیں۔۱۹۹۰ء میں عسکریت کا آغاز ہوتے ہی وادی بھرمیں شراب کی نجی اور سرکاری دوکانیں بند ہوئی تھیں، مگر ۲۰۰۵ء میں سری نگر کے ڈل گیٹ علاقے میں شراب کی ایک دوکان کھولی گئی جس پر مسلمانوں کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ اب ۹۰ء کے بعد پہلی مرتبہ وادی کے شمالی، جنوبی،وسطی اضلاع سمیت سری نگر میں شراب سیل آوٹ لیٹ کے سرکاری طور پر کام کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ۔ اس حکم نامے کے دُور رس اثرات ومضمرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس سے دو باتیں ہوں گی ،ایک یہ کہ بنتِ عنب کا ناپاک و نحوست بھرا دھندا فروغ پائے گا، دوسرے مسلم سماج کا تانا بانا بری طرح متاثر ہو جائے گا۔
مذکورہ سرکاری آرڈر میں جموں و کشمیر میں جن نئے مختلف جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے، وادی کی حدتک دیکھیں تو عام حالات میں وہاں شراب کی خرید وفروخت کا خواب وخیال میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ شراب نوشی کے بارے میں عوامی ناراضی کا ہی شاخسانہ ہے کہ ۲۰۱۰ء میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے شراب کے نئے اجازت نامے جاری کرنے سے احتراز کیا تھا۔ بھاجپا اور پی ڈی پی کی تین سالہ مخلوط حکومت کے دوران بھی ریاست میں دیسی شراب کی کوئی ایک بھی نئی دوکان نہیں کھولی گئی۔ بہرحال نیا سرکاری حکم نامہ منظر عام پر آتے ہی حسبِ توقع اہلِ کشمیر میں بے چینی پھیل گئی ،طرح طرح کی چہ مہ گوئیوں کا بازار گرم ہوا۔ یہ اسی کا لیکھا جوکھا ہے کہ کشمیر کی ایک بااثر مذہبی وسیاسی شخصیت میرواعظ عمر فاروق کی سر براہی میں متحرک متحدہ مجلسِ علماء نے اپنا شدیدردعمل ظاہر کر کے نئے حکم نامے کو ناقابل قبول قراردیا۔ مجلس خطے کی تمام مذہبی تنظیموں اور ممتاز علمائے دین پر مشتمل ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے جو اتحاد بین المسلمین اور اصلاحِ معاشرہ کا نصب العین رکھتاہے۔ اپنے پریس بیان میں مجلس نے سرکار کو اس بارے میں خبردار کر کے کشمیریوں کی اجتماعی ناراضگی کا آئینہ دکھایا ۔ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیر نے بھی شراب کی دوکانیں کھولے جانے پر طبی نقطہ نگاہ سے اسے تباہ کن قرار دیا ہے ۔ واضح رہے کہ شراب کی مخالفت صرف مسلمانانِ کشمیر کادرد نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی ریاست میں شراب اور شراب بارز پر مکمل پابندی کی حامی ہے ۔ دوسال قبل پردیش بھاجپا کے گرم گفتار صدر رویندر رینہ نے جموں ڈویژن میں شراب کی دوکانیں اور بار بند کر نے کی زور دار مانگ کی تھی ۔اس وقت وادی کشمیر میں اُم الخبائث کا ذکر ہر جانب چھڑا ہوا ہے۔ عوام الناس مذہبی حلقے اور سماجی ویب سائٹس پر تبادلہ خیال کر نے والے سنجیدہ صارفین متحد الخیال ہیں کہ اس شراب پر ایل جی انتظامیہ کو مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے۔ عام لوگ زیر بحث سرکاری اقدام پر نہ صرف مخالفانہ تبصرے کررہے ہیں بلکہ اُن میں حکام کی نیت کے تئیں شکوک وشبہات بھی بڑھ رہے ہیں ،غم وغصہ کی چنگاریاں بھی سلگ رہی ہیں، علی الخصوص والدین اس فکر وتشویش مبتلا ہیں کہ وہ اپنے معصوم بچوں کو اس نئی بلا سے کیسے بچائیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کشمیر میں شراب نوشی اور نشہ بازی سے چھٹکارا پانے کے حوالے سے رائے عامہ حکومتی اکابرین پر برہم ہو۔ کشمیری ہر دور میں منشیات اور شراب نوشی کی اخلاق باختہ برائی پر سراپا احتجاج رہے ہیں۔ تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ یہاں کی مسلم آبادی نے حکومت کی سرپرستی میں شراب کی خرید وفروخت کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک یہ کشمیریوں کے مسلم تشخص کے خلاف ایک سوچا سمجھا سیاسی حربہ ہے جس کا توڑ کر نے کے لیے لوگ کئی دہاہیوں سے وقتاً فوقتاً مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ شراب پر سرکاری طور پابندی لگائی جائے۔ آج سے پانچ سال پہلے میر واعظ کشمیر عمر فاروق، سید علی گیلانی، متحدہ مجلس عمل، کاروانِ اسلامی، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلامک اسٹڈی سرکل وغیرہ نے بھی اس سلسلے میں رائے عامہ کو ہموار کر نے کی مقدور بھر کاوشیں کی تھیں مگر ہر بار کی طرح اُس وقت بھی یہ تمام آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں کیوں کہ حکام اپنی گراں گوشی ترک کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ شاید ان عوامی آوازوں کو اس خیال سےنہیں سنا جاتا کہ ان کی شنوائی کی صورت میں اُن عناصر کے موقف کی پذیرائی ہوتی ہے جنہیں سیاسی اصطلاح میں الحاق مخالف یا علیحدگی پسند کہاجاتاہے۔ نتیجہ یہ کہ اِدھر دیسی شراب کی کھپت میں بلا ناغہ اضافہ ہوتا گیا اُدھر نوجوانوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد نوجوان جام وصراحی کی بھینٹ چڑھتی گئی ۔ ستم بالائے ستم حکومتیں ان زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے شراب کے دھندے سے حاصل ہونے والی آمدنی کی جمع تفریق سالانہ بجٹ میں پیش کرکے اپنی بغلیں بجاتی رہیں ۔ برسوں پہلے یہ آمدنی سالانہ بیس کروڑ روپیوں سے متجاوز تھی۔ اس وقت خزانہ عامرہ میں اس مد میں کتنی رقم سالانہ بڑھ چکی ہے،اس بابت تازہ اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں۔
شراب کی بندش کو عوامی سطح پر ممکن بنانے کے لیے ’’دخترانِ ملت‘‘ نامی خواتین کی مذہبی انجمن اپنے طور پر ایک جانب لوگوں کو نشہ آور اشیاء سے پرہیز کرنے کی فہمائشیں کرتی رہی اور دوسری جانب راست اقدام کے طور ایک موقع پر ڈل جھیل کے کنارے واقع شراب کے سیل ڈپو پر حملہ بھی بولا۔ اس شراب مخالف مہم کے لیے کشمیری مسلمانوں نے’’ دخترانِ ملت‘‘ کو سراہا ضرور مگر تنظیم کی سربراہ آسیہ اندرابی سمیت ان کی بعض دوسری ساتھیوں کو قانون شکنی کے الزام میں گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا گیا ۔
تاریخِ کشمیر کے چوڑے چکلے سینے میں یہ پریشان کن معمہ بھی درج ہے کہ جب اپنے وقت کے ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ اور وقت کے قد آور لیڈر شیخ عبداللہ نے دوسری بار اقتدار سنبھالا تو شراب کی خرید و فروخت کو سرکاری اجازت دیے جانے کا بل ریاستی اسمبلی میں پیش کیا۔ باوجود یہ کہ اِن کے سیاسی مخالفین ، نظریاتی حریفوں اور مذہبی قیادت نے اس مسودہ قانون کی جی جان سے مخالفت کی اسے اسلامی عقائد سے متصادم کہہ کر اس کی مقصدیت پر تیکھے سوال بھی کیے مگر حکم راں پارٹی نیشنل کانفرنس نے اسمبلی میں اپنی بھاری اکثریت کے بَل پر یہ مسودہ قانون بآسانی منظور کروا لیا ۔ یوں وقتی طور پر شراب مخالف قوتوں کی آوازیں قد آور لیڈر کے سامنے دب کر رہ گئیں مگر وہ خواب لوگوں کی آنکھوں میں مسلسل بسا رہا جو وہ وادی کشمیر سے شراب کی مکمل پابندی کی صورت میں دیکھتے رہے ہیں ۔ ان ایام میں یہ شیخ عبداللہ کے سیاسی دبدبے کا جادو تھا کہ اُس وقت کی ایک سرکردہ مذہبی شخصیت (جو اس وقت رُکن اسمبلی بھی تھے) کو بھی بِل کے حق میں اپنا ووٹ دینا پڑا حالانکہ لوگ ورطہ حیرت میں پڑے، موصوف پر کڑی تنقیدیں بھی ہوئیں مگر جہلم کا پانی آگے بہنے سے نہ رُکا۔
اُن دنوں ’’حلتِ مے‘‘ کے حق میں وجوہ و دلائل کے عنوان سے یہ سرکاری بیانیہ رہا کہ ریاست کی معیشت کا مرکز و محور چونکہ سیاحت ہے، اس لیے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ خطے میں انگور کی بیٹی صبح وشام سیاحوں کے لیے بلا روک ٹوک دستیاب رہے۔ آج تک یہی موقف شراب کے تعلق سے سرکاری بیانیے کا جزو لاینفک مانا جاتا ہے۔ دوسری جانب بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نظر آتے ہیں، انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں ریاست کو شراب کی برائی سے مکمل طور پاک وصاف کرنے (ڈرائی سٹیٹ بنانے) کا جو وعدہ کیا تھا، کرسی سنبھال کر اولین فرصت میں اُسے پوراکیا۔ اگرچہ اس سے ریاستی خزانہ عامرہ کی آمدنی میں بھاری نقصان ہوا پھر بھی انہوں نے نشہ بندی کے فوائد دیکھتے ہوئے نہ صرف عوامی خواہشات کی قدر کی بلکہ ایک صحت مند روایت کی بنیاد بھی رکھی۔بادی النظر میں مسلم اکثریتی وادی میں شراب نوشی مخالف جذبات کا پایا جانا کوئی انہونی بات نہیں کیوں کہ مسلمان بالاجماع مذہباً بادہ خواری کے شدید مخالف ہیں اور اس کی مخالفت ان کے دین وایمان کا بنیادی حصہ ہے۔ بایں ہمہ فی زمانہ وادی میں سیاسی خلاء کے دوران شراب کے حوالے سے ایسا سرکاری اقدام مسلمانوں میں بے چینی کو دو چند کرنے کا موجب بننا قدرتی امر ہے۔ غور طلب ہے کہ جموں اور کشمیر بھی کووڈ۔ ۱۹ کے اس پُر آشوب دور سے گزر رہاہے جب حکومتوں کی تمام ترتوجہ عالمی وبا سے بچاؤ پر مرکوز ہے لیکن یہاں اس نازک صورت حال میں Domicile Rules نافذ کیے گئے ہیں جن پر عام لوگ بھی اور ریاست کی اصل دھارے کی سیاسی پارٹیاں بھی شدید ذہنی تحفظات رکھتی ہیں اور اب شراب کی دوکانیں کھولنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ یہ نیا حکم نامہ لوگوں کے لیے نا قابل فہم بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ حکومت بے روزگاری اور دیگر حل طلب مسائل کو ترجیح دے لیکن اس کے بجائے وہ وادی کشمیر کی دیرینہ روایات، سماجی انفردایت اوراخلاقی اقدار سے بے خبری کے عالم میں شراب کی کھپت کو ترویج دینے میں لگی ہوئی ہے۔ لوگوں کو یہ خدشہ بھی لا حق ہے کہ کشمیریوں کی نئی نسل میں بادہ خواری کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ اُن کے اخلاقی دیوالیہ پن پر منتج ہوگا۔ اس بیچ ایک وائرل ویڈیو سوشل میڈیا میں گشت کررہاہے جس میں وادی میں نشہ بازی کا دھندا کر نے والوں کو خفیہ ہاتھوں کی سرپرستی حاصل ہونے کا انکشاف کیا گیاہے۔ یہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے اور وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا ویڈیو مبنی برصداقت ہے یا نہیں۔ قبل ازیں کئی بار وادی میں لوگ حکام پر اس نوع کی الزام تراشیاں کرتے رہے ہیں منشیات کے دھندے میں ملوثین کو حکام کی درپردہ حمایت حاصل ہے ۔
بہر صورت وادی میں گاؤں گاؤں شراب کی خرید و فروخت کے سلسلے میں سرکاری سطح پر اتنی دلچسپی کبھی نہیں دکھائی جاتی تھی مگر اب ایسا کیاہوا کہ شراب کے دھندے کو وسیع پیمانے پر فروغ و ترقی دی جارہی ہے ۔ فی الوقت وادی کشمیر میں صرف چار مختلف مقامات پر شراب کی چار دوکانیں چل رہی ہیں جن سے نشہ باز اپنا راتب چھپتے چھپاتے حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک سیاحتی اہمیت کےحامل شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کنارے دوسری بادامی باغ سری نگر کے آرمی کنٹونمنٹ ایریا میں تیسری گلمرگ اور چوتھی جنوبی کشمیر میں واقع ہے۔ سنہ نوے میں جب وادی میں عسکریت کا بگل بجا تو شراب خانے، سنیما گھر، بیوٹی پارلر اور اسی قسم کی دوسری دوکانیں بزور بازو مقفل کروائے گئے۔ بعد ازاں حکومتی اعانت سے سری نگر کے دو ایک سینما گھر کھل گئے، بیوٹی پارلر بھی رفتہ رفتہ کام کاج کرنے لگے، البتہ شراب خانے اب بھی زیادہ تر بند پڑے ہیں۔ بہتری اور برتری کا راز اسی امر میں مضمر ہے کہ وادی کشمیر بشمول وادی چناب اور پیر پنچال رینج کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شراب خانے کھولنے کے حکم نامے پر نظر ثانی کی جائے۔
(مضمون نگار کشمیر کے آزاد سینئر صحافی ہیں)


 

اس وقت وادی کشمیر میں اُم الخبائث کا ذکر ہر جانب چھڑاہوا ہے۔ عوام الناس، مذہبی حلقے اور سماجی ویب سائٹس پر تبادلہ خیال کرنے والے سنجیدہ صارفین متحد الخیال ہیں کہ اس شراب پر ایل جی انتظامیہ کو مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے۔ عام لوگ زیر بحث سرکاری اقدام پر نہ صرف مخالفانہ تبصرے کررہے ہیں بلکہ اُن میں حکام کی نیت کے تئیں شکوک وشبہات بھی بڑھ رہے ہیں ،غم وغصہ کی چنگاریاں بھی سلگ رہی ہیں، علی الخصوص والدین اس فکر وتشویش مبتلا ہیں کہ وہ اپنے معصوم بچوں کو اس نئی بلا سے کیسے بچائیں۔