کسان احتجاج: غازی پور بارڈر پر ایک اور 75 سالہ کسان نے خودکشی کی
نئی دہلی، جنوری 3: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق اترپردیش کے ضلع رام پور سے تعلق رکھنے والے ایک 75 سالہ کسان نے، جو مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، ہفتے کے روز غازی پور بارڈر پر خود کشی کرلی۔
اندر پورم پولیس کے نائب سپرنٹنڈنٹ انشو جین کے مطابق کشمیر سنگھ سے گرمکھی رسم الخط میں لکھا ہوا ایک خودکشی نوٹ برآمد ہوا۔ اپنے خودکشی نوٹ میں سنگھ نے اس بات پر رنج و غم کا اظہار کیا کہ کسانوں کے احتجاج کے دوران پنجاب سے کچھ افراد ہلاک ہوگئے، لیکن اترپردیش یا اتراکھنڈ سے کسی نے بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش نہیں کیا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ حکومت کے بنائے ہوئے نئے قوانین کسانوں کے مفاد میں نہیں ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق پولیس سپرنٹنڈنٹ سٹی غازی آباد، گیانیندر کمار نے بتایا ’’ہمیں اطلاع موصول ہوئی کہ صبح کے وقت احتجاج کے مقام پر ایک شخص کی موت ہوگئی ہے، جس کے بعد پولیس کی ایک گاڑی بھیجی گئی ہے۔ قریبی اسپتال پہنچنے پر اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔‘‘
کشمیر سنگھ نے، جو اتر پردیش کے بلس پور کے رہنے والے تھے، سکھ برادری سے درخواست کی کہ وہ ان کی دو پوتیوں کی شادی کرنے اور ان کی شادی شدہ بیٹی کو درپیش گھریلو پریشانیوں کو حل کرنے میں مدد کرے۔
بھارتیہ کسان یونین کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت نے سنگھ کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپے معاوضہ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ نریندر مودی حکومت کسانوں کے صبر آزما رہی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے 47 کسان اب تک زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران ہلاک ہوگئے ہیں۔
دہلی کی سرحدوں پر مظاہروں کے درمیان یہ تیسرا خودکشی کا معاملہ ہے۔ ہریانہ سے تعلق رکھنے والے ایک 65 سالہ مذہبی پیشوا نے 16 دسمبر کو یہ کہتے ہوئے خودکشی کرلی تھی کہ وہ ’’حکومت کی ناانصافی کے خلاف غم و غصے کے اظہار کے لیے اپنی جان کی قربانی دے رہے ہیں‘‘۔ وہیں 27 دسمبر کو پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے بھی کیڑے مارنے والی دوا کھا کر خودکشی کرلی تھی۔
نئے زرعی قوانین پر اب تک کسانوں اور حکومت کے درمیان کئی دور مذاکرات ناکام رہے ہیں اور مذاکرات کا اگلا دور کل یعنی 4 جنوری کو ہونا ہے، جس سے امید کی جارہی ہے کہ اس تعطل کو ختم کرنے کی سمت کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ کسان تینوں قوانین کی منسوخی کے مطالبے پر قائم ہیں جب کہ حکومت صرف ترمیم پر راضی ہے۔