جماعت اسلامی ہند نے بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی تحریک کی اپیل کی

نئی دہلی، جنوری 2: جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ملک میں بڑھتی فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی تحریک امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے ان خیالات کا اظہار آج یہاں جے آئی ایچ کے ہیڈ کوارٹر میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت کے ایک حالیہ تبصرے ’’ہندو فطرتاً محب وطن ہوتے ہیں‘‘، کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت نے کہا ’’فرقہ وارانہ نظر کے ذریعے چیزوں کو دیکھنا درست نہیں ہے۔ تمام برادریوں میں اچھے اور برے لوگ ہیں۔ نفرت اور تفرقے کا ماحول پیدا کرنا ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ پولرائزیشن کے اس مباحثے کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

مدھیہ پردیش میں اقلیتوں کے خلاف مبینہ تشدد کے بارے میں جے آئی ایچ کے امیر نے کہا ’’ہماری حقائق تلاش کرنے والی ٹیمیں میدان میں ہیں اور جلد ہی ہمیں اپنی رپورٹ بھیج دیں گی۔ ابتدائی معلومات کافی پریشان کن ہیں۔ عوام، سول سوسائٹی اور سماجی تنظیموں کو محبت، رواداری اور ہم آہنگی کے ساتھ اس بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ جماعت اسلامی ہند اس بڑھتی ہوئی لعنت کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور ہم فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے خلاف ایک سماجی اور عوامی تحریک پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

بین المذاہب شادیوں سے متعلق نئے منظور شدہ قوانین کے ذریعے اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے بارے میں یوپی سے موصولہ اطلاعات کے بارے میں پوچھے جانے پر امیر جماعت نے کہا ’’یہ واقعی تشویش کی بات ہے کہ ملک میں پولرائزیشن کا ایک منصوبہ چل رہا ہے، جس کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے والے قوانین بنائے گئے ہیں۔ اترپردیش کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ تیسری دنیا کے ممالک کی آمرانہ حکومتوں کی یاد دلانے والا عمل ہے۔‘‘

قبل ازیں جے آئی ایچ کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے میڈیا کو مختلف امور پر بریف کیا۔ انھوں نے 2020 کے مختلف واقعات کے بارے میں بات کی۔

کیا کوویڈ ویکسین قابل اجازت ہے؟

جے آئی ایچ شریعہ کونسل کے سکریٹری مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کوڈ ویکسین لینے کی اجازت سے متعلق کونسل کے فتویٰ کی وضاحت کی۔ انھوں نے کہا ’’کسی حرام مادے کو بطور دوا استعمال کرنا ممنوع ہے۔ تاہم اگر ناپاک چیز مادوں اور خصوصیات کے لحاظ سے بالکل مختلف چیز میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو پھر اسے صاف اور جائز سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ویکسین میں ممنوعہ مادے شامل ہوں تو، حلال ویکسین کی عدم دستیابی کی صورت میں، انسانی زندگی کی حفاظت کے لیے خطرناک اور ہنگامی صورت حال میں وہ جائز ہوجائیں گے۔‘‘