کسان احتجاج: برطانیہ کے 36 ممبران پارلیمنٹ نے برطانیہ کے خارجہ سکریٹری کو خط لکھا، نئے زرعی قوانین پر ہندوستانی حکومت سے بات کرنے کی اپیل کی

نئی دہلی، دسمبر 5: ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق متعدد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے برطانیہ کے خارجہ سکریٹری ڈومینک راب کو ایک خط لکھا کر ان پر زور دیا کہ وہ زراعت سے متعلق نئے قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے مدنظر ہندوستانی حکومت سے اپنی تشویش کا اظہار کریں۔

مختلف پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ نے، جن میں زیادہ تر لیبر پارٹی کے ممبران شامل ہیں، راب سے پنجاب میں ’’بگڑتی ہوئی صورت حال‘‘ اور ’’مرکزی حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات‘‘ پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے ایک فوری اجلاس طلب کرنے کے لیے بھی کہا ہے۔

برطانوی اراکین اسمبلی نے کہا کہ مذکورہ احتجاج ’’برطانیہ میں موجود سکھوں کے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث ہے‘‘ کیوں کہ ان میں سے بہت سے افراد کے خاندان کے افراد پنجاب میں ہیں اور پنجاب میں ان کی آبائی زمینیں ہیں۔

اس خط میں سکھ کونسل برطانیہ کے ایک سروے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ برادری کے 84 فیصد افراد ذاتی طور پر ہندوستان کے نئے زرعی قوانین کے اثرات کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں اور 93 فیصد کو لگتا ہے کہ ان نئے قوانین سے انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہوگا۔

ممبران پارلیمنٹ نے اس معاملے پر ہندوستانی حکومت کے ساتھ خارجہ، دولت مشترکہ اور ترقیاتی دفتر کے کسی بھی رابطے کی تازہ کاری کا مطالبہ کیا ہے۔ اس میں 4 نومبر کو برطانیہ کے دورے پر آئے ہوئے ہندوستان کے سکریٹری خارجہ ہرش شرنگلا کے ساتھ تبادلۂ خیال کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

دستخط کنندگان میں سکھ لیبر رکن پارلیمنٹ ٹین دھیسی، پنجابی نژاد لیبر ممبران اسمبلی وریندر شرما، سیما ملہوترا اور نادیہ وٹّوم، سابق لیبر رہنما جیریمی کوربین، ہندنژاد لیبر رکن پارلیمنٹ ویلری واز اور لبرل ڈیموکریٹس ممبر پارلیمنٹ منیرا ولسن شامل ہیں۔

واروک ڈسٹرکٹ کونسلر منی منگت نے بھی اس معاملے پر سکریٹری خارجہ کو ایک الگ خط لکھا ہے۔ انھوں نے ایک خط میں کہا ’’اس بات کے شدید خدشات ہیں کہ نئے قوانین بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور چھوٹے کسانوں کے لیے بھاری قرضوں کا سبب بنیں گے۔ جس سے خدشہ ہے کہ کسانوں کی خودکشی میں اضافہ ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ مرکز کے ذریعہ منظور کردہ تین نئے زرعی قوانین کے خلاف کسان گذشتہ 10 دن سے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ کسانوں اور تاجروں نے الزام لگایا ہے کہ حکومت اصلاحات کے نام پر ایم ایس پی ختم کرنا چاہتی ہے اور انھیں خوف ہے کہ یہ نئے قوانین انھیں کارپوریٹ طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔