(دعوت نیوز نٹ ورک)
2014 میں جب مودی حکومت آئی تو اقلیتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جوکہ ابھی بھی جاری ہے، 2014 میں اقلیتوں کے لئے وزیراعظم کا ایک نعرہ بے حد مقبول ہوا، اس وقت وزیراعظم نے کہا تھا وہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن تو ایک ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں، مسلم دانشوروں نے اس بیان کا خیر مقدم کیا، علمائے کرام نے بھی ستائش کی، وزیراعظم کا سب کا ساتھ سب کا وکاس والا نعرہ تو خوب ہٹ کیا، پی ایم مودی کی تحریر ہو تقریر ہو یا پھر کوئی تقریب ہو ہر جگہ یہ نعرہ دہراتے تھکتے نہیں تھے، 2019 میں پھر مودی حکومت آئی جس میں انہوں نے نعرہ وہی رکھا مگر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اس بار سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس جوڑ دیا، گویا نعرہ نہ ہوا ربر ہوگیا ہو جس کو جتنا چاہو کھینچتے رہو، نہ سب کا ساتھ ہے نہ سب کا وکاس ہے اور وشواس تو انہوں نے جیتا ہی نہیں، اقلیتوں کی ان کو پرواہ نہیں، وکاس سے ان کا ناطہ نہیں، اور وشواس کب جیتیں گے خدا جانے،
کیونکہ مودی حکومت نے سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کاجو اقلیتوں کو زخم دیا ہے وہ جگ ظاہر ہے ، ان سب کی وجہ سے اقلیتوں کی بی جے پی سے اور دوریاں بڑھ گئی ہیں،
ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
اور اس کی تازہ جھلک کرناٹک کے حالیہ بجٹ میں دکھتی ہے۔
اس سال کرناٹک 2020-2021 کا بجٹ پیش ہوا، وزیراعلی بی ایس یدیورپا نے وزیرخزانہ کی حیثیت سے ریاست کاسالانہ بجٹ اسمبلی میں پیش کیا،
یدیورپا نے اپنے بجٹ کے ذریعہ مختلف طبقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقلیتوں کو اس بجٹ سے زبردست مایوسی ہوئی، کرناٹک حکومت نے اقلیتوں کی بجٹ میں 35فیصد کی کمی کردی ہے، سال2020-21کے بجٹ میں اقلیتی محکمہ کیلئے1278 کروڑروپئےمختص کیے گئے ہیں، پچھلے سال کماراسوامی حکومت کے بجٹ میں ایک ہزار910کروڑ مختص کئے گئے تھے۔اس سے پہلے سدارامیا کی حکومت نے اقلیتوں کے لیے 2281 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیاتھا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ بدائی اسکیم، شادی محل کی تعمیر، اوورسیز اسکالرشپ کی اسکیموں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے،کرناٹک اردو اکیڈمی کو صرف ایک لاکھ روپئے مختص کئے گئے ہیں، مانو اونٹ کے منہ میں زیرا ہو۔
کرناٹک میں بی جے پی حکومت نے Shaadi Bhagya scheme کو بھی ختم کر دیا ہے، اسکیم سے اقلیتی طبقے کی شادی شدہ جوڑے فائدہ اٹھایا کرتے تھے، اس اسکیم کے تحت انہیں پچاس ہزار روپے دیے جاتے تھے جس سے ان کی ازدواجی زندگی میں کچھ راحت کا سامان مہیا ہوتا تھا، چھ سال میں اس اسکیم سے ایک لاکھ جوڑوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔
حالانکہ اقلیتی لیڈران نے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی اور وزیر اعلی نے ان کو یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ وہ اس پر غور و خوض کریں گے، لیکن،
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
شادی بھاگیہ اسکیم کے ختم ہونے پر پر بی جے پی ایم ایل اے بسو راج گوڑا پاٹل نہ صرف خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کی زبان زہراگلنے لگتی ہے، وہ فرماتے ہیں ہیں کہ "ملک جمہوری ملک ہے، یہاں سب کے ساتھ برابر کا سلوک ہونا چاہیے، ہندوؤں کو نہ دیکر صرف مسلمانوں کو دیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، ہم نے پہلے ہی پاکستان دے دیا ہے اگر اس طرح کی سہولتیں چاہیے تو پاکستان جائیں”
ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک جمہوری ملک ہے وہیں دوسری طرف پاکستان جانے کی بات بھی کر رہے ہیں، یہ تو بالکل صاف ہے کہ سیاسی لیڈروں کے قول و عمل میں کافی تضاد پایا جاتا ہے، لیکن آسمان زمین کا فرق اگر دیکھنا ہو تو بی جے پی لیڈروں کو دیکھا کیجئے،
ندا فاضلی نے شاید انہیں جیسے لوگوں کیلئے کہا ہوگا،
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
پاکستان والے بیانات تو بی جے پی کی طرف سے ہمیشہ آتے رہتے ہیں، دہلی کا الیکشن تو انہوں نے پاکستان بمقابلہ ہندوستان لڑاہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان کی سیاست صرف پاکستان کے نام ہی سے چلتی ہے بس نئے نئے لیڈران ابھرتے رہتے ہیں جو پاکستان کا سہارا لے کر مشہور ہو جاتے ہیں، جیسے بسو راج گوڑا پاٹل ۔
نئے کردار آتے جا رہے ہیں مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے