کتاب الہند-البیرونی: قدیم ہندوستانی تہذیب اور مسلمانوں کی خدمات کاجائزہ
شبیع الزماں ( پونہ )
مسلمانوں کی تاریخ کا عمومی تصور شمشیر زنی،سرحدوں کی تسخیر اور ملکوں کی فتوحات سے عبارت ہے۔ غیر مسلم تو مسلمانوں کی تاریخ کو اسی زاویے سے دیکھتے ہیں لیکن خود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی تاریخ کے اسی ورژن سے واقف ہے۔ مسلمانوں کی علمی فتوحات اور مختلف علوم کے فروغ میں ان کی بیش بہا کاوشوں کی عام واقفیت نہیں ہے۔ اس تاثر کے قیام میں جتنی دوسری تہذیبیں اور قومیں ذمہ دار ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی تاریخ میں سائنسدانوں، اسکالرز اور علوم کے ماہرین کی بہ نسبت صرف شمشیر زنوں،فاتحین اور حکم رانوں پر ہی فخر کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو ہی اپنی تاریخ تصور کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے بالمقابل مغرب نے اپنے خونی فتوحات اور نو آبادیاتی نظام کے بدترین مظالم والے چہرے کے بالمقابل علوم و فنون کی ترقی میں اپنے کردار والے چہرہ کو بہت زیادہ نمایاں رکھا اور دنیا اسی حیثیت میں اسے جانتی بھی ہے۔ پچھلی صدی میں جب مسلمانوں کے علمی اور سائنسی کارنامے دنیا کے سامنے واضح ہوئے تو دنیا حیرت زدہ رہ گئی کہ مسلمانوں کی علمی تاریخ کتنی روشن اور اس میں علم و عقل کا استعمال کتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔
کیسے کیسے ذہین اور عبقری دماغوں کی کارفرمائیاں علوم کے مختلف میدانوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں نے قدیم علمی سرمائے کی حفاظت کے ساتھ نئے علوم کی بنیادیں بھی استوار کیں۔ فلسفہ اور سماجی علوم کے ساتھ ساتھ علم ہیئت،علم نجوم،تاریخ،جغرافیہ، ریاضی،الجبرا و طب وغیرہ علوم کے میدان میں اپنی علمی کارنامے انجام دیے ہیں ۔ اسی تابندہ اور روشن تاریخ کا ایک باب ابو ریحان البیرونی ہے۔
البیرونی دسویں صدی عیسوی کا مشہور ایرانی اسکالر تھا۔فلسفہ،منطق،علم ہیئت، علم نجوم، تاریخ، جغرافیہ سے لے کر زبان و ادب تک کے شعبوں میں اس نے اپنے علمی کمالات کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے 113 سے زائد کتابیں مختلف علوم پر لکھیں۔اس سے البیرونی کے ہمہ گیر علمی ذوق کا اندازہ ہوتاہے۔
البیرونی کو Father of Indology بھی کہا جاتا ہے۔ Indology سے مراد ہندوستانی سماج کی تاریخ،کلچر،لٹریچر اور زبانوں کا مطالعہ ہے۔زیر نظر کتاب اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔اس کتاب میں البیرونی نے ہندو فلسفہ، رسم رواج اور روایات کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے۔ کتاب کی تصنیف کے لیے البیرونی نے ہندوؤں کی مذہبی زبان سنسکرت میں مہارت حاصل کی اور ہندوستان کے کئی سفر کیے جس کے ذریعے وہ ہندو مذہب کے اہل علم اور مبلغوں تک پہنچا اور ان سے استفادہ کرکے ہندو مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی۔
اس کتاب کی اہمیت ان حالات کی وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے جن میں یہ لکھی گئی۔ البیرونی کا تعلق خوارزم سے تھا اور وہاں آلِ مامون کی حکومت تھی۔ یہ آل مامون کا آخری دور تھا محمود غزنوی نے خوارزم پر لشکر کشی کرکے اسے فتح کرلیا۔ البیرونی سلطنت خوارزم کا مشیر تھا لیکن حسن اتفاق سے وہ محمود کے جذبہ انتقام سے بچ گیا۔
البیرونی اور محمود کے مزاج میں بڑا فرق تھا۔محمود کو علم سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔اس نے البیرونی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھی۔ یہ البیرونی کا علمی شوق ہی تھا جس نے تقریباً تیرہ سال تک ہندوستان کے علوم اور یہاں کی تہذیب و ثفاقت کو سیکھنے میں اس کی مدد کی۔سنسکرت زبان سیکھ کر اس درجہ مہارت حاصل کی بعض کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے کیے۔ ایک طرف بادشاہ کی سختیاں اور دوسری طرف ہندوستان کے سیاسی حالات جہاں ہر طرف کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ یہ وہی زمانہ تھا جس میں محمود غزنوی نے ہندوستان پر مسلسل حملے کیے۔ ان حملوں اور فوج کشی کی وجہ سے ہندوستان کے ہندوؤں کے دلوں میں حملہ آوروں اور ان کے ہم مذہبوں کے لیے شدید نفرت کے جذبات پیدا ہوئے۔ ان حالات میں ایک مسلمان عالم خاموشی کے ساتھ ہندوؤں کے ساتھ علمی رابطہ قائم کرتا ہے۔ ان کے مذہب،زبان اور کلچر کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتا ہے اور ایک ایسی تالیف چھوڑ جاتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر مسلمان ایک بالکل ہی مختلف مذہب اور تہذیب رکھنے والی قوم کے مزاج کو سمجھ سکتے تھے۔ ان سے افہام و تفہیم میں یہ کتاب معاون و مددگار ثابت ہوسکتی تھی۔ کتاب کے دیباچے میں البیرونی نے لکھا ہے "استاد موصوف کی خواہش ہوئی کہ جو کچھ ہم کو ہندوؤں کے بارے میں معلوم ہوا ہے وہ قلم بند کر دیا جائے تاکہ ان لوگوں کو جو ان سے بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال کرنا چاہیں اس سے مدد ملے اور جو لوگ ان سے میل جول پیدا کرنا چاہیں ان کے لیے بھی کار آمد ہو۔”
کتاب الہند‘‘ ایک تعارف اور تقریباً ستر ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں ہندوؤں کے مذہبی عقائد، فلسفے اور نظریات کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہے۔ جس میں مادہ،تناسخ،موکش، خدا کا تصور،موت اور بعد از موت زندگی، جہنم اور جنت کا تصور وغیرہ عنوانات پر تفصیلی گفتگو موجود ہے۔
دوسرے حصہ میں کتاب ہندو تہواروں، عبادات کے طریقوں، مذہبی تقریبوں کو بیان کرتی ہے۔ جیسے صدقہ و خیرات، روزہ،قربانی اور مذہبی یاتراؤں وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔
آگے کے ابواب میں ہندو قوانین کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور سماجی رواجوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ کتاب میں ہندوستان کے جغرافیہ، تاریخ اور خطے کی مختلف داستانیں بیان کی گئی ہیں، اوقات کے متعین کرنے کے طریقے اور ناپ تول کے نظام کا ذکر ہے۔ اسی کے ساتھ اس میں ہندوستانی ریاضی اور فلکیاتی علوم کا بھی تذکرہ ہے۔
کتاب کے مطالعہ کے دوران قاری، البیرونی کی سب سے نمایاں خصوصیت یعنی معروضیت اور سائنٹیفک اپروچ کو محسوس کرتا ہے کہ کوئی مذہبی تعصب، قومی روایات اس اپروچ کو متاثر نہیں کر سکیں۔ شروع سے آخر تک کتاب تحقیقی پیرائے میں لکھی گئی ہے۔ پوری کتاب میں ہر جگہ دلائل ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے اقتباسات سے نقل کر کے دیے گئے ہیں، مصنف نے اپنی ذاتی رائے کو شامل نہیں کیا ہے۔
ان تمام خوبیوں کی بدولت یہ کہا جا سکتا ہے کہ البیرونی کی کتاب کے اس اردو ترجمے سے قدیم ترین ہندو مت کی تاریخ، تہذیب، عقائد اور حالات و واقعات سے کماحقہ واقفیت حاصل ہو سکتی ہے البتہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کتاب کے مطالعہ سے موجودہ ہندوازم سے بھی مکمل واقفیت ہو جاتی ہے۔ ہندو مذہب ایک تغیر پذیر مذہب ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ جزئیات تو درکنار کلیات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ جیسا کے موجودہ زمانے کے بعض ہندو اسکالرز کہتے ہیں کہ ہندو ازم ایمان و یقین کا نہیں بلکہ جستجو و تلاش کا مذہب ہے۔ بالخصوص آزادی کی تحریک کے بعد ہندو ازم میں جن جدید شخصیات نے جنم لیا انہوں نےاسے بالکل نئی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔
بالخصوص سوامی وویکانند،بنکم چندر چٹرجی،رام کرشنا پرما ہنسا، سوامی دیانند سرسوتی،لوک مانیہ تلک اور مدن موہن مالویہ وغیرہ کی اصلاحی تحریکوں نے اس کی نئی بنیادیں استوار کیں۔ گاندھی اور امبیڈکر کی کشمکش نے اس میں بعض نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔ موجودہ زمانے میں ساورکر،گولوالکر اور سنگھ نے ہندوتوا کے نئے تصورات کے تحت ہندو مذہب کو بالکل نئی اور مختلف شکل دے دی ہے جو قدیم ہندو مذہب سے اتنی مختلف ہے کہ اس کا پہچاننا تک مشکل ہے۔ ان سب کے باوجود قدیم ہندو مذہب جس کا معروضی مطالعہ البیرونی نے پیش کیا ہے آج بھی ہندوؤں کے درمیان موجود ہے اور اسے سمجھنے کے لیے یہ کتاب آج بھی معاون ہے۔
****