’کالی دیوی‘ سے مذاق ! روایت یا اہانت ؟

ہندی استعمار کاقہر، ہندوروایات اور زبانوں کی تباہی کے درپے !

تحریر:اپوروانند
ترجمہ: سلیم الہندیؔ

بھارت میں ہندی بولنے والی ریاستوں سے باہرکی ریاستوں میں بسنے والی ہندوآبادی،تمام دیوی دیوتائوں کو اپنے ہی خاندان کے ایک فردکادرجہ دیتی ہے۔ ان دیوی دیوتائوں کی جہاں وہ پرستش کرتے ہیںوہیں ان سے کبھی کبھی مذاق اوردل لگی بھی کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ یہ دیوی دیوتا، کھاتے بھی ہیں، پیتے بھی ہیںاورعام انسانوںکی طرح، ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں۔ دیوی دیوتائوں کے ساتھ، انسانوں کی اس قربت کوآر ایس ایس سخت نا پسند کرتی ہے اور دیوی دیوتائوں کے ساتھ انسانوں کے اس طرز عمل کے سخت خلاف ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس کی اس گندی، گھنائونی اور شدت پسندانہ مذہبی ناپسندیدگی کاہمت سے مقابلہ کرنے والی شریمتی لینامنی میکالائی اور شری مہوا مویئترا کوآر ایس ایس کے رحم وکرم پرہرگزتنہا نہ چھوڑا جائے۔ آر ایس ایس کی حکمت عملی میں اپنائے گئے انداز بیان میں شدت پسندی کا عنصر نمایاں نظر آتاہے اور سبزی خوری کے عقیدے’’ ویشنوزم‘‘ پر عمل آوری کے لیے، حکم کااظہاربھی ہوتاہے۔ اپنے اس عقیدے کی حمایت اورتائیدمیں،زیادہ سے زیادہ عددی طاقت کے ثبوت کے طور پر وہ ہندی بولنے والی شمالی ہند کی مختلف ریاستوں یعنی اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش کے علاوہ اطراف کی دیگر ریاستوں کے تمام ہندوئوں کی آبادی کو، ان کی رائے جانے بغیر،انہیں اپنے اس عقیدے کی تائید میں،شامل کرلیتے ہیں۔اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے سے پہلے ہمیں آر ایس ایس کے اس مصنوعی عقیدے کے نفسیاتی پہلوکوبھی سمجھناہوگا کہ کیا شمالی ہند میں رہنے والا ہرہندو، اپنی علیحدہ زبان کے باوجود، صرف ہندی زبان کی بنیاد پر، محض قوم کی خاطر،آرایس ایس کے بتائے ہوئے عقائد سے اتفاق رکھتا ہے ؟ مقامی میتھلی زبان کے ایک شاعر شری یاتری نے،جو بعد میں ہندی زبان کے شاعر، شری ناگرجن کے نام سے مشہور ہوئے، کہا تھاکہ ستر 70 سال پہلے ہندی زبان کی حیثیت ایک ایسے شخص کی تھی، جو ترقی کے میدان میں اپنے سے آگے بڑھنے والوں کو بے رحمی کے ساتھ گھسیٹ کر پیچھے دھکیلنے کا عادی رہا ہو۔ شمالی ہند کی دیگر زبانوں یعنی بھوجپوری ، اودھی اور برج کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا تھا۔ چنانچہ ان زبانوں نے سماج میں بنایا ہوا اپنا مقام، خود اپنی مرضی سے’کھڑی بولی ہندی‘ کی خاطر چھوڑ دیا۔
شری ناگرجن کو بنیادی طور پر یہ شکایت رہی کہ مقامی غیر ہندی معروف زبانوں نے، محض قوم کے اتحاد کی خاطراورہندی زبان کی ترقی کےلیے اپنااعلی بلند ترین مقام خود چھوڑ دیالیکن افسوس،آر ایس ایس کے کسی قائد نے، اس عظیم قربانی پراشارتاً بھی کچھ کہنا مناسب نہ سمجھابلکہ مستقبل میں بھی ہندی زبان کی مکمل حمایت کرتے رہنے کی شرط رکھی۔ ابتداء میں ہندی زبان کو مسلط کرنے کی مہم کے درپردہ جو محرکات پوشیدہ تھے، ان میں اپنے سنہرے خوابوں کی مناسب تعبیریا آپسی الفت یا رحم دلی کے سلوک کے سوا صرف مادی فوائد حاوی رہے۔ انہوں نے تمام دیگر زبانوں کوتنگ نظر، محدوداور غیرمہذب کہنے کے بجائے ’’ نیم مہذب‘‘ ہونے کا لیبل لگاکر چھوڑ دیااوران زبانوں کو عام خیالات کے اظہار کے لیے تومناسب کہالیکن انسان کے اندرونی جذبات اور احساسات کے اظہار سے عاری قرار دیا۔ آگے چل کر اس بات کی پرزور وکالت بھی کی گئی کہ نثری ادب اب صرف ’ کھڑی بولی ہندی‘ ہی کے ذریعے نشو و نما پاسکتا ہے۔ چنانچہ دیگر زبانوں کے بولنے والوں کو، ان کی سیاست سے قربت، اقتدار کی خواہش اور خوشحال مستقبل کی امید نے ،مجبوراًہندی زبان اپنانے پر مجبورکردیا۔
میں یہاں آدی واسیوں کی بولیوں اور زبانوں کے بارے میں گفتگو نہیں کروں گامثلاً جیسے سنتھالی ، منداری، بھیلی ہو یا گونڈی وغیرہ جنہیں ہندی زبان ، گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل چکی تھی۔ شاید مجھے لوگوں کے طعنے تشنے بھی سننے پڑیں کہ میں نے زبانوں کے ارتقاء کے اتنے پیچیدہ سفر کو بڑی آسانی سے یوں سمجھا دیا ۔ حق تو یہ ہے کہ ان زبانوں کی منفرد شناخت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے یہ تشریح ضروری تھی۔اس دوران کچھ تنگ نظراور خود غرض افرادنے ہندی ریاستوں میں اپنے ذاتی فوائد اور شخصی شہرت کی خاطر آدی واسیوں کی زبانوں کونقصان پہنچانے میں بدترین رول ادا کیااور وہ اپنے اس گھنائونے مقصدکے حصول میں کامیاب بھی رہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندی زبان سے اردو کوبھی نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ ہندوستانی سینما اس کی بہترین مثال ہے جہاں اردو زبان میں بنی ہر فلم کو جبراًہندی فلم کہا جانے لگا۔اس موضوع پراس وقت کوئی تحقیقی موادموجود نہیں ہے لیکن یہ صحیح ہے کہ عمداًاور جبراً ، یہ تبدیلی لائی گئی۔ ہندی زبان کی اس اجارہ داری کے باوجود، آج ہندوستانی فلموں میں اردو،پھر بھی زندہ ہے۔ درحقیقت، ہندی ، اردو ہی کے کندھوں پر چڑھ کرہندوستانی سینما میں داخل ہوئی اور اس پر ستم یہ کہ ہندی ہی نے اردو زبان کو ہندوستانی سینما سے باہر کردیا۔
ہندی زبان کودیوناگری رسم الخط میں لکھنے کا اصول مدون کرنے میں بھی مسلم مخالف ذہنیت کا دخل رہا۔عام بول چال میں سنسکرت آمیز ہندی کے استعمال نے دیگر زبانیں بولنے والے ہندئووں کوخود اپنی مادری زبانوں سے دور کردیا۔ آج ان ہندوئوںکویاد نہیں کہ عوام میںمقبول ، ودیاپتی کے شیوا یا میتھیلا کی سیتا ، کون تھے۔ مغربی بنگال میںمشہور تہوار ’’ مہالیہ‘‘ کے موقع پر آج بھی لوگ، ریڈیو کلکتہ سنتے ہیں، اس میں نشر ہونے والے ایک پروگرام ’ چنڈی پتھ ‘ میںدیوی کے ظاہر ہونے کااعلان بار بار کیاجاتا تھا لیکن اب یہ کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔
مقامی زبانوں میں ہندی کو شامل کرکے، چھوٹی چھوٹی مذہبی رسومات ادا کرنے کی نئی رسم کی ابتداء کی گئی۔ اس ثقافتی و سیاسی ہندوتوا منصوبے پر عمل آوری کے لئے1980 میں، ایک رتھ یاترا نکالی گئی تھی ،جس نے ہندوستان کے طول و عرض میں ایک شدید بے چینی اورہلچل پیدکردی تھی۔ اس رتھ یاترا میں شریک ہونے والے ہجوم نے جگہ جگہ توڑ پھوڑ، ماردھاڑ،لوٹ مار اور قتل و خون کر کے تباہی مچائی تھی۔ اس یاترا کے دوران ملک میںامن و سکون سے رہنے بسنے والے بے قصور ، معصوم اورر بے گناہ انسانوں کے خون کے دریا بہائے گئے۔مرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔اس رتھ یاترا نے وسیع پیمانے پرملک میں منائی جانے والی ہندئووں کی تمام چھوٹی چھوٹی مذہبی رسومات کوکچل کر رکھ دیا۔اسی یاترا کے بعد ہندئووں کے دیگر طبقات نے بھارت میں شری رام کے نام سے نکالی جانے والی ہر یاترا کے لیے تمام راستے ہموار کردیے۔ اس مہم کی کامیابی اور اس کیبعد ،مقامی زبانوں جیسے براج ، اودھی ، بھوجپوری اور میتھلی اوردیگر بولیوں کی شناخت اور ان کے عام چلن کو تباہ کرنے کے بعد آر ایس ایس کا اگلا نشانہ بنگالی ، اڑیہ ، آسامی ، ملیالم ، کنڑی اور دیگر زبانیں ہیں۔
مغربی بنگال میں گزشتہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی انتخابی مہم کے دوران،بی جے پی نے انتہائی جارحانہ اندازاپنایا تھا۔ اس علاقے کے لیے ’جئے شری رام‘ اور ’بجرنگ بلی‘ کے نعروں کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے مقامی ہندئووں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی پوری کوشش کی گئی تھی۔ ریاست کے پر امن ماحول کومذہب کے نام پر زہر آلود کرکے انتخابات جیتنے کی پالیسی پر کاربند رہنے والے، بی جے پی اور آر ایس ایس کی اس پرتشدد مہم کے دوران، چیف منسٹرممتا بنرجی نے بنگال کی مشہوراور ہردلعزیز دیوی ’ ’ماتا درگا‘‘ کے نام پر اوراس کے آشیرواد سے، اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیاتھا۔
آج، لینا منی میکھالائی پر ان ہی کی اپنی ڈاکیومنٹری فلم ’’کالی‘‘ کے کچھ شوخ پوسٹرس کے خلاف ، بے شمار تنظیموں نے عدالتوں میں مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ ترنمول کانگریس کی ایک لیڈر مہوا مترا نے ان پوسڑس کی تائید میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عوام کواپنے دیوی دیوتائوں کے متعلق تخیل کی آزادی کا پوراحق حاصل ہے اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ عوام کو حیرت اس بات پر ہے کہ مہوا مترا کے اس بیان سے ترنمول کانگریس نے اپنے آپ کو دورہی رکھاہے۔ پارٹی کا یہ فیصلہ اگرچہ کہ افسوس ناک ہے لیکن اس کے پس پردہ دیگر محرکات اور اس کے ذیلی اثرات سے عوام بھی خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ مہوامترا کے بیان سے ترنمول کانگریس کادوری بنانے کا سب سے بڑا سبب خود ممتا بنرجی ہیں، جو شخصی طور پر مرکزی قیادت کی خواہش منداور امیدواربھی ہیں اورشاید ملک کے موجودہ ’’ہندو۔ہندو‘‘ سماجی اور سیاسی ماحول میں اپنی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر پھونک پھونک کرقدم رکھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری طرف ہم نے یہ بھی دیکھا کہ موجودہ ماحول میں، ہندی بولنے والے ہندوعوام کی اکثریت کے جارحانہ انداز فکر و عمل کے مد نظر، کانگریس ،ملک کے دیگرمذاہب کی تائید کرنے سے ، اپنی بے بسی اوربزدلی کامظاہرہ کر چکی ہے۔ اس سے ہٹ کر، ہندی بولنے والوں کی اکثریت دیگر تمام چھوٹے چھوٹے مذاہب کے تعلق کوہندوتوا کے ساتھ جوڑکر،ہندی زبان کوسرکاری زبان کے درجے کے ساتھ ساتھ، قومی ثقافتی زبان کا درجہ بھی دینا چاہتی ہے۔ہندوئوں کے تمام مقامی تہواروں کو محدودرکھنے یا انہیں غیر معروف کرنے کے لیے آر ایس ایس اور بی جے پی نیٹ ورک کی ایک کوشش، ابھی منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے وامنا جیوتی کے ساتھ کیرالا میں دھوم دھام سے منائے جانے والے سالانہ جشن ’’اونم‘‘ کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ یہ تہوارہر سال، کیرالا میں مہابلی کی واپسی کی خوشی میں بڑی عقیدت کے ساتھ شاندار پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ مغربی بنگال، کرناٹک ، کیرالا اور ان کے علاوہ دیگر ریاستوں میں ’’سری رام نومی‘‘ تہوار کو شان دار پیمانے پر منانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ انہیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ کیرالا میں اب ’سری رام نومی‘ کے تہوار نے اپنی بنیادیں بڑی حد تک مضبوط کرلی ہیںاوریہاں یہ تہوار ہر سال منایا جائے گا۔ کیرالا کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سری رام نومی تہوار اس علاقے کے لیے نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی سال سے یہ تہوا رجوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا رہا ہے۔
ایک اورقابل فکر واقعہ بیان کرنا ضروری ہے جب بجرنگ دل کے کارکنوں نے ریاست کرناٹک میں ایک مذہبی اسٹیج ڈرامے کے دوران ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرے لگا کر ہنگامہ آرائی کی تھی اور پر سکون ماحول میں چلنے والے ایک بہترین پروگرام کو تہس نہس کردیا تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جنوبی ہند کی ایک پر امن ریاست کرناٹک میںہندی سرزمین سے برآمد کی ہوئی یہ غنڈہ گردی نہیں تواور کیا ہے؟میرے والد صاحب کو، جن کی عمر اب 90 برس ہے، انہیں اس وقت بڑا صدمہ پہنچا، جب انہیں معلوم ہوا کہ مغربی بنگال میں کالی ماتا کے ایک پوسٹر کے خلاف پرتشدد مظاہرہ ہواہے۔ اس موقع پر انہوں نے مجھے فیس بک سے بھکت رام پرساد کے کچھ بھجن سنائے جس میں ماتا درگا کا ایک بھکت ، ماتا درگا کے ساتھ ہنسی مذاق کررہا ہے۔ انہوں نے بھکتوں کے ایسے مزاح کو ماتادرگا کے ساتھ عقیدت کا ثبوت قراد دیااور کہا کہ دراصل دیوی ماتادرگا کے ساتھ عقیدت مندوں کا یہ مذاق، ان کی بے انتہا عقیدت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ میں ریاست جھارکھنڈکے علاقے دیوگڑھ کے رہنے والے ایسے عقیدت مند وں کی ، دیوی ماتا کے ساتھ قوتِ مزاح کی قدر کرتا ہوں۔ دراصل اس مزاح پر اعتراض کرنے والے ، ماتاکالی دیوی کی پوجا کرنے کے روایتی رسم و رواج اور طورطریقوں سے واقف نہیں ہے۔ میرے والد نے یہ بھی کہا کہ تمام ہندئووں کی طرح وہ بھی دیوی دیوتائوں کو اپنے خاندان کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ایک طرف ہم انہیں ازراہ مذاق چھیڑتے ہیںلیکن دوسری طرف مکمل عقیدت واحترام کے ساتھ ان کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ ہمارے یہ دیوی دیوتا، کھاتے ہیں، پیتے ہیں اور ہم انسانوں کی طرح خودآپس میںمذاق بھی کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کردلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے یہی دیوی دیوتا، اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ خود بھی شرارت بھی کرتے ہیں،ایسی شرارت جو شکتی نے رما کے ساتھ کی تھی یعنی جب شکتی نے رما کو خوش کرنے کی تپسیا کے دوران نیل کمل کا وہ پھول جو آخری رہ گیا تھا اسے چرا لیا تھا حالانکہ وہ پھول اسی کو دیا جانا تھا۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ دیوی دیوتائوں کے ساتھ انسانوں کی اس پاک اور مقدس قربت سے آر ایس ایس سخت خفا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ہندو اپنے تمام دیوی دیوتائوںکوسخت مزاج اورجنگجو سپاہیوں کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریںتاکہ ملک میں کٹر اورشدت پسندہندو سماج تشکیل دینے میں آسانی ہو۔ آر ایس ایس کے اسی نظریئے کی تائید کرتے ہوئے ہندئووں کے کانوڑیا فرقے نے سالانہ تہوار کے موقع پر ، اپنے پورے ہجوم کے ساتھ، بھگوان شیوا کے لیے مقدس پانی لے جانے والے تہوار کا جلوس، اس سال اپنے روایتی مذہبی جھنڈوں کے بجائے ترنگے کے زیر سایہ نکالا۔ اب ان لوگوں نے بھگوان شیوا کو بھی محدود جغرافیائی علاقے میں محسور کردیا ہے۔ شائد یہ جان سب کو حیرت ہوگی کہ آر ایس ایس نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کربھگوان شیوا سے تینوں دنیائوں کے بھگوان یعنی ترلوک کے بھگوان ہونے کا اعزاز اور اختیاربھیچھین لیا ہے یعنی اب ان کے عقیدے کے مطابق بھگوان شیوا ، ترلوک کے بھگوان باقی نہیں رہے۔شدت پسند اصولوں کی بنیاد پر’’یک لسانی سماج‘‘ تشکیل دینا ،آر ایس ایس کی ایک ناکام کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جو قائدین دنیا کے دیگر مذاہب اور علم کائنات سے واقفیت رکھنے والے دانشوروں اور دیگر سماج کے عالموں اور دانشوروں کی اشارتاً بھی تعریف کرنے سے گریز کرتے ہوں، ان سے کسی اچھے کام کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ اسی نظریہ کی بنیاد پرمانی میکالائی کی فلم کے پوسٹر میں ماتاکالی کی تصویر کی وجہ سے ،آر ایس ایس اور بی جے پی کے خیموںمیں آگ لگی۔ ہاں! اگر اس پوسٹر میں ماتا کالی کودوسرے موڈ میں دکھایا جاتا تو شایدیہ لوگ کچھ مطمئن نظر آتے۔ یاد رکھئیے ! ماتا کالی کا سلوک تمام عقیدت مندوں کے ساتھ ہمیشہ سے دوستانہ رہاہے خاص طور پر ان سماجوں اور ذاتوں کے ساتھ جنہیں سماج سے جبراً دور رکھا گیا ہو۔ بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ غصہ اور دشمنی کے جذبات سے پاک، یہ کالی دیوی، ہندی بولنے والے ان شدت پسند اور شاکی انسانوں کے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کی امیدوں پر کبھی کھری نہیں اترے گی ۔ آنے والے وقت میں سماج کو ایسے افراد کے غیض وغضب کا ہمیشہ سامنا کرنا ہو گا جوناپاک عزائم کے ساتھ بھارت میںیکساں سماج تشکیل دینے کے لیے دن رات اپنی توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ ’دا وائر‘)

 

***

 اردو زبان میں بنی ہر فلم کو جبراًہندی فلم کہا جانے لگا۔اس موضوع پراس وقت کوئی تحقیقی موادموجود نہیں ہے لیکن یہ صحیح ہے کہ عمداًاور جبراً ، یہ تبدیلی لائی گئی۔ ہندی زبان کی اس اجارہ داری کے باوجود، آج ہندوستانی فلموں میں اردو،پھر بھی زندہ ہے۔ درحقیقت، ہندی ، اردو ہی کے کندھوں پر چڑھ کرہندوستانی سینما میں داخل ہوئی اور اس پر ستم یہ کہ ہندی ہی نے اردو زبان کو ہندوستانی سینما سے باہر کردیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022