کاروان کے صحافی پر دلی پولیس کا تشدد

 

کاروان میگزین کے23 سالہ صحافی آہان پنکر کو دلی پولیس نے دیگر احتجاجیوں کے ساتھ گرفتار کرتے ہوئے چار گھنٹے حراست میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا ۔آہان پنکر شمالی دلی کے ماڈل ٹاؤن کے احاطے میں 14سالہ لڑکی کی مبینہ عصمت ریزی اور قتل کے بعد ہوئی موت پر اس کے ارکان خاندان اور دیگر طلباٗ کے احتجاجی مظاہرے کی رپورٹنگ کررہے تھے ۔ یاد رہے کہ اس معاملے کو پولیس نے خود کشی کا واقعہ قرار دے کر ایف آر آئی بھی درج نہیں کی ۔ اپنے صحافی ہونے کے ثبوت پیش کرنے کے باوجود دلی پولیس کے اے سی پی اجے کمار نے آہان پنکر کو لاتیں اور تھیٹر ماریں ۔جس کی وجہ سے آہان پنکر کے ناک، کندھے، پیٹھ اور ٹخنوں پر چوٹیں آئیں ۔پولیس نے آہان پنکر سے زبردستی فون لے کر رپورٹنگ کے دوران ریکارڈ کی گئی تمام وڈیوز کو بھی حذف کردیا ۔ اور انہیں جبراً چار گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا ۔
کاروان میگزین نے اپنے ٹویٹ میں آہان پِنکر پر ہوئے مبینہ پولیس تشدد کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ ان کے صحافی کو اپنا صحافتی شناختی کارڈ بتانے کے باوجود پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایاگیا ۔ آہان پِنکر نے بتایا کہ ان کے ساتھ دیگر دو افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں ایک سکھ تھا۔
آہان پینکر 16 اکتوبر کو شمالی دہلی میں ایک چودہ سالہ دلت کے ساتھ مبینہ عصمت ریزی اور قتل کے معاملے پر ہورہے احتجاج کی رپورٹنگ کررہے تھے۔ طلباء اور کارکن اس سلسلے میں ایف آئی آر کے درج کے مطالبے کے لئے ماڈل ٹاؤن تھانے کے باہر جمع ہوئے تھے۔ پِنکر نے دہلی کے پولیس کمشنر ایس این شریواستو کو اپنے پر ہوئے حملے کے بارے میں شکایت درج کروائی ہے۔بھارتی جرنلسٹس یونین نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کی ہے اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے اس واقعہ پر پولیس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے شمالی دلی کے ماڈل ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں دلی پولیس اہلکاروں کی جانب سے کاروان میگزین کے صحافی پر شناختی کارڈ ظاہر کرنے کے باوجود مبینہ حملے اور چار گھنٹوں حراست اور تشدد برتاؤ کی سخت مذمت کی ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ نے حال ہی میں اڑیشہ کے ایک ٹی وی جرنلسٹ رمیش رتھ کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا، جنہیں ایک فحش ویڈیو سرکلیٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔صحافی کے چینل او ٹی وی کا کہنا ہے کہ اڑیشہ کی بی جے ڈی سرکار کو بے نقاب کرنے کے لیےصحافی کے کام کی وجہ سے انہیں نشانہ بنانے کے لیے سازش کی گئی۔بیان میں کہا گیا کہ ایڈیٹرز گلڈ کا ماننا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں میڈیااداروں کے آزادانہ طریقے سے کام کرنے کے لیے خطرہ ہے اور اسے کمزور کرتی ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020