ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر اور محکوم طبقات کے حقوق

سماجی انصاف کے بغیر بہتر بھارت کی تعمیر ممکن نہیں

ابھے کمار

دنیا بھر میں ۲۰ فروری کا دن عالمی یوم سماجی انصاف کے طور پر منایا گیا۔ اس سال بھی اقوام متحدہ سے لے کر مختلف تنظیموں نے ایک بہتر اور مساوی معاشرہ تشکیل دینے کے عہد کو دہرایا ہے۔ اس موقع پر سوشل میڈیا پر بہت سارے ایسے پوسٹ دیکھے گئے جن میں غربت، تعصب، غیر مساوی نظام، بے روزگاری اور انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ یہ بات بے حد افسوسناک ہے کہ دنیا نے گزشتہ دو سو سالوں میں ترقی کے سارے سابقہ ریکارڈ تو توڑ دیے لیکن اسی دنیا میں آج بھی کروڑوں لوگوں کو ہر روز بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی اور ان کے افکار ہمیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی پیدائش ۱۴ اپریل ۱۸۹۱ میں مہو میں ہوئی تھی جو اس وقت مدھیہ پردیش میں ہے۔ وہ اپنے والدین کی ۱۴ویں اولاد تھے۔ ان کے والد برطانوی فوج میں ملازم تھے۔ بعد میں وہ بامبے ہجرت کر گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ امبیڈکر کو بہتر تعلیم فراہم دلانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ١٩١٣ء میں ایلفن اسٹون کالج بامبے سے گریجویشن مکمل کیا۔ پھر انہوں نے کولمبیا اور لندن سے پی ایچ ڈی اور ڈی ایس سی کی اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۲۰ء کی دہائی میں امبیڈکر اپنی پڑھائی پوری کر کے بھارت لوٹ آئے اور دھیرے دھیرے اچھوتوں کے مسائل کو اٹھانا شروع کیا۔ اچھوتوں کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، جیسے ڈِپڑیسڈ کلاسیز، اَن ٹچیبل، ہریجن اور دلت وغیرہ۔ ابتدائی دنوں میں امبیڈکر نے اپنی لڑائی اچھوتوں کے لیے تالاب سے پانی پینے کے حقوق کے لیے لڑی۔ انہوں نے اچھوتوں کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے معاملے میں بھی مزاحمت کی۔ لوگ بھی بڑی تعداد میں ان کا ساتھ دینے کے لیے آگے آئے، مگر انہیں بہت زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی کی اعلیٰ ذات کی لابی بڑی مضبوط تھی اور انگریز بھی اعلیٰ ذاتوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔ جلد ہی امبیڈکر کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ ہندو دھرم کے اندر تبدیلی لانا اور اس میں دلتوں کے لیے برابری کے حقوق حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں انہوں نے سر عام یہ اعلان کیا کہ وہ ہندو تو پیدا ہوئے ہیں مگر وہ بطور ہندو اس دنیا کو الوداع نہیں کہیں گے۔ امبیڈکر کی یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہندو اَپر کاسٹ اس بات سے پریشان تھے کہ اگر دلت ہندو دھرم کو چھوڑ کر مسلمان اور عیسائی بن گئے تو ان کا سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ اس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت میں حکومت سازی وہی کرتا ہے جس کے پاس تعداد ہوتی ہے۔ در اصل ہندو سماج میں قائد کی کرسی پر قبضہ جمائے ہوئے اپر کاسٹ کا موقف آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہندو معاشرے میں اکثریتی آبادی دلت اور پسماندہ ذاتوں کی ہے۔ جن لوگوں کو ہم آج ہندو سماج کہتے ہیں وہ دراصل ذات برادری میں بکھرے ہوئے محتلف سماجی گروپ ہیں جن کے مابین اخوت کے جذبہ کا فقدان ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس بکھراو کو کم کرنے اور ذات برادریوں کو دھرم کے نام پر ایک کرنے کی کی کوشش نو آبادیاتی دور میں بڑی تیزی سے ہوئی تھی۔ اپر کاسٹ کے ہندو لیڈر اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ اگر ان کو انگریزوں کے بعد بھارت کی حکومت کو اپنی جھولی میں ڈالنا ہے تو ان کو بکھری ہوئی ذات برادریوں کو ایک جگہ جمع کرنا ہو گا اور ان کو اکثریتی قوم بنا کر پیش کرنا ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ بکھری ہوئی ذاتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں ہندو سماج کے اعلیٰ ذات کے لیڈر ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو غیر کہہ کر ہندو سماج میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران فرقہ پرستی کی مذموم آئیڈیالوجی اُبھر کا سامنے آئی جو آج تک بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر اس پورے کھیل کو سمجھتے تھے اور ان کو بخوبی علم تھا کہ ملک کے زیادہ تر قومی لیڈر ذات پات کی لعنت اور غیر مساوی نظام کو ختم کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ہدف یہ تھا کہ کسی طرح سے انگریزوں کے ہاتھوں سے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا جائے۔
۱۹۳۰ء کی دہائی میں ڈاکٹر امبیڈکر نے سمجھ لیا کہ اعلیٰ ذات پر مبنی کانگریس اور گاندھی جی کی لیڈر شپ اچھوتوں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔ تضاد دیکھیے کہ کل تک اچھوت کے گھروں سے گزرتے وقت اعلیٰ ذات کے لوگوں کو بڑی مشکل ہوتی تھی اور اچھوتوں کو تالاب سے پانی پینے نہیں دیا جاتا تھا اور ان کے مندر میں داخل ہونے سے مندر ناپاک ہو جاتا تھا لیکن آج اچانک اعلیٰ ذات کے لوگ اچھوتوں کو ہندو دھرم کا حصہ کہنے لگے۔
وزیر اعظم کی اہم ترین کرسی سے لے کر بھارت رتنا ایوارڈ تک، اعلیٰ ذات بالخصوص برہمنوں کی بالادستی دیکھی جاتی ہے۔ بھارت میں اگر میرٹ کی بنیاد پر واجب حق دیا گیا ہوتا تو آج کالج اور یونیورسٹی سے لے کے پارلیمنٹ تک محکوم طبقات کے لوگ اپنا حق حاصل کر چکے ہوتے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنی بات کی تشریح دیگر مقامات پر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی نا برابری پائی جاتی ہے لیکن وہاں کی مذہبی کتابیں اس نا برابری کو کبھی درست نہیں ٹھہراتیں مگر ہندو دھرم کی کتابوں میں نا برابری کو ہی مثالی نظام بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام ہندو بھی بقول امبیڈکر، ذات پات میں یقین رکھتا ہے۔
ذات پات کے اس شیطانی نظام سے نجات پانے کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر نے تعلیم حاصل کرنے، اتحاد بنانے اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے پر زور دیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا ڈاکٹر امبیڈکر کے افکار میں بڑا اہم رول ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اپنی پوری زندگی پڑھائی میں گزاری اور انہوں نے بہت ساری کتابیں پڑھیں اور تمام مسائل پر قلم اُٹھایا۔
ڈاکٹر امبیڈکر کا ایقان تھا کہ اگر اچھا قانون بن بھی جائے اور اسے نافذ کرنے والی عاملہ کا تعلق محکوم طبقات سے نہ ہو تو انصاف ملنے کی امید کم ہو جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر ڈاکٹر امبیڈکر نے محکوم طبقات کو پالیسی سازی اور اس کی تکمیل کے طریقہ کار میں حصہ داری دینے کی بات پر زور دیا۔ یہ ان کی لڑائی اور اس زمانہ کی ذات مخالف تحریک ہی کا زور تھا کہ آزاد بھارت میں ایس سی اور ایس ٹی کے لیے سرکاری نوکریوں، تعلیمی اداروں اور قانون ساز اسمبلیوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا گیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر یہ بھی کہتے تھے کہ جمہوریت میں اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکار بھلے ہی اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر بن جائے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سرکار اقلیتوں کے مفاد کا خیال نہ رکھے اور اپنی مرضی کو سب پر تھوپے۔تضاد دیکھیے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کی تصویر پر گلپوشی کرنے میں بھگوا طاقتیں دوسروں سے بازی لے جاتی ہیں، مگر ان کی اصل بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا احترام ہی جمہوریت کا دوسرا نام ہے۔ امبیڈکر کی تعلیمات کے برعکس برسراقتدار بھگوا حکومت اقلیتوں کی اصل لیڈرشپ کو نظر انداز کر کے ہی فیصلہ لیتی ہے اور یوں وہ جمہوریت کو پوری طرح کمزور کر رہی ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنی وفات سے کچھ ہی مہینوں قبل بدھ مت کو اپنا لیا تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ بودھ مت کے اندر جو اصل پیغام ہے وہ ایشور کی پوجا، توہم پرستی اور رسم و رواج نہیں ہیں بلکہ اخوت اور منطقی فکر ہے۔ بھارت کے اندر اچھوت رواج کے لیے انہوں نے قدیم زمانہ میں بدھ مت کے ماننے والوں کے خلاف کیے گئے برہمنی ظلم وستم کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بدھ مت کے ماننے والوں کو بعد میں برہمنی طاقتوں نے ہی اچھوت بنا دیا اور اس طرح سے ان کو ذات پات کے نظام کے ساتھ بغاوت کرنے کی سزا دی گئی۔ کہیں پر بھی ڈاکٹر امبیڈکر نے ذات پات اور اچھوت رواج کے لیے مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کو قصور وار نہیں مانا۔ نیز انہوں نے بھارت کی خواتین کی غلامی اور بدحالی کے لیے ہندو دھرم کی مذہبی کتابوں جیسے منوسمرتی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بابا صاحب کی باتوں سے کوسوں دور، بھگوا طاقتیں دن رات یہ پروپیگنڈا پھیلاتی ہیں کہ بھارت میں عورتوں کی بدحالی کے لیے مسلم حملہ آوار ذمہ دار ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے افکار کو غور سے پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔ ایسا کرنے سے ہمارا سماج ایک بہتر سمت میں بڑھےگا۔ آج بھی بھارت میں سماجی انصاف کی لڑائی ادھوری ہے لہذا ضرورت ہے کہ عالمی یوم سماجی انصاف کے موقع پر اس عہد کو دہرایا جائے کہ ہم سب مل کر بابا صاحب کی آزادی، مساوات اور اخوت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے کام کریں گے اور ایک بہتر بھارت بنانے کے لیے جد وجہد کریں گے۔
(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)
***

 

***

 ڈاکٹر امبیڈکر کا ایقان تھا کہ اگر اچھا قانون بن بھی جائے اور اسے نافذ کرنے والی عاملہ کا تعلق محکوم طبقات سے نہ ہو تو انصاف ملنے کی امید کم ہو جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر ڈاکٹر امبیڈکر نے محکوم طبقات کو پالیسی سازی اور اس کی تکمیل کے طریقہ کار میں حصہ داری دینے کی بات پر زور دیا۔ یہ ان کی لڑائی اور اس زمانہ کی ذات مخالف تحریک ہی کا زور تھا کہ آزاد بھارت میں ایس سی اور ایس ٹی کے لیے سرکاری نوکریوں، تعلیمی اداروں اور قانون ساز اسمبلیوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا گیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر یہ بھی کہتے تھے کہ جمہوریت میں اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکار بھلے ہی اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر بن جائے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سرکار اقلیتوں کے مفاد کا خیال نہ رکھے اور اپنی مرضی کو سب پر تھوپے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  6 تا 12 مارچ  2022