ڈالر کو لاحق خطرے سے امریکہ حواس باختہ
انسانیت پر مفادات کو ترجیح: یوکرین جنگ سے عالمی معیشت بحران سے دوچار
مسعود ابدالی
یوکرین کی جنگ دوسرے مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ کشور کُشائی کے شیطانی شوق نے ساڑھے چار کروڑ یوکرینیوں کی زندگی جہنم بنادی ہے۔ پینتالیس (45) لاکھ سے زیادہ افراد ملک چھوڑ کر پولینڈ، رومانیہ، سلاوک ریپبلک اور مالدووا ہجرت کرچکے ہیں۔ بیس لاکھ کے قریب یوکرینی قیامت خیز بمباری سے بچاو کے لیے ملک کے اندر ہی ایک شہر سے دوسرے شہر مارے مارے پھررہے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو اقوام متحدہ اندرونی بے گھر افراد یا IDPs کہتی ہے۔ افغانستان پر دسمبر 1979کے روسی حملے اور دس سالہ قبضے کے دوران 50 لاکھ افغان پناہ کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے جس میں 40 لاکھ پاکستان، آٹھ لاکھ ایران اور باقی امریکہ سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اس دوران 20لاکھ افراد IDPs بن گئے۔
یوکریینیوں کے ساتھ اس جنگ کا عذاب غریب ممالک بھی بھگت رہے ہیں جہاں پیٹرول اور گیس کے ساتھ خوردنی تیل اور گندم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ مصر، شام، لبنان اور یمن سب سے زیادہ متاثر ہیں جہاں استعمال ہونے والے گندم کی 70 فیصد مقدار یوکرین سے آتی ہے۔ تیل کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے بھی عام آدمی کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔
جنگ کے آغاز سے پہلے ہی کہا جارہا تھا کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی بارودی گولیوں کے بجائے سونے کی گولیوں سے روس کی معیشت کو نشانہ بنائیں گے اور توقع کے عین مطابق بے پناہ روسی بمباری کے مقابلے کے لیے رقت آمیز یوکرینی دراخواستوں کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے جنگی طیارے یوکرین بھیجنے پر تیار نہیں اور وہ اقتصادی پابندیوں کے خنجر سے روسی معیشت کا پیٹ چاک کرنا چاہتے ہیں۔
روسی برآمدات کا نصف تیل اور گیس پر مشتمل ہے جس کی بندش امریکیوں کا ہدف ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔ یورپ میں گیس کی ضرورت کا تخمینہ 512ارب مکعب میٹر (BCM)سالانہ اور یورپی ممالک کی اپنی سالانہ پیداوار 190 ارب مکعب میٹر ہے۔ گزشتہ برس روس نے پائپ لائن کے ذریعے 168 ارب مکعب میٹرگیس کے ساتھ 17 ارب مکعب میٹر مائع گیس یاLNG فراہم کی۔ مشرقی یورپ کے ممالک رومانیہ، پولینڈ، سلاواکیہ ، چیک ریپبلک، فن لینڈ ،بلغاریہ اور مالدوواکو فراہم کی جانے والی روسی گیس کا حجم اسکے علاوہ ہے۔
امریکہ ،قطر، الجزائر،آذربائیجان اور دوسرے ملکوں سے مجموعی طور پر 130ارب مکعب میٹر گیس خریدی گئی۔ گزشتہ ہفتے جب نیٹو کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لیے صدر بائیڈن برسلز پہنچے تو تقریباً ہر مجلس میں انہیں گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا شکوہ سننا پڑا اور موصوف ہرجگہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ کا دلاسہ دیتے نظر آئے۔ یورپین کمیشن کی صدر محترمہ ارسلا وانڈرلین سے ملاقات کے دوران امریکی صدر نے 15 ارب مکعب میٹراضافی گیس فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔اس وقت یورپ کے لیے LNGکی شکل میں یورپ آنے والی امریکی گیس کا حجم 22 ارب مکعب میٹر ہے۔ اس سال کے آخر تک امریکہ یورپ کو50 ارب مکعب میٹر گیس سالانہ فروخت کرے گا۔ یہ بھاری اضافہ بھی روسی گیس کے مجموعی حجم کا صرف 24 فیصد ہے۔ اضافے کی اس یقین دہانی کو بہت سے ماہرین وعدہِ فردا قراردے رہے ہیں، اس لیے کہ LNGکی فراہمی کو آٹھ ماہ کے دوران دگنا کردینا اتنا آسان نہیں۔
یورپی عوام امریکی گیس کی قیمت کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ نوّے فیصد روسی گیس پائپ لائن کے ذریعے آتی ہےجبکہ امریکی LNGخصوصی ٹینکروں پر یورپ لائی جائے گی چنانچہ ٹینکروں اور مختلف بندگاہوں پر LNGپلانٹ کے کرائے کی شکل میں یورپی صارفین کو اضافی لاگت بھگتنا پڑے گی۔
ہمارے خیال میں یورپ کو روسی تیل اور گیس کی خرید صفر کردینے کی امریکی خواہش غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ دنیا کا یہ ترقی یافتہ خطہ اپنی توانائی کی چالیس فیصد ضروریات روسی گیس سے پوری کرتاہے۔ نیٹو ممالک نے روسی توانائی پر انحصار ختم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں لیکن عزم و دعووں کے باوجود روسی توانائی پر انحصار ایک دم ختم کرنا ’اقتصادی‘ اعتبار سے ممکن نہیں۔ ہم نے جان کر ’اقتصادی‘ کی شرط لگائی ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ ناممکن تو نہیں لیکن روسی تیل اور گیس سے فوری طور پر چھٹکارے کی یورپ کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
اس وقت دنیا میں تیل کی ایک تہائی پیداوار امریکہ، روس اور سعودی عرب سےحاصل ہوتی ہے اور ان ہر تین ملکوں کی اوسط پیداوار ایک کروڑ بیرل یومیہ ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی پیداوار ایک کروڑ تیس لاکھ بیرل ہوگئی ہے اور سعودی عرب بھی اب ایک کروڑ 5 لاکھ بیرل تیل روزانہ زمین سے نکال رہا ہے۔ گزشتہ دنوں صدر بائیڈن نے تیل کے امریکی تزویراتی ذخیرے یا Strategic Petroleum Reserve(SPR) سے دس لاکھ بیرل یومیہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 1973میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران شاہ فیصل کی جانب سے امریکہ اور یورپ کے لیے تیل کی برآمدات بند کرنے پر امریکہ اور مغرب میں توانائی کا شدید بحران پیدا ہوا تھا۔ اس سے سبق سیکھتے ہوئے تیل اور گیس نچوڑ لی جانےوالی چٹانوں یا Depleted Reservoirsمیں ’’مشکل دنوں کے لیے ‘‘ 75 کروڑ بیرل سے زیادہ تیل محفوظ کیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ سلسلہ چھ ماہ جاری رہے گا، یعنی ان ذخائر سے مجموعی طور پر اٹھارہ کردڑ بیرل تیل بازار میں لایا جائے گا۔ صدر بائیڈن کے اس فیصلے سے تیل کی قیمتیں تو شاید وقتی طور پر دباو میں آجائیں لیکن اس سے امریکی صارفین کو حقیقی راحت ملنے کی امید نہیں۔ امریکہ میں ہرروز دوکروڑ بیرل تیل پھونکا جاتا ہے اور اس تناظر میں دس لاکھ بیرل اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہیں۔
اسی بنا پر امریکہ کے یورپی اتحادیوں کا خیال ہے روسی تیل اور گیس پر انحصار وقت کے ساتھ کم تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے یکسر ختم کرنا ممکن نہیں۔ صدر پوتن نے اسی حوالے سے طنز کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، روس نہیں یورپی معیشت کا قافیہ تنگ کررہا ہے۔
گزشتہ دنوں اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں بھی اس معاملے پر بحث مباحثہ ہوا۔ اٹلانٹک کونسل ایک امریکی مرکزِ دانش یا تھنک ٹینک ہے جو اٹلانٹک ازم (Atlanticism)کے فروغ کے لیے 1961 میں قائم ہوا تھا، یوں سمجھیے کہ یہ ادارہ نیٹو کا فکری شعبہ ہے۔کونسل کے شعبہ توانائی یا گلوبل انرجی فورم نے دبئی میں 28مارچ کو دوروزہ اجلاس منعقد کیا۔اس موقع پر اپنے کلیدی خطاب میں متحدہ عرب امارات کے وزیر توانائی سہیل بن محمدالمزروئ نے روس کے بائیکاٹ کو ناقابل عمل قراردیتے ہوئے کہا کہ سیاست کو ایک طرف کرکے کوئی بتائے کہ اگر روسی تیل پر پابندی لگادی جائے تو اس کمی کو کون پورا کرے گا؟۔ روسی تیل کا حجم ایک کروڑ بیرل یومیہ ہے، کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں سے تیل کی اتنی بڑی اضافی مقدار حاصل کی جاسکے؟ اماراتی وزیر نے کہا کہ سعودی عرب یا امریکہ کسی کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ وہ اپنی پیداوار میں ایک کروڑ بیرل روزانہ کا اضافہ کرسکے۔ یعنی یہاں پاس کر یا برادشت والا معاملہ ہے۔ پابندیوں کے ’شور‘ سے روس کا تو زیادہ کچھ نہ بگڑا لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہیجان نے تیل کے بھاو کو پَر لگادئے۔
ماہرین کے خیال میں سیاست دانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری درکار ہے اور بازار حسینوں کی طر ح تلون مزاج۔ اگر آج اربوں ڈالر خرچ کرکے پیدواری گنجائش بڑھادی جائے اور کل چچا سام ماسکو پر مہربان ہوکرپابندیاں ختم کردیں تو یہ اضافی تیل کہاں کھپے گا؟
مزے کی بات کہ جہاں امریکہ اور نیٹو روسی توانائی کی درآمد کم سے کم کرنا چاہ رہے ہیں وہیں ماسکو خود بھی اپنے مال کے لیے گاہک ڈھونڈھ رہا ہے۔ حالیہ دورہ ہندوستان میں وزیرخارجہ سرجی لاروو نے روسی اسلحہ خریدنے پر دلی کو ارزاں دام تیل فراہم کرنے کی پیشکش کی اور سودے کو مزید پرکشش بنانے کے لیے لین دین روسی روبل (ruble)اور ہندوستانی روپئے میں کرنے کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا۔ ہندوستان چالیس لاکھ بیرل تیل یومیہ درآمد کرتا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ کی خواہش ہے کہ روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو مزید سخت کرنے کی مہم میں دلی نیٹو کا ساتھ دے۔ روسی وزیرخارجہ کی آمد سے پہلے برطانیہ کی وزیرخارجہ محترمہ لز ٹرس (Liz Trus) اور قومی سلامتی کے لیے صدر بائیڈن کے نائب مشیر دلیپ سنگھ ہندوستان پہنچے۔ ان دونوں رہنماوں نے ہندوستانی وزیرخارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات میں انہیں روس سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ دلیپ سنگھ کا کہنا تھا کہ ہندوستان معاہدہ اربعہ (Quad)کا اہم رکن ہے اور وہ توقع کرتے ہیں کہ مودی جی روسی جارحیت کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ بنیں گے۔
ساری دنیا کو توانائی کی ضرورت ہے لہذا دیر یا سویر روس اپنے تیل کے لیے نئی منڈی تلاش کرلے گا۔ چین کے علاوہ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، سنگاپور، تھائی لینڈ اور دوسرے ترقی پزیر ایشیائی ممالک میں روسی تیل کھپ سکتا ہے۔
روس کے خلاف معاشی پابندیوں میں امریکہ کا تیر بہدف اور موثر ہتھیار ڈالر ہے۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور جاپان کے ریاستی بینکوں (اسٹیٹ بینک) نے روس سے امریکی ڈالر، یورو، برطانوی پونڈ اور جاپانی ین میں لین دین پر پابندی لگادی ہے جس کی وجہ سے یورپ کو فروخت کی جانے والی گیس کی ادائیگی معطل ہے۔ نیٹو نے روس سے آنے والی گیس پائپ لائن بند نہیں کی اور یورپی صارفین کو گیس کی فراہمی جاری ہے لیکن روس کو قیمت کی ادائیگی نہیں ہورہی۔
روس اور چین، دوسرے ’ہمخیال‘ ملکوں کے تعاون سے امریکی ڈالر کی بالادستی بلکہ اجارہ داری ختم کرنے کے لیے مقامی کرنسیوں میں لین دین کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ خبروں کے مطابق چین نے روسی تیل کی قیمت چینی وان (Yuan)میں اداکرنے کی پیشکش کی ہے جس پر ماسکو آمادہ نظرآرہا ہے لیکن روسیوں کی خواہش ہے کہ ادائیگی کے لیے وان کے ساتھ روبل بھی استعمال کیا جائے۔ ان دونوں کرنسیوں کی شرح پر بات چیت جاری ہے۔ شنید ہے کہ سعودی عرب، چین سے اپنے تیل کی قیمت وان میں وصول کرنے پر آمادہ ہے۔ روبل، یوآن اور مقامی کرنسیوں میں لین دین سے جہاں ایشیائی ممالک کا ٖڈالر پر انحصار کم ہوگا وہیں روس پر لگائی جانے والی پابندیاں بھی غیر موثر ہوجائیں گی۔
اس ضمن میں گزشتہ ہفتے صدر پوتن نے ایک سرکاری حکم جاری کیا ہے جس کے تحت یکم اپریل سے یورپ کو فراہم کی جانے والی گیس کی قیمت روبل میں وصول کی جائے گی۔ اپنی نشری تقریر میں روسی رہنما نے کہا کہ ہم یورپی درآمدات کی قیمت نقد اداکرتے ہیں چنانچہ ہماری برآمدت کو خیرات نہ سمجھا جائے۔ اگرناروا پابندیوں کی وجہ سے ڈالرمیں ادائیگی مشکل ہے تو روسی بینکوں کو روبل میں رقم منتقل کی جائے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر روبل میں ادائیگی شروع نہ ہوئی تو یورپ کو گیس کی فراہمی معطل کردی جائے گی۔ مغربی حکومتوں نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ خرید و فروخت کے معاہدوں میں ان کرنسیوں کا تعین کیا جاچکا ہے اور ادائیگی طئے شدہ کرنسی میں ہی ہوگی۔ تین دن گزرجانے کے باوجود روس نے مغربی یورپ جانے والی گیس پائپ لائن گلا نہیں گھونٹا لیکن ماسکو اس نوٹس کو بنیاد بناکر کسی بھی وقت گیس بند کرکے یورپ خاص طور سے جرمنی کو مشکل میں مبتلا کرسکتا ہے۔
روسی روبل اور چینی وان میں عالمی تجارت کا حجم ابھی بہت ہی معمولی سا ہے لیکن واشنگٹن میں بے چینی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر متبادل کرنسیوں میں کاروبار چل نکلا تو بین الاقوامی تجارت پر امریکہ کی بالادستی اور ڈالر بادشاہ کا بلاشرکت غیرے عالمی راج متاثر ہوسکتا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
روس اور چین، دوسرے ’ہمخیال‘ ملکوں کے تعاون سے امریکی ڈالر کی بالادستی بلکہ اجارہ داری ختم کرنے کے لیے مقامی کرنسیوں میں لین دین کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ خبروں کے مطابق چین نے روسی تیل کی قیمت چینی وان (Yuan)میں اداکرنے کی پیشکش کی ہے جس پر ماسکو آمادہ نظرآرہا ہے لیکن روسیوں کی خواہش ہے کہ ادائیگی کے لیے وان کے ساتھ روبل بھی استعمال کیا جائے۔ ان دونوں کرنسیوں کی شرح پر بات چیت جاری ہے۔ شنید ہے کہ سعودی عرب، چین سے اپنے تیل کی قیمت وان میں وصول کرنے پر آمادہ ہے۔ روبل، یوآن اور مقامی کرنسیوں میں لین دین سے جہاں ایشیائی ممالک کا ٖڈالر پر انحصار کم ہوگا وہیں روس پر لگائی جانے والی پابندیاں بھی غیر موثر ہوجائیں گی۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اپریل 2022