چین کے معاملے میں سنگھ پریوار کا دھرم سنکٹ

دیش بھکتی کی جعلی نقاب تار تار

ڈاکٹر سلیم خان

گلوان وادی کی موجودہ صورت حال نے پھر ایک بار ۱۹۶۲ کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ اس وقت کے حالات کا آج کل کی حالت سے موازنہ کیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں پنڈت جواہر لال نہرو اور نریندر مودی کے اقدامات میں مماثلت تلاش کرنے کی کوشش فطری عمل ہے۔ حالات کو دیکھیں تو ۱۹۵۹ اور ۱۹۶۲ کے درمیان ہندوستان اور چین کے درمیان نہایت قریبی تعلقات قائم ہوگئے تھے ۔ اس سے بھی زیادہ قربت پچھلے ۶ سالوں کے اندر ہندوستان اور چین کے درمیان پیدا ہوئی ۔ اس کے باوجود سرحد پر وہی ہوگیا جو ۱۹۶۲ میں ہوا تھا ۔ مودی جی سوچ رہے ہوں گے چینی صدر کے علاوہ دنیا کا اور کون سا حکم راں ہے جس سے انہوں نے پانچ برس کے اندر ۱۸ مرتبہ ملاقات کی ہے؟ دو مرتبہ اس کو اپنے یہاں بلایا اور ۵ مرتبہ اس کے یہاں گئے؟ اس کے باوجود چین کے ساتھ جاری ’امر پریم‘ میں اچانک آنند بخشی کا لکھا ہوا گیت کیوں بجنے لگا؟
یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟
جب ہوا؟ تب ہوا چھوڑو یہ نہ سوچو،،،،
چناں چہ مودی جی نے سوچنا چھوڑ دیا اور اعلان کر دیا کہ کچھ ہواہی نہیں! لیکن اگر ان کے من میں کبھی ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے کی خواہش پیدا ہو تو وہ اسے ۵ سال قبل جموں کشمیر میں مودی اور مفتی کی دوستی میں تلاش کرسکتے ہیں ۔ ایک زمانے میں بی جے پی اور پی ڈی پی بھی نہ صرف نظریاتی سطح پر بلکہ میدانِ عمل میں بھی ہندوستان اور چین کی مانند ایک دوسرے کے دشمن تھے اس کے باوجود ان دونوں نے ایک ساتھ مل کر حکومت بنالی۔ مفتی محمد سعید کے انتقالِ پرملال کے بعد محبوبہ مفتی کو تھوڑے بہت پس و پیش کے ساتھ وزیر اعلیٰ تسلیم کرلیا گیا لیکن پھر کیا ہوا؟ ’امر پریم‘ ایک دن اچانک ’کٹی پتنگ ‘ میں تبدیل ہوگیا ۔ اپنی ہی سرکار کو گرادیا گیا اور آگے چل کر اپنے حلیف کو طویل نظر بندی میں بھیج دیاگیا ۔ وہ سب کیا تھا؟ کیوں کیا گیا تھا ؟ سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ کیا وہی چین نے ہندوستان کے ساتھ کردیا ۔ دوستی کی، گلے ملے اور موقع دیکھ کر پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اس جملۂ معترضہ کے بعد آئیے دیکھیں کہ ۱۹۶۲ کے بعد پنڈت نہرو نے کیا کیا تھا اور نریندر مودی اب کیا کررہے ہیں ؟
۱۹۶۲ میں پنڈت نہرو نے اپنی فوج کو چین سے مقابلہ کرنے کا حکم دے دیا ۔ فی الحال مودی جی بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے فوج کو ’فری ہینڈ‘ دے دیا ہے۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ اب ہاتھ کھولنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔ یعنی جس وقت ہندوستانی اور چینی فوج کے درمیان تصادم ہوا ہندوستانی فوجیوں کے ہاتھ کھلے ہوئے نہیں تھے ۔ اسی لیے وہ نقصان ہوگیا کیونکہ جن شی پنگ نے اپنے فوجیوں کے ہاتھ پہلے ہی کھول دیے اور انہیں تیاری کے ساتھ ہم پر چھوڑ دیا۔ ۱۹۶۲ میں چونکہ ہندوستان چین کے مقابلے میں کمزور تھا اس لیے اس کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا ۔ چناں چہ اسی صدمے میں نہرو جی چل بسے ۔ ہندوستان اب پہلے جیسا کمزور نہیں ہے اس نے کافی ترقی کرلی ہے، لیکن جس قدر ترقی ہندوستان میں ہوئی ہے اس سے زیادہ پیش رفت چین نے کی ہے۔ اُس وقت چین دنیا کی سپر پاور نہیں تھا لیکن فی الحال امریکہ کے مقابلے معاشی اور حربی سطح پر وہی ڈٹا ہوا ہے۔ اس کی معیشت ہندوستان سے پانچ گنا بڑی ہے اور فوج بھی دوگنی ہے۔ اس لیے مودی جی ۱۹۶۲ والی غلطی کو دُہرانے سے گریز کررہے ہیں ۔ یہ ان کی ہی نہیں بلکہ کسی بھی سربراہِ مملکت کی پسند نہیں ہوسکتی ہاں مجبوری ہوسکتی ہے۔
پاکستان یا نیپال جیسا ہم سایہ اگر ایسی جرأت کرتا تو مودی جی ہرگز اس طرح کے صبر و ضبط کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان اور نیپال نے جس طرح کا جواب دیا ویسا ردعمل بھی سامنے نہیں آسکا۔ ہند نیپال سرحدی تنازع پر وزیر اعظم کھڑک پرشاد شرما اولی نے بڑی سختی کے ساتھ اپنے موقف کی مدافعت کی اور جنگ کی دھمکی دے دی۔ اولی نے ایوان پارلیمان میں ہندوستان کی مرضی کے خلاف نقشہ منظور کرکےکالاپانی پر اپنے دعویٰ کو مہربند کردیا ۔ پاکستان نے ائیر اسٹرائیک کے جواب میں دن دہاڑے جموں کشمیر کے اندر اپنے جنگی جہاز بھیجے اور ان کا پیچھا کرنے والے فائٹر جیٹ کو گراکر ونگ کمانڈر ابھینندن ورتمان کو گرفتار کرلیا ۔ کاش کہ جس وقت ہندوستانی فوجیوں کو چینیوں نے اپنی حراست سے رہا کیاہم ان کے کچھ فوجی لوٹاتے اور معاملہ ادلا بدلی کا ہوتا ۔ ہمارے محصورین ان کے قیدیوں کے عوض رہاہوتے تو حساب برابر ہوجاتا۔
پنڈت جواہر لال نہرو عالمی سطح کے نہایت پختہ کار قد آور رہنما تھے ۔ علم و فضل اور رہنمائی کی صلاحیت میں نہرو جی اور مودی جی میں اب بھی بہت بڑا فرق ہے اس وقت غیر جانب دار ممالک کے اندر نہرو، ٹیٹو اور ناصر کے نام ڈنکا بجتا تھا ۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح کے صبرو تحمل کا مظاہرہ پنڈت نہرو کیوں نہیں کرسکے؟ انہوں نے چین سے تصادم کے بجائے آنکھ موند لینے کو ترجیح کیوں نہیں دی ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کی تحریک کے بعد کئی طاقتور اور خود دار رہنما کانگریس پارٹی میں موجود تھے ۔ ان کا قد پنڈت جی سے کم مگر بہت کم بھی نہیں تھا ۔ ان کی بات سنی جاتی تھی ۔ ان کے حوصلے بلند تھے اور پنڈت نہرو سمیت وہ سب چینی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا چاہتے تھے ۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ مودی جی کی کابینہ میں سارے لوگوں کی حیثیت ان کے آگے پدیّ کی سی بنا دی گئی ہے ۔ ان بیچاروں کے پاس دُم ہلانے کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لیے وزیر اعظم پر اندرونی دباؤ بالکل نہیں ہے۔ حزب اختلاف کی حالت بھی پتلی ہے ۔ ان حالات کا فائدہ اٹھا کر مودی جی نے در اندازی کا انکار کرکے قرار واقعی اقدام سے دامن بچا لیا ورنہ بعید نہیں تھا کہ ۱۹۶۲ والی کہانی دُہرائی جاسکتی تھی لیکن یہ ضروری نہیں تھا ۔ ۱۹۶۷ میں ہندوستانی فوج نے بڑی دلیری کے ساتھ چینی جارحیت کا مقابلہ کیا اور اس وقت مرنےوالے چینی فوجیوں کی تعداد ہندی فوجیوں سے پانچ گنا زیادہ تھی اور چین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ اسی لیے بی جے پی والے۱۹۶۲کو تو بہت یاد کرتے ہیں لیکن ۱۹۶۷ کا بھول کر بھی ذکر نہیں کرتے ۔
بین الاقوامی معاملات میں مودی سرکار کی حکمت عملی نے سنگھ پریوار کے لیے بہت بڑا دھرم سنکٹ پیدا کردیا۔ آر ایس ایس نے ۱۹۶۲ میں جس طرح پنڈت نہرو پر تنقید کی تھی وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس وقت سنگھ کی قیادت گولوالکر جیسے شعلہ صفت رہنما کے ہاتھوں میں تھی۔ بھارتیہ جن سنگھ کے پاس چوں کہ گنوانے کے لیے کچھ نہیں تھا اس لیے ان کے اوپر کوئی سیاسی دباؤ بھی نہیں تھا ۔ جن سنگھ کے سب سے بڑے رہنما اٹل بہاری واجپائی بھی لوک سبھا کے رکن نہیں تھے بلکہ راجیہ سبھا میں ہوا کرتے تھے ۔ اس لیے سنگھ کے رہنما بلاخوف وخطر اپنے من کی بات کہنے کے لیے آزاد تھے ۔ کانگریس کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے وہ بھی سنگھ کی تنقید کو گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ ایسے میں سوال کرنے والوں کو تلملا کر غدارِ وطن ٹھہرانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ آر ایس ایس۱۹۵۰ سے ہی چین کے متعلق سخت گیر حکمت عملی کی حامی رہی ہے۔ سنگھ نے اپنی منظور شدہ قرار داد میں ۱۹۶۲ کی شکست کی بنیادی وجہ پنڈت نہرو کےذریعہ سردار پٹیل اور گولوالکر کے مشوروں کو نظر انداز کرنا قرار دیا ہے ۔۲۳
دسمبر ۱۹۶۲ کو دہلی کے رام لیلا میدان پر گولوالکر نے کہا تھا چینی توسیع پسندانہ پالیسی کی بنیادی وجہ اس کا اشتراکی نظریہ ہے۔ سنگھ کے مطابق چین نے پہلے تبت پر قبضہ کیا اور پھر ہندوستانی سرحدمیں در اندازی کرنے لگا ۔ ویسے گولوالکر نے اپنے سیاسی اختلافات کو درکنار کرتے ہوئے چین کے خلاف نہرو حکومت کی حمایت کرتے ہوئے متحد ہوکر دشمن کا مقابلہ کرنے کی تلقین بھی کی تھی ۔ نومبر ۱۹۶۲ میں گولوالکر نے نہرو حکومت کو خبردار کیا تھا کہ چین نیپال کو ہندوستان کے خلاف استعمال کرسکتا ہے اس لیے نیپال سے بہتر تعلقات قائم کرنے چاہئیں اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مشکلات بڑھیں گی۔ کانگریس نے تو نیپال کو ایسا حلیف بنایا کہ چین کے لیے اس کا استعمال ناممکن ہوگیاتھا مگر مودی جی نے اسے ڈھکیل کر دشمن کی گود میں بٹھا دیا ۔ سنگھ کو اس عرصے میں ایک بار بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنی سرکار کو خبردار کرتی ۔ سنگھ کے لیے مسئلہ یہ ہوا کہ نہرو کو مشورہ دیتے وقت نیپال ہندو راشٹر تھا مگراب وہ بھی اشتراکی ہوگیاہے۔ ایسےمیں چینی اشتراکیت کی مخالفت اور اشتراکی نیپالی کی حمایت آرایس ایس کے لیے دھرم سنکٹ بن گیا ۔
۲۰۱۲ تک سنگھ پریوار کو اپنے گرو کی تعلیمات یاد تھیں اس لیے ان لوگوں نے ہند۔ چینی جنگ کے ۵۰ ویں سالگرہ کے موقع پر اپنی کل ہند مجلس انتظامیہ میں ایک قرار داد منظور کر کے منموہن سنگھ کی حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ وہ ۱۹۶۲ کے تجربے سے سبق حاصل کرے ۔ اس قرار داد میں ترجیحی بنیاد پر چین کے حوالے سے جامع قومی تحفظ کی حکمت عملی وضع کرنے پر زور دیا گیا تھا ۔۸ سال قبل آر ایس ایس نے چین کے ذریعہ دریاؤں کے رخ کی تبدیلی پرتشویش ظاہر کی تھی اب چین نے دریائے گلوان پر اپنا دعویٰ ٹھونک دیا ہے اور اس کی حمایت میں وزیر اعظم کے بیان کا حوالہ دے رہا ہے ۔ سنگھ نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اور بھی بہت سارے مشوروں سے نوازا تھا مثلاً چین کے اسلحہ اور دیگر انفراسٹرکچر کے پیش نظر فوجی تنصیبات پرسرمایہ کاری کرنا وغیرہ ۔ حالیہ تنازع کے بعد ممکن تھا کہ سنگھ انہیں دُہراتا لیکن بد قسمتی سے ڈیڑھ سال بعد ہی منموہن سرکار کا بوریا بستر گول ہوگیا اور مودی جی وزیر اعظم بن گئے ۔ اس کی خوشی میں سنگھ اپنے گرو کی تعلیمات کے ساتھ ان قرار دادوں کو بھی بھول گیا جن کو وقتاً فوقتاً منظور کیا جاتا تھا۔ چین کی بابت مذکورہ قرار داد میں توانائی، معلومات، ترسیل ، صنعت و تجارت کے اہم شعبوں میں چینی عمل دخل پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔ مودی جی چین پر ایسے فدا ہوئے کہ ان کے اقتدار میں آتے ہی ہندوستان اور چین کے درمیان تجارتی خسارہ تیزی سے بڑھنے لگا۔ اس ریزولیوشن کے ایک سال بعد یعنی منموہن سنگھ کے آخری سال میں یہ تجارتی خسارہ صرف ۳۶ بلین ڈالر تھا۔ مودی جی کے اقتدار میں آتے ہی پہلے سال وہ ڈیڑھ گنا بڑھ کر ۴۸ بلین ڈالر ہوگیا۔ اس کے بعد اس میں ہر سال اضافہ ہی ہوا۔ وہ دوسرے سال ۵۲بلین اور اس کے بعد والے برس ۵۳ نیز چوتھے سال میں ۶۳ تک جاپہنچا۔ پانچویں سال میں ۱۰ بلین ڈالر کی کمی تو ہوئی۔ اس پر وزیر تجارت رمیش پربھو نے خوشی کا اظہار بھی کیا لیکن وہ بھول گئے کہ اس سال چین نے ۵ بلین ڈالر کا مال ہانگ کانگ سے بھیج دیا تھا جہاں سے ہونے والی درآمد ۱۱ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۱۶ بلین تک پہنچ گئی تھی۔ اس عرصہ میں ایک مرتبہ بھی سنگھ پریوار تو دور اس کے سودیشی جاگرن منچ کی تک ہمت نہیں ہوئی کہ وہ مودی حکومت کی جانب نگاہِ غلط ڈالتا ۔ گلوان وادی میں حملے کے بعدجب پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تو سودیشی جاگرن نے چینی سفارتخانے کے سامنےاحتجاج توکیا مگر امیت شاہ کی پولیس مظاہرہین کوگرفتار کرکے لے گئی ۔
عام لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مودی کی لگام بھاگوت کے ہاتھ میں ہے لیکن اب تو ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ سنگھ کی لگام سرکار کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ وہ جدھر چاہتی ہے اسے ہانک کر لے جاتی ہے ۔ یہ انقلاب کیسے آگیا ہے؟ بیٹا باپ کب بن گیا؟ ان سوالات کا جواب ۲۰۱۴ میں اقتدار کی تبدیلی کےبعد والے ماحول میں چھپا ہوا ہے۔ مودی جی کو جب پر لگ گئے تو انہوں نے ساری دنیا میں گھوم گھوم کر وہاں موجود ہندوستانیوں کے ساتھ جشن منانا شروع کردیا اس لیے کہ ہندوستان کے اندر تو بہت کم لوگوں نےان کی حکومت کو ووٹ دیا تھا۔ ہندوستان کی کل آبادی کا نام تو رائے دہندگان میں ہے نہیں، جو ہیں ان میں سے ۵۰ فیصد نے ووٹ دیا اور اس کے اندر سے ۲۹ فیصد ووٹ ملے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے لوگ تھے۔ ملک سے باہر مودی جی کے پروگرام ٹیلی ویژن پر ہندوستان کے اندر دکھائے جاتے اور یہ تاثر دیا جاتا کہ مودی کی وجہ سے ساری دنیا میں ملک کی عزت و توقیر میں اضافہ ہورہا ہے۔ مودی جی کے اقتدار میں آنے سے پہلے دنیا بھر میں ہندوستانی احترام سے محروم تھے ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جو سراسر جھوٹ تھا ۔
مودی جی نے ہندوستان کو وشو گرو بنانے کا خواب اس زور و شور کے ساتھ بیچا کہ آر ایس ایس کے لیے ان پر تنقید کرنا مشکل ہوگیا۔ اس دوران سنگھ پریوار نے پردھان سیوک کے سحر میں گرفتار ہو کر سوچنا شروع کردیا اب کسی کی مجال نہیں ہے کہ ہماری جانب نظر اٹھا کر دیکھے۔اس لیے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے فروری ۲۰۱۸میں مظفر پورکے اندر بے پرکی ہانکتے ہوئے کہہ دیا کہ ۱۹۶۲ میں سرحد پر فوج کے آنے تک سنگھ سیوک چینی فوج کے آگے ڈٹے رہے۔ انہوں نے فرمایا ہماری فوجی یا نیم فوجی تنظیم نہیں ہے مگر ہمارا نظم وضبط ان کی مانند ہے۔ فوج کی تیاری میں ۶ تا ۷ مہینوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے مگر آر ایس ایس کے کارکن ۲ تا ۳ دن میں میدانِ جنگ کے قابل ہوجائیں گے۔ یہی نظم و ضبط کی صلاحیت ہماری صفتِ امتیاز ہے۔ اس بیان کے بعد ڈوکلام کا تنازع ہوا لیکن بہار سے قریب سکمّ میں سنگھ پریوار دمُ دبا کر بیٹھا رہا۔ گلوان میں فوجیوں کی جان پر بن آئی اور اس سانحہ کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے لداخ سے بی جے رکن پارلیمان ٹویٹ تو کر رہا ہے لیکن سنگھ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔
موہن بھاگوت نے اپنی مذکورہ تقریر میں یہ بھی کہا تھا ہمیں مادرِ وطن کے لیے جینا اور مرنا چاہیے۔ اگر ہم غیر متحد ہوگئے تو ملک کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔سچ تو یہ ہے فی الحال سنگھ خود ملک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور موجودہ سرکار اس کے لیے نت نئے مسائل کھڑی کررہی ہے۔موہن بھاگوت کے بیان کو جب راہل گاندھی نے فوج کی توہین قرار دیا تو سنگھ کے سکریٹری موہن ویدیا نے کہا وہ اپنے کارکنان کاموازنہ فوج سے نہیں عام لوگوں سے کررہے تھےحالانکہ بھاگوت کے بیان میں عوام کا نہیں بلکہ صاف سیدھے فوج کا تذکرہ تھا۔ مودی یگ کے اندر سنگھ میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئیں ان میں سب سے نمایاں خاکی نیکر کا نیلی پتلون میں بدل جانا تھا لیکن سب سے بڑا فرق یہ پڑا کہ اس کے چہرے پر پڑی جعلی دیش بھکتی کی نقاب تار تار ہوگئی ۔ مودی جی نے سنگھ کے قدیم مسائل مثلاً دفع ۳۷۰ یا رام مندر کا اپنی مقبولیت کو بڑھانے میں تو خوب استعمال کیا لیکن سنگھ کے نظریات کی ارتھی کو شمشان گھاٹ تک پہنچا دیا۔ اب اس چتا کو آگ دکھانے کا کام باقی رہ گیا ہے اس کو وہ خود کرتے ہیں یا اس کے لیے اپنے نائب کی خدمات حاصل کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
***


 

پاکستان یا نیپال جیسا ہم سایہ اگر ایسی جرأت کرتا تو مودی جی ہرگز اس طرح کے صبر و ضبط کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان اور نیپال نے جس طرح کا جواب دیا ویسا ردعمل بھی سامنے نہیں آسکا۔ ہند نیپال سرحدی تنازع پر وزیر اعظم کھڑک پرشاد شرما اولی نے بڑی سختی کے ساتھ اپنے موقف کی مدافعت کی اور جنگ کی دھمکی دے دی۔ اولی نے ایوان پارلیمان میں ہندوستان کی مرضی کے خلاف نقشہ منظور کرکےکالاپانی پر اپنے دعویٰ کو مہربند کردیا