زعیم الدین احمد ، حیدر آباد
ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا سافٹ ویر ڈیٹا بنانے جا رہا ہے جو عوام کے چہروں کی شناخت کرے گا، وہ چہرہ شناسی کا اب تک کا سب سے بڑا ڈیٹا بیس بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سماجی تنظیموں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہمیں خوف ہے کہ یہ کمزور طبقات کےخلاف استعمال کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت میں یہ خدشہ اور بڑھ گیا ہے کہ یہ سافٹ ویر ملک میں بسنے والے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۲۰۲۰ میں حکومت نے ین سی آر بی (نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو) کی سربراہی میں (چہرہ شناختی نظام) نیشنل آٹومیٹڈ فیشل سسٹم کے منصوبے کو منظوری دے دی ہے۔ اس نظام کا اصل مقصد ویڈیوز اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے چہروں کی شناخت کرنا یعنی اس کے بائیو میٹرکس نکالناہے تاکہ موجودہ ڈیٹا بیس میں موجود تمام تصاویر کے ساتھ اس کی مماثلت کی جاسکے ۔
دنیا بھر میں اس نظام نے بڑی تباہی مچائی ہے اسی نظام کے تحت لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کی شناخت کی جاتی ہے ان پر مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی نے بے قصور لوگوں کی گرفتاریوں میں بڑی مدد کی ہے ، اسی چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کے ذریعہ عوام کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کی جاتی ہے، ان کی نگرانی کی جاتی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی احتجاج ہوتا ہے تو اس پر بھی اسی چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کااستعمال کرکے اسے ختم کیا جاتا ہے یعنی اس ٹیکنالوجی نے احتجاج کو کچلنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مختلف ممالک میں اس کا بے دریغ سے استعمال ہو رہا ہے۔ چین سارے ملک میں اس نظام کو نافذ کر چکا ہے۔ ہانگ کانگ کے احتجاج میں اس کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ جبکہ اس نظام کا استعمال سان فرانسسکو اور بوسٹن سمیت ۱۳ امریکی شہروں میں غیر قانونی ہے۔ یورپ میں ریگولیٹرز عوامی مقامات پر چہرے کی شناختی نظام کے اندھا دھند استعمال پر پابندی پر بھی غور کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارا ملک اس کے استعمال پر مُصر ہے۔ حقِ راز داری کے میدان میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال انسانی حقوق اور ڈیجیٹل حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اس کی درستگی پر بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ ایم آئی ٹی کے جینڈر شیڈز پروگرام نے اس بات کو قطعی طور پر ثابت کیا ہے کہ آئی بی ایم، مائیکرو سافٹ اور فیس پلس پلس کے تیار کردہ چہرے کی شناخت کے نظام کا مجموعی تناسب زیادہ صحیح ہے، لیکن وہ صنفوں اور نسلوں کو پہچاننے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ اس نظام کی مجموعی درستگی ۸۷ اعشاریہ ۹ فیصد سے ۹۳ اعشاریہ ۷ فیصد ہے۔ اس ک۸ صلاحیت مرد چہروں کی شناخت خواتین کے چہروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے، وہ مرد چہروں کو خواتین کے مقابلہ ۸ عشاریہ ۱ فیصد سے ۲۰ عشاریہ ۶ فیصد بہتر شناخت کرتا ہے جبکہ ہلکے جلد والوں کو چہرے سیاہ جلد والے چہروں سے ۱۱ عشاریہ ۸ فیصد سے ۱۹ عشاریہ ۲ فیصد بہتر پہچان سکتا ہے۔
ڈیجیٹل پرائیویسی اور حقوق رازداری کی وکالت کرنے والی تنظیم ’’انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن‘‘ میں بحیثیت ایسوسی ایٹ کونسل (نگرانی اور شفافیت) انوشکا جین نے ’’انبیاس دی نیوز‘‘ کو بتایا کہ ’’اس میدان میں کام کرنے والوں کی تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ چہرہ شناختی ٹیکنالوجی کا استعمال کبھی بھی انسانی حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتا، اس نظام کے ذریعہ ممکن نہیں ہے کہ عوام کے رازداری کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔ یہ بھی بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں ڈیٹا پرائیویسی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ مودی حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چہرہ شناختی نظام کی کھلی اجازت دیدی ہے۔
آپ کو یہ بات یاد ہوگی کہ ۲۰۱۹ میں ہونے والے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج ہوا تھا، ایک ایسا نیا شہریت قانون جو صرف مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے اسی قانون کے خلاف لاکھوں لوگوں نے احتجاج منظم کیا اور سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے اکثریتی طبقے نے منصوبہ بند اور منظم طریقہ سے ہنگامہ وفساد برپا کرایا تھا جس کے بعد اس احتجاج کو ختم کردیا گیا تھا۔ دلی میں ہونے والے فسادات اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ ان بدترین فسادات میں مسلم اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا، دلی پولیس نے مسلم اقلیتوں پر جھوٹے مقدمات درج کیے اور انہیں قید کیا گیا، پولیس کے اس رویہ پر عدالت نے انہیں پھٹکار بھی لگائی تھی۔ ان فسادات کے سلسلے میں دلی پولیس نے ۱۸۱۸ گرفتاریاں کیں جس میں ۱۰۰ سے زائد گرفتاریوں میں اس نے اسی چہرہ شناختی سافٹ ویر کا استعمال کیا۔ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے دلی کے تاریخی لال قلعے پر احتجاج منظم کیا تھا، اس موقع پر بھی فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس احتجاج کو بھی ختم کر دیا جائے۔ یہاں بھی پولیس نے احتجاج میں حصہ لینے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے اسی چہرہ شناختی سافٹ ویر کا استعمال کیا تھا اور ۲۰۰ سے زائد مظاہرین کوگرفتار کرنے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ چہرہ شناختی کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔
ٹیکنالوجی سے متعلق عالمی تحقیقاتی رپورٹس اور دستاویزی فلموں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس سافٹ ویر سے اکثر اقلیتوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہی ان حملوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں یا وہ گروپس جو حکومت کے غلط کاموں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ این سی آر بی کی جانب سے ۲۰۱۹ میں کچھ تجاویز جاری کی گئی تھیں جو ۱۷۲ صفحات پر مشتمل تھیں، اس درخواست میں ( جسے اب وہ ویب سائٹ سے نکال دیا گیا ہے لیکن اسے اب بھی کیشے میں دیکھا جاسکتا ہے) نظام کا اصل مقصد بیان تھا اور اس کی مطلوبہ وضاحتیں اس میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی تھیں ۔’’اس نظام کا مقصد کسی مشتبہ شخص یا مجرم کی شناخت کرنا اس کی شناخت کے لیے موجود ڈیٹا بیس جو پاسپورٹ اتھاریٹی، کرائم اینڈ کریمنل ٹریکنگ نیٹ ورک اور اس کا نظام، انٹر آپریبل کریمنل جسٹس سسٹم اور جیل اتھاریٹی، وزارت برائے خواتین اور بچوں کی ترقی، ریاست یا قومی خودکار فنگر پرنٹ شناختی نظام یا کوئی بھی تصویری ڈیٹا بیس جو پولیس محکمہ یا کسی اور ادارے یا فرد کے پاس ہو اس کے ساتھ اس تصویر کی مشابہت کرنا تھا۔ مختلف مقامات پر تعینات سی سی ٹی وی سے حاصل شدہ ویڈیوز، ذاتی یا دیگر عوامی تنظیموں سے موصول ہونے والی ویڈیوز کے ساتھ مشتبہ مجرم کے چہرے کی شناخت کرنا‘‘۔ یہ وہ تجاویز تھیں جسے این سی آر بی نے ’’قومی خود کار چہرہ شناختی نظام‘‘ کو خریدنے کے لیے دی تھیں۔
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کی جانب سے قانونی کارروائی کے جواب میں ان تجاویز کی اصل درخواست کو ہٹا دیا گیا اور اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بعد کی تجاویز میں سی سی ٹی وی ویڈیوز سے حاصل ہونے والی تصاویر کے استعمال کو اس میں شامل نہیں کیا گیا اور اس شق کو ہٹا دیا گیا۔ تاہم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے مطابق ان تجاویز میں الفاظ بدل کر اس بات کی گنجائش کو برقرار رکھا گیا ہے تاکہ وہ ویڈیو فوٹیج کا استعمال کر سکیں۔ این سی آر بی کا اس نظام کا استعمال نہ کرنے کی بات کرنا مضحکہ خیز نظر آتا ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف مظالم کیے ہیں اور فرقہ وارانہ منافرت کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے جہاں پولیس خود فسادیوں کی صف میں کھڑی نظر آتی ہے۔ تلنگانہ پولیس نے TSCOP کے نام سے ایک ایپ تیار کیا ہے جو ہر پولیس اہلکار کے پاس موجود ہے اور اس ایپ کو مختلف ڈیٹا بیس سے مربوط کردیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر عوام اور ڈیجیٹل حقوق کے جہد کار ’’چہرہ شناختی کے نظام‘‘ پر مکمل پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن انڈیا کی انوشکا جین نے ’’انبیاس دی نیوز‘‘ کو بتایا کہ اگرچہ تنظیم چہرے کی شناخت کے نظام پر مکمل پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن وہ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ حکومت اس مطالبہ کو مان لے اور پوری طرح سے پابندی لگا دے البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس پر کچھ ریگولیٹری لگائی جائے۔ اس نظام کا بذات خود خراب ہونا نظر نہیں آتا لیکن ہمیں یہ خوف لاحق ہے کہ اس کا استعمال کہیں غلط ہاتھوں میں نہ چلا جائے، ہمیں اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے لیکن اس کے غلط استعمال سے خطرہ ہے۔
***
***
دنیا بھر میں اس نظام نے بڑی تباہی مچائی ہے اسی نظام کے تحت لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کی شناخت کی جاتی ہے ان پر مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی نے بے قصور لوگوں کی گرفتاریوں میں بڑی مدد کی ہے ، اسی چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کے ذریعہ عوام کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کی جاتی ہے،
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021