’پی یم کیرس‘ کے ہوتے ہوئے آکسیجن کی قلت کیوں ہے؟
ایک فنڈ جو حکومت کا ملکیتی ہے لیکن آرٹی آئی کے دائرہ سے باہر ہے
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
وزیر اعظم مودی نے ایک ریلیف فنڈ کا اعلان کیا جیسے پی ایم کیرس سے جانا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام (پرائم منسٹرس اسسٹنس اینڈ ریلیف ان ایمرجنسی سچویشنس فنڈ) یعنی ایسا فنڈ جو ہنگامی صورتحال سے دوچار شہریوں کی مدد کر سکے، ان کا تعاون کر سکے انہیں ریلیف پہنچا سکے۔ اس فنڈ کا اعلان اس وقت کیا گیا جب کہ ابھی ملک میں تالا بندی کو محض چار دن ہی گزرے ہوں گے کہ ہمارے ملک کہ مکھیا نے اس فنڈ میں لوگوں کو پیسے جمع کروانے کی ترغیب دی۔ اس اعلان کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ کوویڈ-۱۹ نے ملک میں ایک مرتبہ تباہی مچانے کے بعد دوسری مرتبہ ہمارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس وبا کی شدت پچھلے سال سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ اس کی تباہی بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہو رہی ہے۔
ایسے موقع پر ہمیں یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ اس فنڈ کا جس میں لوگوں کو پیسے جمع کروانے کی ہمارے مکھیا نے ترغیب دلائی تھی اور پیسے جمع کرانے والوں کو بہت ساری مراعات بھی دینے کا وعدہ بھی کیا تھا اس فنڈ کا کیا ہوا؟ اور اس کے تحت جو رقم جمع ہوئی تھی آخر وہ کہاں چلی گئی؟ کتنی رقم اس فنڈ میں جمع ہوئی اور وبا سے لڑنے میں کتنی رقم خرچ کی گئی؟
پی ایم کیرس کی ویب سائٹ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک خیراتی ٹرسٹ ہے۔ پی ایم کیرس فنڈ کو پبلک چیرٹیبل ٹرسٹ کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا ہے جو ۱۹۰۸ رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ اس کے ٹرسٹی نریندر مودی ہیں ان کے علاوہ وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کو (فینانس) اس کا رکن بنایا گیا ہے۔ بطور ٹرسٹی وزیر اعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی تین افراد کو رکن کی حیثیت سے نامزد کر سکتے ہیں۔ جو تحقیق، صحت، سائنس، سماجی خدمات، قانون، عوامی انتظامیہ اور انسانی خدمت کے شعبوں کے نامور افراد ہوں گے۔ اس فنڈ میں کوئی بھی فرد یا تنظیم رضاکارانہ طور پر رقم جمع کراسکتی ہے اسے سرکاری بجٹ میں سے کوئی مدد حاصل نہیں ہو گی جو صحت عامہ کی کسی بھی ہنگامی صورتحال یا آفات پر ہر طرح کی امداد کرتا ہے جس میں شعبہ صحت کی دیکھ بھال، دوا سازی یا اس کو ترقی دینا، دیگر بنیادی سہولیات (انفراسٹرکچر) اور تحقیق وغیرہ کی معاونت شامل ہیں۔ ان تمام مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اس فنڈ کا استعمال کیا جائے گا۔ پی ایم کیرس فنڈ کو دی جانے والی اعانت کو جی ۸۰ فوائد سو فیصد انکم ٹیکس ایکٹ ۱۹۶۱ کے تحت چھوٹ دی گئی ہے اور اس فنڈ کو دیے جانے والے عطیات کو کمپنیز ایکٹ ۲۰۱۳ کے تحت کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی یس آر) کے طور پر مانا جائے گا۔
پی ایم کیرس فنڈ میں جمع ہونے والی رقم کو (یف سی آر اے) فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ یعنی غیر ملکی عطیات کو بھی چھوٹ مل گئی ہے اور غیر ملکی عطیات وصول کرنے کے لیے ایک علیحدہ اکاؤنٹ کھول دیا گیا ہے۔ جس کے تحت پی یم کیرس فنڈ کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ بیرونی ممالک میں مقیم افراد یا تنظیموں سے عطیات اور چندہ وصول کر سکیں۔ ۲۷ تا ۳۱ مارچ ۲۰۲۰ یعنی محض پانچ دنوں کے دوران اس فنڈ میں تقریباً تین ہزار ایک سو کروڑ کی خطیر رقم جمع ہوگئی۔ یہ رہیں اس کی تفصیلات۔ اب اس کے اخراجات اور دیگر معلومات جاننے کی کوشش کریں گے۔
ہمارے وزیر اعظم بار بار اپنی تقاریر اور انتخابی ریلیوں میں اپنی من کی بات کہتے رہتے ہیں کہ میری حکومت میں شفافیت کو ترجیح حاصل ہے۔ یومِ آزادی کی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’’شفافیت کے ساتھ تبدیلی و ترقی‘‘ پھر مہاراشٹر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے ملائی بچولیے کھاتے تھے اب وہ ختم ہو گیا ہے چوری اور لوٹ کی دکانوں کو تالے لگ گئے ہیں وہ لوگ (کانگریس) جتنا چاہیں زور زور سے جھوٹ بولیں لیکن یہ چوکی دار صفائی بند نہیں کرے گا‘‘۔ یعنی وہ ہمیشہ شفافیت کی بات کرتے رہتے ہیں لیکن پی یم کیرس فنڈ بننے اور اس میں محض چار دن میں حیرت انگیز طور پر غیر معمولی رقم جمع ہونے پر اس کی شفافیت پر سوالات اٹھنے لگے۔ اس موقع پر کانگریس نے پی یم کیرس فنڈ بنانے پر سوال اٹھایا۔ اس نے کہا کہ جب ملک میں پی یم قومی ریلیف فنڈ (پی یم ین آر یف) موجود ہے تو پھر اس سرکار کو یہ ٹرسٹ بنانے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ پی یم ین آر یف میں ۲۰۱۹ کے اختتام تک اس میں تین ہزار آٹھ سو کروڑ روپوں کی خطیر رقم موجود تھی اس کی ساری تفصیلات ویب سائٹ پر دستیاب ہیں جبکہ پی ایم کیرس فنڈ سے متعلق ساری تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ جب یہ سوال اٹھا تو کہا گیا کہ اس کی آڈٹ ہو گی یعنی حساب کتاب کی ساری جانچ ہو گی اور معلومات فراہم کی جائیں گی۔ اس کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی اور وہ آزاد ہوگی اس کمیٹی میں خود وزیر اعظم بھی ہوں گے۔
سری ہرشا کندوکوری جو بنگلورو کے رہنے والے ہیں اور عظیم پریم جی یونیورسٹی میں قانون کے طالب علم ہیں انہوں نے یکم اپریل ۲۰۲۰ کو پی ایم کیرس فنڈ سے متعلق آرٹی آئی درخواست دائر کی جس میں انہوں نے پبلک انفارمیشن آفیسر سے کہا کہ وہ انہیں ٹرسٹ کی ساری تفصیلات فراہم کرے اس سے متعلق دستاویزات، اسے بنانے اور اسے چلانے کی معلومات، سرکاری حکمنامہ، اعلامیہ اور جمع و خرچ کی تفصیلات بھی فراہم کرے۔ ۲۹ مئی ۲۰۲۰ کو جواب میں یہ کہا گیا کہ ان سوالات سے متعلق معلومات پی ایم کیرس کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ان کے سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا اور معلومات نہیں دی گئیں اور کہا کہ پی ایم کیرس فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ ۲۰۰۵ کے سیکشن ۲ (ایچ) کے دائرے میں نہیں آتا ہے کیوں کہ یہ عوامی فنڈ بااختیار نہیں ہے۔
کوویڈ کی دوسری ہلاکت خیز لہر نے ملک کی متعدد ریاستوں میں آکسیجن کی شدید قلت پیدا کر دی ہے، تقریباً ہر ریاست میں اس کی کمی ہے۔ دلی جو ملک کا صدر مقام بھی ہے اور ریاست بھی اس میں بھی بحران شدید ہے، لوگ آکسیجن کی قلت سے دم توڑ رہے ہیں اسپتال مریضوں کو داخل کرنے سے انکار کر رہے ہیں کیوں کہ ان پاس آکسیجن کی قلت ہے۔ حقیقت میں اس دوسری لہر نے ملک کے شعبہ صحت کی کارکردگی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور ساری دنیا میں ہماری بے بسی کو اشکار کر دیا ہے۔ بین الاقوامی جرائد نے مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ملک میں کورونا سے تباہی ہو رہی ہے اور وہ ہیں کہ انتخابی ریالیوں میں مصروف ہیں۔ اس لہر کے آنے کے بعد پھر یہ بات زور وشور سے اٹھنے لگی کہ آخر پی یم کیرس فنڈ میں جمع رقم کا کیا ہوا؟ جب یہ سوال اٹھا تو پھر وہی گندی سیاست کا کھیل شروع ہو گیا۔ بی جے پی کے قائدین نے ریاستوں پر الزامات لگانے شروع کر دیے کہ مرکز نے تو ریاستوں کو درکار رقم دے دی تھی لیکن ریاستوں نے اس رقم کیا کِیا معلوم نہیں۔ مثال کے طور پر آسام کے وزیر ہیمنتا بسواس سرما نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ارویند کیجروال کی کوویڈ بحران کے بعد آسام میں آٹھ آکسیجن پلانٹ لگائے گئے ہیں پانچ مزید لگائے جا رہے ہیں۔ مودی نے دلی کو بھی آٹھ آکسیجن پلانٹ لگانے کے لیے پی یم کیرس سے رقم دی تھی لیکن آپ کی سرکار ان آٹھ میں سے ایک ہی پلانٹ لگا پائی ہے‘‘۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے امت مالویہ نے کہا کہ’’دلی میں آکسیجن کی کمی کے لیے دلی سرکار ذمہ دار ہے مرکزی حکومت نے انہیں آٹھ پلانٹ لگانے کے لیے پیسے دیے تھے لیکن ابھی تک ایک ہی کارگرد ہو پایا ہے کیوں؟ یہ بات دلی ہائی کورٹ نے بھی پوچھی ہے لیکن دلی سرکار کے پاس کوئی جواب نہیں ہے‘‘۔ یعنی ان کا دعویٰ یہ ہے کہ آکسیجن پلانٹ لگانے کے لیے ریاستوں کو پی یم کیرس فنڈ سے پیسہ دیا گیا لیکن ریاستی حکومتیں ہی نکمی ہیں انہوں نے ہی پلانٹس نہیں لگائے ریاستوں ہی نے اس رقم کا صحت شعبہ کو بہتر بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ آخر اس کی حقیقت کیا ہے؟ ۲۱ اکٹوبر ۲۰۲۰ کو مرکزی حکومت نے ۱۴ ریاستوں میں ۱۶۲ پی یس اے آکسیجن پلانٹس (پریشر سوئنگ ابزاربشن) لگانے کے لیے تقریباً ۲۰۲ کروڑ روپے مختص کیے تھے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پی یم کیرس فنڈ میں ماہ مارچ تک تین ہزار ایک سو کروڑ روپے جمع ہوچکے تھے پھر آکسیجن پلانٹس لگانے کے لیے آٹھ ماہ تک کا انتظار کیوں کیا گیا؟ کیوں پہلے ہی مرحلے میں آکسیجن پلانٹس کے اعلامیہ جاری نہیں کیے گئے؟ پھر اعلامیہ کے دو ماہ بعد یعنی ڈسمبر میں جا کر یہ آخری مراحل میں پہنچا اور اداروں کو کہا گیا کہ وہ ۴۵ دن میں ان کی تعمیر مکمل کر دیں لیکن تاخیر کی کیا وجہ بنی معلوم نہیں شاید ہمارے مکھیا اور ان کے حواری انتخابات کی تیاریوں میں مشغول رہے ہوں گے انہیں اس سے کہاں فرصت ملتی ہے۔
ان ۱۶۲ پلانٹس میں سے سب سے زیادہ اتر پردیش میں ۱۴، مہاراشٹر میں ۱۰، مدھیہ پردیش میں ۸، ہماچل پردیش میں ۷ اور اتر اکھنڈ میں ۷ لگنے تھے۔ اگر یہ پلانٹس اپنے وقت پر لگ جاتے تو شائد بحران اتنا شدید نہ ہوتا اور شعبہ صحت کی صورت حال اتنی بدتر نہ ہوتی اور نہ دنیا بھر میں ملک کو اتنی ہزیمت اٹھانی پڑتی۔ جھولی دنیا کے سامنے پھیلانا نہ پڑتی۔ بی جے پی قائدین غیر بی جے پی ریاستوں پر تو الزام لگاتے ہیں کہ وہ صرف ایک ایک ہی پلانٹ لگا پائے تو پھر اتر پردیش جہاں سب سے زیادہ پلانٹس لگنے تھے وہاں بھی صرف ایک ہی پلانٹ کیوں لگ پایا؟ وزارت صحت کے مطابق ملک میں اب تک صرف ۳۳ پلانٹس ہی لگ پائے ہیں اور ان میں بھی کتنے کام کر رہے ہیں اس کی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔پی یم کیرس فنڈ سے ہی پچھلے سال دو ہزار تین سو کروڑ روپے کی لاگت سے وینٹیلیٹرس خریدنا طے کیا گیا تھا جو ملک میں بننے تھے۔ ۵۸ ہزار وینٹیلیٹرس کا پیسہ مختص کیا گیا لیکن بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق صرف ۳۰ ہزار ہی خرید پائے اور ان میں سے بھی کئی ناقص بلکہ خراب نکلے چنانچہ اس وقت بھی وینٹیلیٹر بستروں کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔کیا واقعی ریاستی حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں؟ ان پلانٹس کو لگانے کی ذمہ داری تو سنٹرل میڈیکل سروسز سوسائٹی جو وزارت صحت کے تحت کام کرنے والا ایک ادارہ ہے اس کی ہے۔ اعلامیہ جاری کرنا، بولیوں کی جانچ پڑتال، بولی دہندگان کی اہلیت کی جانچ، قیمتوں کا تعین، اداروں کا انتخاب کرنے اور منتخب شدہ اداروں کو سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار اس کی تھی پھر کیسے ریاستوں پر الزام لگایا جا سکتا ہے۔ منتخب شدہ ادارہ یا دکاندار ضلعی اسپتالوں میں آکسیجن پلانٹس کی تنصیب کے ذمہ دار ہیں۔ ریاستی حکومتوں کا کردار بس اتنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ضلعی اسپتالوں میں پلانٹ کے لیے ضروری تعمیری اور بجلی کی فراہمی کرائے۔ یقینی طور پر تاخیر کی وجہ بڑی حد تک مرکزی حکومت ہے کیوں اس نے آٹھ ماہ تک انتظار کیا جبکہ یہ عمل وہ پہلے بھی شروع کر سکتی تھی۔ یہ تو مرکزی حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن ریاستوں کو بھی یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنے طور پر آکسیجن پلانٹس کی تنصیب کر سکتی تھیں اس کے لیے انہیں مرکزی حکومت سے کسی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں تھی پھر کیوں ان ریاستوں نے لاپروائی کی؟ میرے خیال میں صحت کے اس بحران میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ وہ محض ایک دوسرے پر الزام لگا کر اپنا دامن نہیں جھاڑ سکتیں۔
***
قابل غور ہے کہ پی یم کیرس فنڈ میں ماہ مارچ تک تین ہزار ایک سو کروڑ روپے جمع ہوچکے تھے پھر آکسیجن پلانٹس لگانے کے لیے آٹھ ماہ تک کا انتظار کیوں کیا گیا؟ کیوں پہلے ہی مرحلے میں آکسیجن پلانٹس کے اعلامیہ جاری نہیں کیے گئے؟
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021