پیغام شہادت حضرت حسین ؓ
’’ہاں یہ سچ ہے کہ رونے والے اس پر بہت روئے، ماتم کرنے والوں نے ماتم میں کمی نہ کی ، آہ و نالہ کی صداوں نے ہمیشہ ہنگامہ الم کی مجلس طرازیاں کیں، اور یہ سب کچھ اب تک اتنا ہوچکا ہے جتنا آج تک شاید ہی دنیا کے کسی حادثہ غم کو نصیب ہوا ہو۔ تاہم تم یقین کرو کہ بایں ہمہ اس حادثہ عظیمہ کی دعوت اشک و حسرت اب تک ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی دعوت درد کے اندر جو حقیقی طلب تھی، وہ اب تک لبیک کے سچے استقبال سے محروم ہے۔ تیرہ صدیاں مع اپنے دوران محرم و عشرہ ماتم کے اس پر گزر چکی ہیں ۔
لیکن اب تک خاک کربلا کے وہ ذراتِ خوں آشام جن کو آج بھی اگر نچوڑا جائے تو خون شہادت کے مقدس قطرے اس سے ٹپک سکتے ہیں، بدستور آنسووں کے لیے پکار رہے ہیں، خونفشانیوں کے لیے داعی ہیں، آہ و فغاں کے لیے تشنہ ہیں۔ اضطراب و التہاب کے لیے بے قرار ہیں اور فضا ریگزار کرب و بلا کا ایک ایک گوشہ اب تک دیدہ ہائے اشک افشاں، جگر ہائے سوختہ دلہائے دو نیم، اور زبان ہائے ماتم سرا کے لیے اسی طرح چشم براہ ہے، جس طرح 61ھ کی ایک آتش خیز دوپہر میں خون کی ندیوں کی روانی تڑپتی ہوئی لاشوں کے ہنگامہ احتضار اور ظلم و مظلومی ، جرح و مجروحی ،قتل ومقتولی کے ہنگامہ الیم کے اندر سے نالہ ساز طلب اور فغاں فرمائے دعوت تھا:
شدیم خاک و لیکن ببوئے تربت ما
تواں شناخت کزین خاک مردی خیزد
یہ دعوت، یہ پکار، یہ طلب، یہ ’’ہل من مجیب‘‘ فی الحقیقت ان آنسووں کے لیے ہے جو صرف آنکھوں ہی سے نہیں بلکہ دل سے بہیں، وہ ان آہوں کا دھواں مانگتی ہے جن کی لٹیں صرف منھ ہی سے نہیں بلکہ اعماق قلب سے اٹھیں، وہ صرف ہاتھوں ہی کے ماتم کے لیے نہیں پکارتی بلکہ دل کے ماتم کی محض ایک صدائے حقیقت کے لیے تشنہ ہے۔ اگر تمہارے پاس اس کے لیے آنکھوں کا آنسو نہ ہو تو اسے کوئی شکایت نہیں لیکن آہ تمہاری غفلت، اگر تمہارے پہلووں میں کوئی زخم نہ ہو جس سے پانی کی جگہ خون بہے! اگر تمہاری زبانوں کو درد کی چیخ نہیں آتی تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن آہ یہ کیا ہے کہ تمہارے دلوں کے اندر حقیقت شناسی کی ایک ٹیس، عبرت کی ایک تپک، بصیرت کی ایک تڑپ احساس صحیح و حق کا ایک اضطراب بھی نہیں ہے؟ حالانکہ انسان کی ساری کائنات حیات صرف دل ہی کی زندگی سے ہے۔
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
٭٭٭
حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ تاریخ اسلام میں ہمیشہ خون آلود حرفوں میں لکھا گیا اور اشکبار آنکھوں سے پڑھا گیا ہے لیکن اس درد انگیز واقعہ اور ماتم خیز حادثہ کے اندر شریعت اسلامیہ کے بے شمار بصیرتیں مضمر تھیں چاہیے کہ حضرت امام حسینؓ کے واقعہ شہادت کے اندر عزم و استقلال، صبر و ثبات، استبداد شکنی، قیام جمہوریت ، امر بالمعروف، و نہی عن المنکر کی جو عظیم الشان بصیرتیں موجود ہیں ان کی یاد کو ہر وقت تازہ رکھیں اور کم از کم سال میں ایک بار اس مذہبی قربانی کی روح کو تمام قوم میں جاری و ساری کردیں۔
لیکن ان بصیرتوں کے علاوہ حضرت امام حسینؓ کی ذات میں ایک اور عظیم الشان بصیرت بھی موجود ہے جس کا سلسلہ مذہب کی ابتدائی تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور اس کی آخری کڑی اسلام کی تکمیل سے جاکر مل جاتی ہے۔
دنیا کی مذہبی تاریخ کی ابتدا عجیب بے کسی کی حالت میں ہوئی، ہم نے دنیا کے سخت سے سخت معرکوں میں باپ کو بیٹے کو شریک، بھائی کو بھائی کا حامی، بی بی کو شوہر کا مددگار پایا ہے لیکن صرف مذہب ہی کا روحانی عالم ایک ایسا عالم ہے جہاں باپ کو بیٹے نے ، بھائی کو بھائی نے، شوہر کو بی بی نے چھوڑدیا ہے بلکہ ان کی مصیبتوں میں اور بھی اضافہ کیا ہے، یہی سبب ہے کہ خاندان نبوت ہمیشہ اعزہ و اقارب کی اعانت سے محروم رہا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ایک مدت تک شب و روز اپنی قوم کو دعوت توحید دی لیکن اس پیغمبرانہ آواز کی صدائے باز گشت صرف ان کی قوم ہی کے در و دیوار سے ٹکرا کر ناکام واپس نہیں آئی، بلکہ خود ان کے گھر کے در و دیوار نے بھی اس کوٹھوکر لگائی اور خاندان نبوت کے چشم و چراغ یعنی ان کے بیٹے نے بھی اس نور کو قبول نہ کیا۔
حضرت لوط علیہ السلام کے تمام خاندان نے اگر چہ ان کا ساتھ دیا لیکن خودان کی بیوی ان سے علیحدہ ہوکر تمام قوم کے ساتھ عذاب الہی میں شامل ہوگئی۔
لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے خاندان نبوت میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہوا۔ سب سے پہلے حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اس جہاد روحانی کی طرف قدم بڑھایا اور اپنے شوہر کے ساتھ اپنے لخت جگر کو ایک دادی غیر ذی زرع، میں ڈال دیا جہاں کئی سو میل تک آب و گیاہ کا پتہ نہ تھا یہ اسی سخت امتحان کی پہلی منزل تھی جس کے لیے خدا وند تعالیٰ نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کوانتخاب کیا تھا۔ چنانچہ جب اس آخری امتحان کا وقت آیا تو انہوں نے باپ کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔
حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ بھی ان کے خاندان کی اعانت و رفاقت شریک رہی لیکن اسلام کے زمانہ تک خدا کی راہ میں جو قربانیاں ہوئی تھیں وہ محض شخصی حیثیت رکھتی تھیں۔ یعنی انبیا نے شخصی طور پر خدا کی ذات پر اپنی اولاد کو یا اپنے آپ کو قربان کردیا تھا۔
جہاد کی یہ ابتدا تھی، مگر اس کی تکمیل شریعت اسلام پر موقوف تھی چنانچہ اسلام نے جس طرح عقاید و عبادات اور معاش و معاد میں تمام قدیم مذاہب کی تکمیل کی۔ اسی طرح جہاد کی حقیقت کو بھی مکمل اور واضح کردیا۔ اب تک کسی پیغمبر کے خاندان نے جہاد میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا ۔ شخصی طور پر بھی جو قربانیاں کی گئیں۔ وہ راہ ہی میں روک لی گئیں۔ حضرت ابراہیم نے اپنے لخت جگر کو خدا کی نذر کرنا چاہا لیکن اس کا موقع ہی نہ آیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی کی طرف بڑھے لیکن بچالیے گئے۔ آج تک تمام خاندان نبوت نے متفقہ طور پر اس میں شرکت نہیں کی تھی نہ اس کی کوئی نظیر تمام سلسلہ انبیا میں نظر آتی ہے کہ صرف بھائی، صرف بیٹا، صرف بیوی ہی نے مقصد نبوت میں ساتھ نہ دیا بلکہ بلا تمیز خاندان نبوت کے اکثر اعضا و ارکان راہ حق میں قربان ہوئے ہوں۔ اس لیے جب اسوہ ابراہیمی کے زندہ کرنے کا ٹھیک وقت آگیا تو خاندان نبوت کے مردو زن، بال بچے، غرض ہر فرد نے اس میں حصہ لیا اور جن قربانیوں کے پاک خون سے زمین کی آغوش اب تک خالی ان سے کربلا کا میدان رنگ گیا۔
پس حضرت حسینؓ کا واقعہ کوئی شخصی واقعہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف اسلام کی تاریخ ہی سے نہیں بلکہ اسلام کی اصل حقیقت سے ہے۔ یعنی وہ حقیقت جس کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات سے ظہور ہوا تھا، اور وہ بتدریج ترقی کرتی ہوئی حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات کو پہنچ کر گم ہوگئی تھی، اس کو حضرت حسین ؓنے اپنی سرفروشی سے مکمل کردیا۔ ‘‘
(ماخوذ شہادت حسین از مولانا ابوالکلام آزادؒ)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022