پیغام شہادتِ حضرت حسینؓ

خلافت کے نبوی منہج کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا ایک لازوال سبق

ڈاکٹرساجد عباسی، حیدرآباد

 

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دلخراش واقعہ 61 ہجری 10محرم کو پیش آیا جو اسلامی تاریخ کا بہت ہی غمناک باب ہے۔ سنتِ رسول ﷺکے مطابق 10محرم یعنی یومِ عاشورہ کے دن روزہ رکھا جاتا ہے اس لیے کہ اس روز موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی۔ لیکن بعد میں مسلمانوں میں یہ دن اس لحاظ سے مشہور ہے کہ اس روز شہادتِ حسینؓ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کو ہم اس لیے بیان نہ کریں کہ محض غم تازہ ہو بلکہ ان واقعات سے ہم سبق حاصل کریں۔ سیدنا حسینؓ کے نزدیک جان سے زیادہ وہ مقصد عزیز تھا جس کی خاطر آپ ؓنے نہ صرف اپنی جان دی بلکہ اپنے کنبے کے افراد کی قربانی بھی پیش کی۔ پہلے ہم اس واقعہ کے اسباب و مقاصد کو سمجھیں اور پھر اس کے پیغام پر غور کریں۔ تاریخی اسباب: اعلیٰ مقصد کے لیے جان قربان کرنا اسلامی تاریخ کا مستقل باب رہا ہے۔ قرون اولیٰ میں شہادتوں کے تین دور ملتے ہیں۔ ایک وہ دور ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا جس میں اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لیے غزوات میں جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے۔ شہداء کا دوسرا دور خلفائے راشدین کا دور ہے جس میں کئی فتنے رونما ہوئے اور ان فتنوں کے سدباب کے لیے شہادتیں پیش کی گئیں۔ حضرتِ ابو بکرؓکے دور میں فتنہ ارتداد اور جھوٹی نبوت کا فتنہ رونما ہوا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بہت سختی کے ساتھ ان فتنوں کو ختم کیا ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم انقلاب ایک خوفناک ردِ انقلاب counter revolution کا شکا ر ہو جاتا۔ حضرت عمرؓکا دور اسلامی فتوحات کا ایک درخشاں دور تھا جس میں عراق، مصر، لیبیا، بلادِشام (بشمول بیت المقدس)، ایران، مشرقی اناطولیہ اور جنوبی آرمینیا مفتوح ہوئے۔ حضرت عمر کی شہادت کا واقعہ اس لیے پیش آیا کہ ساسانی (ایرانی) سلطنت کی فتوحات سے دشمنوں کے دلوں میں حضرت عمرؓکے خلاف شدید انتقامی جذبہ پیدا ہوا تھا چنانچہ ایک سازش کے تحت آپؓ کو شہید کیا گیا۔ حضرت عثمانؓ کےآخری دور میں اندرونی خلفشار کا آغاز ہوا جس کی بنیاد بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان کی کشمکش تھی جس کو یہود سازش کے تحت ہوا دے رہے تھے۔ اس طرح باغیوں کا ایک گروہ آپؓ کی جان کے درپے ہوگیا اور حضرت عثمانؓ بڑی بے رحمی سے شہید کردیے گئے۔حضرت علیؓ کا سارا دورِخلافت پر آشوب رہا اور آغاز ہی سے قاتلانِ عثمانؓ کے بدلہ لینے کے اصرار سے شروع ہوا اور فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا جس میں مسلمانوں کے درمیان جنگ جمل و صفین اور نہروان برپا ہوئیں جس میں بالترتیب 10ہزار، 75ہزار اور 4 ہزار مسلمان مارے گئے۔ اور بالآخر خوارج کے گروہ نے حضرتِ علی کرم اللہ وجہ کو شہید کردیا۔ اور جو صحابہ ان جنگوں میں شہید ہوئے ہم ان کا یکساں احترام کرتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہونے کا پروانہ اپنے کلام میں نازل کرچکا ہے۔ اس تاریخی جائزہ میں ہمارا یہ کام نہیں ہےکہ ہم کسی پر کوئی حکم لگائیں ۔اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات کو خوب جانتا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ تمام صحابہ نے نیک نیتی کے ساتھ ان جنگوں میں حصہ لیا تھا۔اس کے بعد 6 ماہ کی مختصر مدت کے لیے حضرتِ حسنؓ خلیفہ منتخب ہوئے جبکہ حضرت علیؓ نے ان کو نامزد نہیں کیا تھا۔لیکن حضرت معاویہ خلافت کے دعوے دار بن کر ان کے خلاف لشکر لے کر آئے۔ حضرت حسن ؓنے سوچا کہ ہزاروں مسلمانوں کا خون پچھلی کئی جنگوں میں رائیگاں بہ چکا ہے اس لیےوہ جنگ کے بجائے حضرت معاویہؓ کےمقابلے میں دستبردار ہوگئے جس سے خلافت حضرت معاویہؓ کی طرف منتقل ہو گئی۔ چونکہ یہ خلافت شورائیت سے نہیں بلکہ قوت کے ذریعے قائم ہوئی تھی اس لیے ان کی خلافت کو خلافتِ راشدہ میں شامل نہیں کیاجاتا اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشین گوئی کے مطابق خلافت راشدہ کا دور 30 سال تک ہی محدود رہا جس میں حضرتِ حسنؓ کی خلافت کا مختصر دور بھی شامل ہے۔حضرت امیر معاویہؓ کا 20 سالہ دور اندرونی استحکام کا دور تھا جس میں ہر طرح کے ممکنہ خلفشار پر بزور قوت قابو پالیا گیا۔ ان کا اندازِ حکومت، طرزِ خلافت سے دور اور اندازِ سلطانی سے قریب ہوتا گیا۔ اپنے دورِ حکومت ہی میں انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا جس پر جلیل القدر صحابہ کے فرزندان (عبداللہ ابن عباسؓ، عبداللہ ابن عمرؓ، عبداللہ ابن زبیرؓ، عبدالرحمٰنؓ بن ابی بکر) نے شدید اختلاف کیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓنے فرمایا: ’’یہ سنت ہرقل و کسریٰ کی ہے اس سے امت کی کوئی بھلائی مقصود نہیں بلکہ معاویہ خلافت کو ہر قل کی شہنشاہی بنانا چاہتے ہیں کہ ایک ہرقل کے بعد دوسرا ہرقل جانشین ہو۔‘‘ حضرت امیرِ معاویہؓ کے انتقال کے بعد سب نے یزید بن معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی سوائے حضرت حسین بن علیؓ اور عبداللہ ابن زبیرؓکے جو مدینے سے مکہ مکرمہ منقتل ہوچکے تھے۔اس طرح ایک زہد و تقویٰ اور شورائیت پر مبنی خلافت ایک مکمل ملوکیت میں تبدیل ہوگئی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی دوراندیش نگاہیں آنے والی صدیوں کو دیکھ رہی تھیں جس میں اس صالح انقلاب کی جگہ جبر و استبداد کا دور آنے والا تھا۔ حضرتِ حسین ؓ کو قطعاً اپنی ذات کی فکر نہیں تھی اور خلافت سے ایک خوفناک ملوکیت کے استبدال سے آپ بے حد بے چین تھے۔ اس دوران اہل کوفہ سے خطوط کا سلسلہ شروع ہواجن میں حضرت حسینؓ کو دعوت دی گئی کہ کوفہ تشریف لائیں جہاں لوگوں کی کثیر تعداد ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار ہے۔کوفہ حضرت علیؓ کا دارالخلافة تھا اور یہیں پر ان کی شہادت ہوئی تھی۔حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ،حضرت حسینؓ کو روکتے رہے کہ کوفہ نہ جائیں اور حجاز ہی میں سکونت اختیار کریں اس لیے کہ اہل کوفہ ناقابلِ اعتبارہیں ۔ چنانچہ مسلم بن عقیل ؓجو حضرت حسین ؓکے چچا زاد بھائی تھے ان کو کوفہ کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ جب وہ وہاں پہونچے تو اس وقت 12 ہزار لوگوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ حضرت حسینؓ کے دست حق پرست پر بیعت کرنے کے لیے تیا رہیں ۔ جب حضرت حسینؓ کو اس کی اطلاع ملی تو حضرت حسینؓ نےکوچ کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے ساتھ اپنے کنبے کے افراد کو بھی ساتھ لیا جن کی تعداد 72 تھی ۔ جب آپ راستے ہی میں تھے اس وقت کوفہ میں آپؓ کے حامی یزید کے گورنرعبیداللہ ابن زیاد کے خوف سے حمایت سے دستبردار ہوگئے ۔ مسلم بن عقیل تنہا ہوگئے جن کو شہید کردیا گیا۔جب حضرت حسینؓ کربلا کے مقام پرپہونچے تو وہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جس کو واقعہ کربلا سے یاد کیا جاتا ہے۔شہادتوں کا یہ تیسرا سلسلہ ہےجو فتنہ ملوکیت کو ختم کرنے کے لیے شروع ہوا اور آج تک امتِ مسلمہ میں جاری و ساری ہے۔ آئیے اس مقصدپر ایک نگاہ ڈالیں جس کی خاطر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیارے نواسے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
مقصدِ شہادتِ حسین ؓ:
حضرتِ حسینؓ کے پیشِ نظر صرف یزید کی بادشاہت سے عدم اتفاق یا بغاوت نہیں تھا بلکہ نظامِ خلافت کو بچانا تھا جو 23 سالہ دور نبوت اور 30 سالہ دورِ خلافتِ راشدہ کا ثمرہ تھا۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ظلم و استبداد کے ایک تاریک دور کا آغاز ہوچکا ہے جس کو روکنے کے لیے ہر چیز داؤ پر لگائی جانی چاہیے۔ بعد کے واقعات نے اس اندیشہ کو صحیح ثابت کیا۔جس ظلم و ستم سے دنیا کو آزاد کرنے کے لیے اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی قائم کیا گیا تھا اس کی بنیادیں ختم ہونے والی تھیں۔ خلافت کی تمام خصوصیات کو جو شرفِ انسانیت کی غمّاز تھیں ان کو ملوکیت کی خباثتوں سے بدلا جارہا تھا۔ تاریخ کےاس المناک موڑ کو ایک حساس اور بصیرت افروز نگاہ ہی شدت سے محسوس کرسکتی تھی۔ حضرت حسینؓ چاہتے تھے کہ تاریخ کے اس دھارے کو موڑنے کا جو بھی موقعہ ہاتھ آئے تو اس کو اللہ کے بھروسے پر استعمال کرنا چاہیے۔ اسی لیے انہوں نے حجاز میں سکون سے رہنے کو ترجیح نہیں دی اور تبدیلی کے ہر امکان کو بروئے کار لانے کے لیے کمر بستہ ہوگئےتھے۔ لیکن یہ اللہ کی مشیت تھی کہ آنجنابؓ کو شہادت کے عظیم درجے سے سرفراز کیا جائے ۔ اس لیے حالات نے آپؓ کے ساتھ وفانہ کی اور اہل کوفیٰ نے ’الکوفي لا یوفي‘ کے مصداق آپؓ کو دھوکہ دیا اور اس طرح ایک یادگار شہادت کے اسباب فراہم ہوگئے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ ملوکیت بمقابلہ خلافت راشدہ اپنے اندر کتنے گھناؤنے مفسدات رکھتی ہے۔
1۔شورائیت کے مقابلے میں مطلق العنانی کا آغاز ہوا ۔تعمیری تنقید کے سارے راستے بند کردیے گئے۔مصلحین پر خوف کو مسلط کردیا گیا۔
2۔عدلیہ میں انصاف بھی اس استبداد کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ قاضی خریدے جانے لگے۔
3۔حکمران جوابدہی سے بے نیاز ہوگئے۔
4۔ بیت المال بادشاہ کی ذاتی ملکیت و تجوری بن گیا۔
5۔ امراء و حکام کا تقرر صالحیت و صلاحیت کے بجائے خوشامدی کی بنیاد پر ہونے لگا۔
6۔علماء ، خطیت و مصلحین پر نظر رکھی جانے لگی اور انکی بے باکی پر پہرے لگاکر اس کومجروح کردیا گیا۔
7۔جراءت مند مصلحین ، مفتیان و ائمہ کو قید و بند،اذیت اور قتل کی سزائیں دی جانے لگی۔
8۔ امر بالمعروف و نہی المنکر کا نظام رک گیا۔
9۔ دنیا سے ظلم کو مٹانے والے اپنے ہی شہریوں پر ظلم کرنے لگے۔
10۔ غیر مسلموں کےاندر دعو ت الی اللہ کے ذریعے دلوں کو فتح کرنے کے بجائے ان سے جزیہ وصول کرنا مسلم حکومت کا مقصد قرار پایا۔
یہ وہ خامیاں تھیں جو آج بھی ملوکیت کے نظام میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ان خرابیوں کو حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی بصیرت کی آنکھوں سے بہت دور صدیوں تک دیکھا تھا اورانہوں نے اس خوفناک تبدیلی کو روکنے کے لیے ایک بے مثال شہادت پیش کی۔
ہمارے لیے شہادتِ حسین ؓ میں یہ پیغام ہے کہ جہاں جس جگہ جو بھی بگاڑ دیکھیں اس کی اصلاح کے لیے تن من دھن کی بازی لگادیں۔ یہی منصبِ امّتِ مسلمہ ہےجس کے لیے ہم کو اللہ تعالیٰ نے ساری انسانیت کے لیے نکالا ہے۔یہ منصب ہے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا۔بگاڑ آغاز میں بہت حقیر اور کمتر نظر آتا ہے لیکن اس کو نظرانداز کردیا جائے تو یہ وقت کے ساتھ قابو سے باہر ہوجاتاہے۔

ہمارے لیے شہادتِ حسین ؓ میں یہ پیغام ہے کہ جہاں جس جگہ جو بھی بگاڑ دیکھیں اس کی اصلاح کے لیے تن من دھن کی بازی لگادیں۔ یہی منصبِ امّتِ مسلمہ ہےجس کے لیے ہم کو اللہ تعالیٰ نے ساری انسانیت کے لیے نکالا ہے۔یہ منصب ہے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا۔بگاڑ آغاز میں بہت حقیر اور کمتر نظر آتا ہے لیکن اس کو نظرانداز کردیا جائے تو یہ وقت کے ساتھ قابو سے باہر ہوجاتاہے۔