پیر کاملؐ۔عمیرہ احمد کا ایک اصلاحی ناول

ایک قادیانی لڑکی کی کہانی جو اپنے’جھوٹے پیر‘ کو چھوڑ کر ’اصلی پیر‘ کا دامن تھامتی ہے

احمد توصیف قُدس/ کشتواڑ، جموں وکشمیر

 

’’پیر کاملؐ ‘‘ نامی کتاب کا نام ہم نے آج سے تقریباً3برس قبل سُنا تو لگا کہ شاید ’’سیرت نبیﷺ‘‘ پرمبنی کوئی کتاب ہے۔ لیکن میرے دوست عقیل نے بتایا کہ یہ دراصل عمیرہ احمد کا وہ ناول ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے اور جس کے چرچے چہار دانگ عالم میں پھیل گئے ہیں۔
’’اس میں سیرت ہے اور نہ مذہبی بحث، ہاں مذہب اس ناول کی روح میں شامل ضرور ہے۔‘‘عقیل نے کہا۔
کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا توماہانہ خرچوں کو مینٹین کر نا پڑتا تھا۔گھر سے ایک قلیل رقم ملتی تھی۔ عقیل نے پیر کامل کا تعارف دے کرمجھ میں اِسے پڑھنے کی تحریک تو ضرور پیدا کی لیکن میں اِسے چاہ کر بھی نہیں خرید پایا۔
ہمارے ایک دوست ہیں، بارہمولہ کشمیر سے، امتیاز عبد القادر۔ عمر میں ہی نہیں بلکہ علم اور عمل میں ہم سے بڑے، بہت بڑے۔ میں شعبۂ اردو میں ماسٹرس کر رہا تھا تو آپ پی ایچ ڈی۔ ایک روز ہاسٹل میں ہمیں آپ کی میزبانی نصیب ہوئی۔لیکن امتیاز صاحب کا خاصہ یہ ہے کہ مفت میزبانی قبول نہیں کرتے۔ اپنے بیگ سے ’’ پیر کاملؐ‘‘ نکالی اور دستخط سمیت عنایت کر دی۔
امتیاز صاحب سے جو بھی واقف ہے خوب جانتا ہے کہ آپ کتابوں سے کس قدر انسیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کے مشاغلِ خاص میں کھیل کود، سیر وتفریح اور Adventure شامل ہے تو کتابیں ’’تحفتاً‘‘ دینا آپ کامحبوب مشغلہ۔ کتابیں صرف ’’دیتے‘‘ نہیں بلکہ دے کر پورا ’’حساب‘‘ بھی لیتے ہیں۔ ’’مطالعہ شروع کیا؟‘‘ ’’کیسی ہے کتاب؟‘‘ ’’اتنا تساہل کیوں؟‘‘ ’’پڑھنا شروع کردو‘‘ جیسے جملے کافی ہیں کہ ایک بندہ کتاب کی طرف متوجہ ہو جائے۔ سو ہم پر بھی جب پوچھنے کے یہ ’’وار‘‘ مسلسل برسنے لگے تو سُست طبیعت حرکت میں آگئی اور ہم نے کتاب کھول لی، بالآخر!
کتاب کیا پکڑی (دراصل ’’پکڑائی گئی‘‘) تو کچھ ہی دنوں میں مطالعہ مکمل کر لیا۔ آج پورے تین سال بعد کتاب کو دوسری دفعہ پڑھ لیا تو وہی کیفیت طاری ہوئی جو کتاب کے پہلے مطالعہ سے ہم پر طاری ہوئی تھی۔ لیکن اِس بار آپ کو بھی شریک کر رہا ہوں۔
س: ’’پیر کاملؐ ‘‘ کیاہے؟
ج: عصرِ حاضر کا وہ اردو ناول جسے غیر اردو برادری بھی پڑھ رہی ہے اور مسلسل پڑھے جا رہی ہے۔
س: اس کا مضمون؟
ج: ایک قادیانی لڑکی، امامہ ہاشم کی کہانی جو اپنے ’’جھوٹے پیر‘‘ کو چھوڑ کر ’’اصلی پیر‘‘ کا دامن پکڑتی ہے۔
س: مرکزی کردار؟
ج: امامہ کے علاوہ سالار سکندر، 150 IQکا حامل ایک شریر نوجوان جوکتاب کے آخر تک یکسر بدل جاتا ہے۔
س: دیگر کردار؟
ج:امامہ اور سالار کے اہلِ خانہ۔ امامہ کی سہیلیاں، سالار کے دوست اور ڈاکٹر سبط علی جو امامہ کی زندگی میں خیر کی طرح آتے ہیں اور حسبِ توقع خیر ہی تقسیم کرتے ہیں۔
س:کہانی کیا ہے؟
امامہ اور سالار پڑوسی ہیں۔ لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق۔ امامہ سنجیدہ اور سالار غیر سنجیدہ۔ امامہ مذہب کو ترجیح دیتی اور سالار مذہب کو ’’ روٹین‘‘ کہتا۔
امامہ ایک میڈیکل کالج کی طالبہ ہے۔ کالج میں ایک مسلمان سہیلی زینب سے اُس کی دوستی ہو جاتی ہے ۔ یہ دوستی امامہ کو محمدﷺ کا تعارف دینے پر منتج ہو تی ہے۔زینب کا ایک بھائی ہے، جلال اَنصر، ایک بہترین نعت خواں۔ امامہ ایک روز اتفاقیہ جلال کی زبان سے نعتِ رسولِ پاکﷺ سُنتی ہے تو مسحور ہو کر رہتی ہے۔اُسے اسلام اور محمدﷺ کے ساتھ غیر معمولی دلچسپی ہو جاتی ہے۔چنانچہ وہ زینب کے مشورے پر اسلام کا مطالعہ کرتی ہے اور کافی غور وخوض کے بعد اپنے آبائی مذہب’’ قادیانیت‘‘ کو چھوڑ دیتی ہے۔
امامہ قادیانیت چھوڑتی ہے تو اُسے گھر اور گھر والوں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے سالار کی مدد لینی پڑتی ہے۔ سالار مدد کرنے کے لیے محض اس لیے راضی ہوتا ہے کہ وہ اِس مدد(گھر سے بھاگ جانے) کو ایک ’’ایڈونچر ‘‘ سمجھتاہے۔اپنے آبائی مذہب کو ترک کرکے گھر سے بھاگ جانا سالار کے لیے ایک کھیل تھاجسے وہ کھیل کر’’ محظوظ‘‘ ہونا چاہتا ہے۔
امامہ کے والد ہاشم مبین ملکی سطح پر اپنی کمیونٹی’’ قادیانیت‘‘ کے سرکردہ مبلغ ہیں۔ سو وہ اپنی بیٹی کو برآمد کرنے کے لیے سبھی جَتن کرتے ہیں لیکن سب بے سود!
امامہ گھر سے نکلی تو کبھی آئی نہیں۔وہ آتی بھی کیسے؟ اُس کے گھر میں اُس کا ’’پیر‘‘ نہیں تھا۔
پورے برس تک وہ طرح طرح کے حالات اور ماحول سے مسابقہ کرتی رہی کہ بالآخر سالار سے ایک ڈرامائی انداز میں اُس کی ملاقات ہو جاتی ہے اور ایک ڈرامائی انداز میں ہی وہ دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں۔
یہ8بر س کیسے گزرے؟ امامہ گھر سے نکلی تو کہاں گئی؟ کس کے پاس رہی؟ اپنی تعلیم کیسے جاری رکھی اور ڈاکٹر سبط علی سے اُس کا رابطہ کیسے ہوا؟…یہ سب باتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
وہیں دوسری جانب سالار سکندر کے حالات بھی ان 8 برسوں میں حیرت ناک انداز میں تبدیل ہوئے۔وہی سالار جو مذہب کو گالیاں دیتا تھا ، آج8 سال بعد مذہب کے حصار میں آ گیا تھا۔ وہ ایک باعمل مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کا حافظ بن چکا تھا۔ اُس نے شراب، زنا، ڈانس، ڈسکو جیسی چیزوں سے مکمل توبہ کر لی تھی ،سچی والی توبہ۔سالار سے جڑی یہ سب باتیں پڑھ کر قارین ناول میں کلی طور گھُس جاتے ہیں اور ناول مکمل کرکے ہی واپسی ممکن ہو پاتی ہے۔
8 سال کے وقفے کے بعد امامہ جب سالار سے ملتی ہے تو وہ چھوٹی بچی نہیں ہوتی۔وہی سالار جو اُسے سب سے زیادہ نا پسند تھا، اب اُس کی زندگی میں دوبارہ آ جاتا ہے اور وہ اُسے قبول کرتی ہے۔
اب وہ سالار کی بیوی اور سالار اُس کا شوہر تھا۔
یہ8سال قبل والا سالار نہیں تھا۔
بلکہ سالار سکندر، ایک باعمل اور سنجیدہ مسلمان تھا ۔سوچنے سمجھنے والا۔ مذہب کو تمام معاملات میں ترجیح دینے والا۔
یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ امامہ اور سالار کے ملن کی وجہ کون بنے؟
یہ ڈاکٹر سبط علی ہیں…جو جسمانی معالج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہرین روحانی معالج بھی تھے۔
ڈاکٹر سبط علی سالار اور امامہ کی زندگی میں ایک نعمتِ غیرمترقبہ کی صورت میں آتے ہیں اور دونوں کی کائنات بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
’’پیر کاملؐ‘‘ کو کچھ لوگ تخیلی اور محیر العقل ناول قرار دے رہے ہیں جس کے ساتھ مجھے اتفاق نہیں۔ ناول پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ’’ امامہ ہاشم‘‘ اور ’’ سالار سکندر‘‘ کے یہ لافانی کردار انسانی دنیا میں آج بکثرت موجود ہیں۔ نوعیتیں ضرور مختلف ہیں۔ لیکن مراحل یکساں ہیں۔ سب کو زندگی کی کچھ ’’ تلخ حقیقتوں‘‘ سے سابقہ ہوتا ہے۔ سب الجھن اور کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں اور سب کو زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ ’’ فیصلے‘‘ لینے پڑتے ہیں، ایسے فیصلے کہ جو غیر متوقع اور معمول سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔سو اِس ناول کا مطالعہ Highly Recomended ہے۔
ناول کی کہانی ایسی ہے کہ جو کئی زندگیوں کو تبدیل کر سکتی ہے۔ زندگی کو جو نہیں جانتے، انہیں زندگی کا ’’ مفہوم‘‘ سمجھا سکتی ہے۔ اُن کی الجھنوں کو دور کر سکتی ہے اور اُنہیں ’’پیر کاملؐ‘‘ سے متعارف کر ا سکتی ہے۔
یہ کہانی کوئی روایتیLove Story بھی نہیں ہے کہ جس میں لڑکا یا لڑکی اپنے Loveکو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنا مذہب تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ کہانی تبدیلی مذہب کی کہانی ضرور ہے، لیکن یہ تبدیلی ایک ایسی عظیم ہستی کے لیے ہے کہ جو دانائے سُبل، ختم الرُسل اور مولائے کُل ہیں کہ جن کا دامن تھام کا دنیا کا کوئی بھی انسان تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آتا ہے۔یہ کہانی ہے گمراہی سے ہدایت کی طرف، نحوستوں سے برکتوں کی طرف اور ناکامی سے کامیابی کی طرف!
اِس تحریر کے ذریعے کہانی کا ایک اجمالی خاکہ بیان کرنا مقصود ہے۔امامہ نے ’’پیرِ کاملؐ‘‘ کو حاصل کرنے کے لیے گھر اور والدین جیسی عظیم نعمت کو قربان کر دیا۔ ہم’‘’ پیر کاملؐ‘‘ کو جانتے اور سمجھتے ہیں، تو کیا ہم خود کو تبدیل نہیں کر سکتے؟ امامہ یہی سوال ہم سے بار بار کر رہی ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021