پہلی بار لوگوں نے تعلیم، روزگار اور صحت پر بات کی:منوج جھا

بہار میں ’’فرقہ واریت‘‘ کی سیاست کمزور

 

(دعوت نیوز ڈیسک)
بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد آر جے ڈی لیڈر منوج جھا نے ووٹوں کی گنتی پر سوال اٹھاتے ہوئے نیتیجوں میں ہیرا پھیری اور دھاندلی کا اندیشہ ظاہر کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے الیکشن کمیشن میں شکایت بھی درج کرائی۔ گیارہ نومبر کو بی بی سی کے رپورٹر اقبال احمد سے بات کرتے ہوئے منوج جھا نے کہا کہ دوپہر ڈیڑھ بجے سے شام پانچ بجے تک گنتی کے دوران نمبروں کو منجمد رکھا گیا حالانکہ کہ ’’ڈائنمک کاؤنٹنگ‘‘ میں نمبر اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ منوج جھا کا الزام ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ آر جے ڈی کے نمبروں کو کس حد تک دبایا جاسکتا ہے اس کا اندازہ کیا جاسکے۔ ان کا الزام ہے کہ شام پانچ بجے کے بعد ہی گنتی میں ہیرا پھیری کی گئی ہے کیونکہ جتنے بھی ’’لو مارجن‘‘ یعنی نہایت ہی کم ووٹوں سے ہارنے کا معاملہ ہے، شام کو ہی پیش آیا۔ پہلے آر جے ڈی کے کئی امیدواروں کو کامیاب بتایا گیا لیکن انہیں کو شام کے بعد ناکام قرار دے دیا گیا۔ منوج جھا نے اپنی بات چیت کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ ہلسہ حلقہ اسمبلی سے آر جے ڈی کے ایک امیدوار کو پہلے 567 ووٹوں سے کامیاب بتایا گیا لیکن شام کو انہیں آٹھ ووٹوں سے شکست کی خبر دی گئی۔ منوج کے مطابق پریہار اور مُنگیر میں بھی اسی طرح کی گڑبڑی کی گئی۔ منوج جھا نے حکمراں جے ڈی یو اور بی جے پی کے لیڈروں سمیت کچھ افسروں پر بھی الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جہاں آر جے ڈی ’’ری کاؤنٹنگ‘‘ کا مطالبہ کر رہی تھی وہاں انکے مطالبات کو خارج کردیا گیا لیکن جے ڈی یو اور بی جے پی کی ’’ری کاؤنٹنگ ‘‘ کے مطالبے کو مان لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ری کاؤنٹنگ‘‘ کی شرائط پوری کرنے کے باوجود آر جے ڈی کو یہ موقع نہیں دیا گیا۔ جب منوج جھا سے بی بی سی کے رپورٹر کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ الیکش کمیشن نے جب انکے مطالبات کو خارج کر دیا ہے تو کیا وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ اس سوال کا انہوں نے صاف جواب نہیں دیا بلکہ بہار کے نوجوانوں، خواتین اور مزدوروں کا ذکر چھیڑ دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام کھیل پندرہ سیٹوں کو لے کر ہوا ہے، اگر ہیرا پھیری نہیں ہوئی ہوتی تو مینڈیٹ آر جے ڈی کے حق میں ہوتا۔ ’ایم وائی‘ فیکٹر یعنی (مسلم، یادو اتحاد) کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ انکے ساتھ بہار کے عوام ہیں اور انکا ووٹ شیئر اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ منوج جھا نے کہا کہ اس بار کے انتخابات یہ بتاتے ہیں کہ بہار میں ذات پات، مذہبی تعصب کی دیواریں ٹوٹی ہیں، دفعہ 370 اور رام مندر کا معاملہ ناکام رہا، بہار کے لوگوں نے عوامی مسائل کو سامنے رکھ کر ووٹ کیا۔ پہلے مرحلے میں ’’عظیم اتحاد‘‘ کی کارکردگی اچھی رہی۔ لیکن دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ناکامی کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ ابھی اس پورے معاملہ پر تجزیہ کرنا باقی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں قوی امید تھی کہ سمانچل اور متھلانچل کے علاقوں میں انہیں اچھی کامیابی ملے گی لیکن مجلس پارٹی کی وجہ اسے انہیں سمانچل میں کامیابی نہیں مل پائی۔ منوج کہتے ہیں کہ متھلانچل میں بی جے پی کو کامیابی تو ملی ہے لیکن عوام اس تجزیہ ضرور کریں گے۔ منوج جھا نے یہ بھی کہا کہ آخر ان علاقوں میں انکی طرف سے کیا کمی رہی اس پر وہ غور و فکر کریں گے۔
مجلس پارٹی کے ساتھ اتحاد کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ وہ سماج کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دیتے ہیں سماج کو بانٹنے کا کام نہیں کرتے ہیں۔ نتیش کمار کے سوال پر منوج جھا نے کہا کہ اب تک نتیش کمار ’’بڑے مینڈیٹ‘‘ کے سی ایم ہوا کرتے تھے اب دیکھنا اہم ہوگا کہ چالیس سیٹوں کے ساتھ نتیش کمار کو حکومت چلانے کے لیے کتنی آزادی ملتی ہے ۔نتیش کمار کے ساتھ اتحاد کے سوال پر منوج جھا نے یہ صاف کر دیا کہ نتیش کمار کی پارٹی کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔ کیونکہ عوام نے انہیں نتیش کمار کے خلاف ووٹ دیا ہے اس لیے وہ اس کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ وہیں این ڈی اے کی جانب سے انیس لاکھ نوکریوں کے وعدے پر منوج جھا نے چٹکی لی اور پی ایم کے دو کروڑ نوکریوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ حکومت بنتے ہی نوکریوں کے معاملہ پر وہ حکومت سے سوال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار بہار کے انتخابات میں نوکری، تعلیم، صحت جیسے عنوانات موضوع بحث رہے اور وہ آگے بھی انہی عنوانات کو لے کر چلیں گے۔ منوج جھا نے یہ بالکل صاف کر دیا کہ نئی حکومت سازی کے فوری بعد ہی وہ عوامی مسائل کو حکومت کے سامنے لانا شروع کر دیں گے۔ ان انتخابات سے انکی پارٹی کیا حاصل کر پائی اس سوال کے جواب میں منوج جھا نے کہا کہ اس بار کے انتخابات میں انکی پارٹی اور عظیم اتحاد کی جانب سے سب سے زیادہ ’کلین‘ انتخابی تشہیر چلائی گئی ہے جبکہ پی ایم کی جانب سے ذاتی حملہ جیسے ’’جنگل راج کا یو راج‘‘ اور نتیش کمار کی جانب ’’بچوں کا گنوانا‘‘ جیسے بیانات اخلاقی قدروں سے نیچے گرکر بیان بازی ہے لیکن تیجسوی جی نے کبھی بھی اپنے حدود کو پار نہیں کیا۔ اس بار ہم نے یہ کر کے دکھا دیا کہ انتخابات میں صاف ستھری انتخابی تشہیر کیسے کی جاتی ہے۔ منوج جھا نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ انتخابات اور سابقہ تشہیر کے دوران عوام کے ذہنوں کو بھٹکانے کی کوشش کی گئی۔ اصل علاقائی مسائل کو چھوڑ کر بی جے پی کے لیڈر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے۔ منوج جھا نے کہا کہ ’’یو پی کے سی ایم بھوجپور میں آکر کہتے ہیں کہ اب آپ لوگ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں۔‘‘ بہرحال منوج جھا کو خوشی ہے کہ انہوں نے عوامی اور علاقائی مسائل پر بات کی اور بی جے پی کو بھی مجبوراً انہیں موضوعات پر آنا پڑا۔ آخر میں منوج جھا نے کہا کہ بہار کے عوام نے ’’فرقہ واریت‘‘ اور سماج میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کو کچھ حد تک ناکام بنا دیا اور یہ انکی بڑی کامیابی ہے۔یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ای وی ایم اور کاؤنٹنگ میں دھاندلی کے مسئلے پر اس سے پہلے بھی کئی بار سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یکم فروری 2019 کو حزب اختلاف کی 21 جماعتیں ’سیو دا نیشن، سیو ڈموکریسی‘ کے بینر تلے جمع ہوئی تھیں اور ووٹنگ کرانے کےلیے ایک متبادل راستہ تلاش کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020