پولیس کا جانب دارانہ رول اورعدلیہکی تشویش
بدعنوان افسروں کو جوابدہ بنانے کے لیے قانون کو حرکت میں لانے کی ضرورت
زعیم الدین احمد حیدرآباد
پولیس افسران جو حکومت کے سُر میں سُر ملاتے ہیں یا ان کی بولی بولتے ہیں انہیں حکومت بدلتے ہی جانب داری کی قیمت چکانی پڑتی ہے اور وہ بھی سود کے ساتھ، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے محکمہ پولیس میں اس طرح کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایسے پولیس افسران کو عدالت کی جانب سے رحم کی توقع نہیں کرنی چاہیے جو برسرِ اقتدار پارٹی یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ صف بندی کرتے ہیں‘‘۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’ جب آپ یعنی کوئی پولیس افسر حکومت کے بہت قریب ہوں گے تو ایک دن آئے گا جب کوئی دوسری جماعت اقتدار میں آئی گی تو اس وقت آپ کسی دوسری جانب ہوں تو آپ کو اپنے کاموں کی قیمت چکانی پڑے گی۔ جب آپ کسی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرلیتے ہیں تو آپ پیسہ اور کچھ فوائد تو حاصل کرسکتے ہیں لیکن جوں ہی حکومت بدلتی ہے آپ کو وہ سارے پیسے یا فوائد سود کے ساتھ واپس کرنے پڑتے ہیں ‘‘۔
گذشتہ دنوں عدالت عظمیٰ معطل (آئی پی ایس) آفیسرگرجندر پال سنگھ کی ایک درخواست پر سماعت کررہی تھی ۔ گرجندر سنگھ پر چھتیس گڑھ میں بغاوت اور بدعنوانی کے الزامات تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان دو الزامات میں عدالت عظمیٰ نے انہیں ضمانت قبل از گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا لیکن ان پر ایک اور الزام بھتہ خوری کا بھی ہے اسی ضمن میں گرفتاری سے بچنے کے لیے انہوں نے ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ کا رخ کیا، ان کے اسی مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے مذکورہ تاثرات پیش کئے ۔ معطل آفیسر کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل وکاس سنگھ نے پچھلے حکمناموں کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی اور گرفتاری سے تحفظ کی مانگ کی ، عدالتی بنچ نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’آپ کو ہر معاملے میں تحفظ نہیں مل سکتا، آپ نے بد عنوانی شروع کردی کیونکہ آپ برسرِ اقتدار حکومت کے نورنظر بنے ہوئے تھے ۔ اگر آپ حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے اور اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس طرح کے کام کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے … آپ کو ایک دن وہ تمام چیزیں واپس کرنی پڑتی ہیں‘‘۔ جج نے بڑے ہی سخت لہجہ میں کہا ’’یہ تو انتہا ہوگئی … ہم ایسے افسران کو تحفظ کیوں دیں؟ ضمانت قبل از گرفتاری کا ملک میں ایک نیا اور تشویش ناک رجحان پیدا ہوچلا ہے اور دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جارہاہے۔ ہم آپ کی طرح کے کسی بھی افسر کی حفاظت کیوں کریں؟‘‘۔
اس سے قبل ۸ جولائی کو مسٹر سنگھ سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے تھے ان پر رائے پور کے ادارے انسداد رشوت (اے سی بی )غداری کا مقدمہ دائر کردہ کیا تھا ۔اسی ایف آئی آر کو کلدم کرانے کے لیے وہ عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوئے تھے ۔ چھتیس گڑھ پولیس کے مطابق جب اے سی بی نے سنگھ کے گھر پر چھاپہ مارا تو پولیس کو گھر کے پچھلے حصہ کے ایک نالے میں کچھ کاغذکےٹکڑے ملے جنہیں بعدمیں جوڑنے سے معلوم ہوا کہ ان کاغذات میں ریاستی حکومت کے مختلف عہدیداروں کی اہم معلومات لکھی ہوئی تھیں جیسے مختلف اداروں میں کام کرنے والے اور ادارں کے خلاف رپورٹس بنی ہوئی تھیں۔ پولیس کے مطابق ان رپورٹس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا ، اس کی امیج کو خراب کرنا اور ریاست میں امن و امان و بھائی چارہ کو تباہ کرنا تھا۔ اسی وجہ سے سنگھ پر بدعنوانی کے ساتھ ساتھ غداری کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ۔ تیسری ایف آئی آر کمل کمار سین کی شکایت پر درج کی گئی، کمل کمار سین نے ۲۰۱۵ میں رونما ہونے والے ایک واقعہ کا حوالہ دیا تھا جب سنگھ نے مبینہ طور پر ان سے جھوٹے کیس میں پھنسانے کی دھمکی دی اور ان سے پیسوں کا مطالبہ کیا اور پیسے لوٹے ۔ اسی مقدمہ میں انہیں ہائی کورٹ نے گرفتاری کا حکم دیا تھا جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے ۔
عدالت عظمیٰ میں سنگھ نے ان پر درج فوج داری مقدمات کو ختم کرنے کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ’’مجھ پر یہ مقدمات اس لیے لگائے گئے ہیں کیونکہ میں نے چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل کی بات ماننے سے انکار کیا ہے جس میں انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سابقہ وزیر اعلیٰ کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں میں ہونے کے الزامات لگائیں ۔ سنگھ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے ان مقدمات کو مرکزی تفتیشی ادارے (سی بی آئی )کے حوالے کیا جائے۔‘‘
سینئر وکیل نے جواب میں کہا ’’ ان کے موکل جیسے افسران کو عدالت کے تحفظ کی ضرورت ہے کیونکہ ان کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ اس عدالت کے سامنے پچھلے مقدمات میں سارے حقائق پیش کئے گئے تھے اور اسی بنیاد پر مسٹر سنگھ کو گرفتارہونے سے قبل ضمانت ملی تھی ’’ اس پر بنچ نے کہا ’’ تو اس صورت میں وہ آئی پی ایس افسر کی طرف سے دائر کردہ تمام درخواستوں کو ایک ساتھ سماعت کرنا چاہے گی اور ساتھ ہی عدالت نے چھتیس گڑھ حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ تینوں درخواستوں کی ساری تفصیلی یکم اکتوبر تک عدالت میں پیش کردے اور اسی دن کو مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کردیا۔‘‘ عدالت نے واضح کیا کہ سنگھ کو اگلی سماعت کی تاریخ تک گرفتار نہ کیا جائے۔
۲۶ اگست کی دو درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس حکام سے کہا کہ وہ خود کو ذمہ دار سمجھیں اور ذمہ دارانہ کردار اپنائیں محکمہ پولیس کو ذمہ دارانہ انداز میں چلائیں تاکہ قانون کی حکمرانی برقرار رہے۔ عدالت نے اس موقع پر پر زور انداز میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پولیس جب تک سیاسی جماعتوں اور برسراقتدار جماعت کی حمایت کرتی رہے گی اس وقت تک اسی طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ عدالت نے کہا ’’یہ ایک انتہائی پریشان کن رجحان ہے، ہر صورت میں کسی نہ کسی حیثیت میں محکمہ پولیس کو ذمہ دار ٹھہرانا پڑے گا۔ اگر پولیس افسران ذمہ دارانہ کردار نہیں اپنائیں گے اور اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے اور اگر انہیں ایسے رویوں پر جوابدہ نہیں بنایا جائے گا تو ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں رہے گی۔‘‘
کیا واقعی ہماری پولیس غیرجانبدار ہوتی ہے ؟ کیا اس کا کردار اس قدر شفاف ہے کہ اس پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی یا نہیں اٹھانا چاہیے ؟ یقینی طور پر ان سوالات کے جوابات بڑے تلخ ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ ان کی مذہبی حیثیت یا سماجی درجہ بندی کے مطابق ہوتا ہے ۔ کئی واقعات ہیں جس سے پولیس کی جانب داری صاف ظاہر ہوتی ہے اکثر موقعوں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس عوام کی نہیں بلکہ حکومت کی ہے وہ برسرِ اقتدار کی جی حضوری میں لگی رہتی ہے عوام پولیس کی آمد پر تحفظ کے بجائے خوف محسوس کرتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں رونما ہونے والے دو واقعات نے عوام میں ایک سراسیمگی پیدا کردی ، آسام کا واقعہ جہاں ایک معصوم پر پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے سینے پر گولی چلادی ، دوسرا واقعہ گورکھپور کا ہے جہاں رات کی تاریکی میں ہوٹل میں سورہے شخص کو اٹھا کر تلاشی کے نام پر مار پیٹ کر اس کو موت کی نیند سلادیا گیا ۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں پولیس کی بربریت صاف ظاہر ہوتی ہے اور ان کاموں میں انہیں حکومت کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے ۔ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ پولیس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کریں ، کبھی وہ ببانگِ دہل یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تم جو چاہے کرو عدالتوں کو ہم دیکھ لیں گے تو کبھی وہ پولیس کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ غریب و معصوم عوام پر گولی چلائیں ۔
یہ تو رہے پولیس کے رویے لیکن اس قسم کے واقعات پر عوام کی بے حسی بھی معنی خیز ہے ۔ ان کے خلاف نہ قلم اٹھتے ہیں اور نہ ہی آواز ، جس طریقہ سے ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے خلاف قانون کو حرکت میں لے آنے کے لئے عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اس کا ہمارے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ جب امریکہ میں جارج فلائیڈ کو ایک سفید فام پولیس اہلکار نے اپنے پیر سے گلا دبا کر ختم کردیا تھا تواس پر سارے امریکہ میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور اس پولیس افسر کو سزا بھی دی گئی ، لیکن دوسری طرف ہمارے ملک کی ایک ریاست آسام میں ایک معصوم پر گولی چلائی جاتی ہے تو سارے عوام کو اور خاص طور پر ہمارے میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ شاذ و نادر ہی لوگوں نے اس کےخلاف آواز اٹھائی ہے ۔ سماج کی اس کیفیت کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کی پہلی ذمہ داری خود عوام پر ہی عائد ہوتی ہے۔
***
***
جس طریقہ سے ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے خلاف قانون کو حرکت میں لے آنے کے لئے عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اس کا ہمارے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ جب امریکہ میں جارج فلائیڈ کو ایک سفید فام پولیس اہلکار نے اپنے پیر سے گلا دبا کر ختم کردیا تھا تواس پر سارے امریکہ میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور اس پولیس افسر کو سزا بھی دی گئی ، لیکن دوسری طرف ہمارے ملک کی ایک ریاست آسام میں ایک معصوم پر گولی چلائی جاتی ہے تو سارے عوام کو اور خاص طور پر ہمارے میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021