پولیس میں مسلم نمائندگی: ماضی سے حال تک مسلسل گراوٹ

قانون و نظم و ضبط کی برقراری کا ایک کلیدی عنصر نظرانداز!

ابھے کمار

آزاد بھارت میں فسادات کے دوران پولیس مسلمانوں کو نشانہ بناتی آئی ہے۔یہ وہی دور ہے جب مسلمان کی نمائندگی پولیس محکمہ میں گرتی چلی گئی۔پولیس محکمہ میں مسلمانوں کی نمائندگی۶ فی صد کے آس پاس ہے حالانکہ ان کی آبادی۱۴ فی صد سے زیادہ ہے۔ ایک ایسا دور بھی گزرا جب مسلمانوں کی حالت محکمہ پولیس میں اس قدر خراب نہ تھی۔دراصل آزادی ملنے تک اور اس سے قبل مسلمانوں کی پولیس اور فوج میں نمائندگی آج کے مایوس کن حالات سے کافی بہتر تھی۔اس مضمون میں ہماری گفتگو ۱۸۵۷ سے شروع ہو کر ۱۹۴۷ پرختم ہوجائے گی۔ اگلے مضمون میں ہم آزادی کے بعد کی صورت حال اور فرقہ پرستوں کی مسلمانوں کے خلاف کی گئی سازش پر بات کریں گے۔
کوئی ہم سے یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ پولیس میں مذہب کی بنیاد پر نمائندگی کی بات کرنا کیوں ضروری ہے؟ دوسرے الفاظ میں اس طرح کے ’’گڑے مردے”اکھاڑ کے کیا حاصل ہوگا؟ اس سوال کا جواب ایک اہم سوال سے جڑا ہوا ہے۔ آخر کیوں پولیس اپنے نظم و ضبط کے فریضہ کو انجام دیتے وقت فرقہ وارانہ ذہنیت سے کام کرتی ہے؟ بالخصوص فسادات اور دنگوں کے دوران ان کا چہرہ مسلم مخالف کیوں ہو جاتا ہے؟حالیہ دہلی فسادات کے دوران بھی ہم نے یہ سب کچھ پڑھا، سنا، اور وائرل ہوئے ویڈیوز میں دیکھا تھا کہ مسلمان نہ صرف بلوائیوں سے لڑ رہے تھے بلکہ قانون اور نظم وضبط کی محافظ دلّی پولیس بھی ان کی جان کی دشمن بنی ہوئی تھی۔
پولیس کی اس فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف ذہنیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے پولیس محکموں میں تنوع اور تکثیریت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے فرقہ پرست سیاست دانوں اور افسروں کو اپنا ایجنڈا پورا کرنے میں کافی آسانی ہوتی ہے۔ سماج کے اندر موجود تنوع اگر ان اداروں میں بھی ہوتا تو ان کو کسی قوم یا فرقے کے خلاف کوئی نا انصافی کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا۔آج تنوع کی عدم موجودگی میں پولیس ’’ہندو”پولیس معلوم ہوتی ہے۔اس میں بھی دبدبہ غالباً ہندو اعلٰی ذات کا ہی ہے۔
جس طرح ایک کامیاب جمہوری نظام میں ہر شعبے اور محکمے کا حال لینا اور اس کی کمیوں پر سوال کھڑا کرنا ضروری ہے اسی طرح پولیس بھی تنقید کے دائرے میں آتی ہے۔ اسی جذبے کے تحت ان موضوعات پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ان سوالات پر خاموشی اختیار کر لینے سے انسانی حقوق کی پامالی بند نہیں ہوگی۔ ایک صحت مند جمہوریت میں ان سوالات کی معنویت ہے۔جیسا کہ بابا صاحب امبیڈکر نے بھی کہا کہ قانون کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو اگر اس کو نافذ کرنے والے لوگ محکوم طبقات سے نہیں آئیں گے تو اس کا فائدہ محکوم طبقات تک نہیں پہنچ پائے گا۔
اس فرقہ وارانہ ذہنیت کی ایک وجہ پولیس تھانوں میں تنوع اور تکثریت کی عدم موجودگی ہے۔جس ادارے میں سماج میں پائی جانے والی تکثریتکی عکاسی نہیں ہوتی ہے وہ ادارہ تنگ نظری کے خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ پاتا ہے۔ مثال کے طور پر جہاں مختلف مذاہب اور ذات برادری اور علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ایک ساتھ مل کام کرتے ہیں وہاں کسی فرقے کے ساتھ نا انصافی اور ظلم ہونے کے امکانات نسبتاً کم ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے ملکوں میں اقلیتوں کو پولیس میں شامل کرنے کی بات پر زور دیا گیا ہے۔
جس ملک میں پولیس کے اندر اکثریتی طبقے کی غالب اکثریت ہوتی ہے وہ اکثر اقلیتوں کے خلاف ظلم و زیادتی کرتی ہے۔بھارت میں جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے وہیں افغانستان میں شیعہ، تاجک اور ازبک، پاکستان میں بنگالی مسلمانوں، سری لنکا میں تامل اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔یوروپ اور امریکہ میں بھی سیاہ فام اقلیتوں کو ٹارگیٹ کیا جاتا رہا ہے۔اس لیے پولیس میں اقلیتوں کی واجبی نمائندگی کی بات کرنا کسی بھی طرح سے پولیس کے حوصلے کو پست کرنا نہیں ہے۔ نہ ہی تکثریتکی بات کرنا اکثریتی طبقے کی مخالفت کرنا ہے۔
اس کے علاوہ پولیس کے تربیتی کورسز میں بھی تبدیلی لانےکی ضرورت ہے۔سیکولرازم، ہندو مسلم اتحاد، رواداری اور مشترکہ تہذیب جیسے موضوعات کو پولیس والوں کو بہتر طریقے سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ماہرین بھی قبول کرتے ہیں کہ ان کے اندر بیٹھے ہوئے فرقہ پرستی کے کیڑے کو نکال کر باہر پھینکنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔اتر پردیش کے مختلف ضلعوں میں کام کر نے والے پولیس افسر وبھوتی نرائن رائے نے بھی اپنی کتاب "کمباٹینگ کمیونل کنفلکٹز (۱۹۹۹) میں ان مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ نامور ماہر عمرانیات، نفسیات اور بشریات کو تربیتی کورس بنانے میں شامل کیا جانا چاہئے۔ سیکولرازم، بنیاد پرستی کے خطرات، رواداری کی اہمیت جیسے موضوعات کو پولیس ٹرینگ میں شامل کرنا چاہیے (ص ۱۲۶)”۔
در حقیقت جس سماج میں اقلیتی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کو سماج کے ہر شعبے میں نمائندگی دی جاتی ہے وہ سماج زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور اس کے اندر مشکلات سے لڑنے کی زیادہ طاقت پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی جمہوریت کی کامیابی اور انسانی حقوق کے تحفظات کے لیےیہ بے حد ضروری ہے کہ اقلیتوں کو مضبوط کیا جائے اور ان کو اس بات کی ضمانت دی جائے کہ ان کو اکثریتی طبقے کی عددی تعداد سے مغلوب اور مرعوب نہیں کیا جائےگا۔ پولیس میں مسلم نمائندگی پر بحث اور اس کے اندر تنوع اور تکثیریت کا مطالبہ اسی جذ بے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اس امر سے بہت ساری تفتیشی ایجنسیوں اور دانشوروں نے بھی اتفاق کیا ہے اور ان کا مطالبہ رہا ہے کہ مسلمانوں کی شرح نمائندگی کو بڑھانے کے لیے اقدام کیے جائیں۔
جیسا کہ گزشتہ ہفتے کے مضمون میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ سامراجی برطانوی حکومت نے پولیس کا ظالمانہ استعمال جنگ آزادی کے مجاہدوں کو نشانہ بنانے میں کیا۔مگر انگریزوں کے دور حکومت میں پولیس کسی خاص مذہبی فرقے کو جان بوجھ کر ٹارگیٹ نہیں کیا کرتی تھی۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انگریزوں کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات بند نہیں تھے۔۱۹ ویں صدی کی آخری دہائی کے بعد ایک کے بعد ایک فسادات رونما ہوئے اور ان میں کافی جانیں گئیں۔ہندو اور مسلمان دونوں اس کے شکار ہوے۔ان فسادات کا سب سے برا دور تقسیم ملک کا وقت تھا جب لاکھوں کی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصانات ہوئے۔مورخین ان سب کے لیے برطانوی حکومت کو بھی مورد الزام ٹھیراتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ برطانوی پولیس فرقہ پرست تھی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ برطانوی حکومت مذہب کے معاملے میں عموماً غیر جانب دار تھی۔ پولیس میں نہ تو ہندوؤں کی پوری طرح سے بالادستی حاصل تھی اور نہ ہی مسلمانوں کی۔یہ ضرور تھا کہ انگریزی حکومت کی پولیس اور فوج سے متعلق پالیسی بدلتی رہی اور اس کے اندر بھی ایک طرح کا تعصب پایا جاتا تھا۔ اس کی پالیسی بھی وقت کے ساتھ زیادہ وسیع ہوتی گئی اور اس نے فوج اور پولیس کے اعلٰی عہدوں میں ہندوستانیوں کے لیے دروازے بڑی دیر سے کھولے جس پر قومی تحریک کے لیڈروں نے خوب تنقیدیں کی تھیں۔
۱۸۵۷کی بغاوت کے وقت انگریزوں کے خلاف بنگال رجمنٹ نے نمایاں رول ادا کیا جس میں اودھ اور بہار کے اعلٰی ذات کے ہندو اور مسلمان شامل تھے۔دیگر رجمنٹ جیسے مدراس اور بامبے نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اس وقت سکھ، دیگر پنجابی، گورکھا اور گڑھوالی جوانوں نے انگریزوں کی حمایت کی۔ ۱۸۵۷ کی بغاوت کے تجربات نے انگریزی پولیسی پر گہرا اثر چھوڑا اور انہوں نے فوج سے متعلق اپنی پالیسی بدلنی شروع کر دی۔اس نے ’’مارشَل ریس‘‘یعنی لڑاکو نسل کی پالیسی کو اپنایا۔ اس کے تحت متعدد نسل، مذہبی فرقہ کے لوگ، جن کا رنگ گورا، سینا چوڑیا، اور جو دشواریوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، ان کو فوج میں ترجیحات دی گئیں۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے ۱۹۵۷ میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا وہ ان کی نظر میں مارشل ریس کہلائے اور ان کے لیے فوج کے دروازے کھول دیے گئے۔در حقیقت کسی بھی فرقے کو مارشل ریس میں شامل کرنا اور اس سے باہر رکھنا ایک قسم کی نسل پرستی تھی۔ڈوگرا، گڑھوالی، گورکھا، جاٹ، مراٹھا، پٹھان، پنجابی (جن میں تمام مذہبی گروپز شامل ہیں)، راجپوت، دکنی، موپلا مسلمان اور کمایوں کے باشندوں کو مارشل ریس کہا گیا۔وہیں گرم اور میدانی علاقوں میں رہنے والوں کو فوج کے لیے نااہل اور غیر صلاحیت مند قرار دیا گیا۔ان کو یہ کہہ کر بدنام کیا گیا کہ ان کا سیاہ رنگ اور موٹا بدن فوج کی ڈیوٹی کے لیے معقول نہیں ہے۔
۱۸۵۷سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک مارشل ریس کی پالیسی چلتی رہی۔مگر اس پالیسی کی نسل پرستی دیکھیے کہ جب فوج میں اعلٰی محکموں پر تقرری کی بات آتی تو وہاں جگہ انگریزوں کو ہی ملتی تھی۔ہندوستانیوں کو بڑے عہدوں پر جگہ پانے کے لیے لمبا انتظار کرنا پڑا اور عالمی جنگ اول سے صورت حال بدلنی شروع ہوئی۔ انگریزوں کی ان پالیسوں کی کانگریس نے کھل کر مخالفت کی تھی۔
عمر خالدی نے اپنی کتاب ’’خاکی اینڈ ایتھنک وائلنس”(۲۰۰۳) میں ان پہلووں پر تفصیل سے گفتگوکی ہے اور انہوں نے کانگریس لیڈران کی انگریزوں کی مارشل ریس کی پالیسی کی مخالفت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔’’انڈین نیشنل کانگریس( اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی تنظیم) نے برٹش راج کی تقرری کی پالیسی کی مخالفت کی اورکہا کہ یہ پالیسی وسیع نہیں ہے اور تعصب پر مبنی ہے اس نے اس بات پر زور دیا کہ فوج کے مواقع سب سماج کے ہر طبقے کے ہندوستانیوں کے لیے کھلے ہونے چاہیے (ص۔۶)’’۔ تضاد دیکھیے کہ جس پارٹی نے تنوعپر مبنی فوجی پولیسی کا مطالبہ انگریزوں سے کیا تھا وہ خود اسے کو نافذ نہیں کر نے میں قاصر ثابت ہوئی جب سرکار کی کمان اس کے ہاتھوں میں آ گئی۔
انگریزوں کے دور حکومت میں مسلمانوں پر مبنی کوئی خالص رجمنٹ نہیں تھا۔ مسلمانوں پر مشتمل پانچ یونٹز ضرور تھے، مگر کوئی رجمنٹ نہیں تھا جیسا کہ دوسرے فرقوں کے لیے بنایا گیا تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ۱۸۵۷ کی بغاوت میں مسلمانوں نے نمایاں رول ادا کیاتھا اور اس کو انگریزیاد رکھے ہوئے تھے۔اس کے علاوہ برطانوی حکومت کو اس بات کا بھی شک تھا کہ بھارت کے مسلمان ملک کو آزاد کرانےکے لیے افغانیوں کی مدد لینے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ لیا کہ انگریزوں کو فوج کے دروازے سب کے لیے کھولنے پڑے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران بڑی تعداد میں جوانوں کی ضرورت فوج میں تھی۔
۱۸۵۷کی بغاوت کے چار سال بعد پولیس ایکٹ لایا گیا اور اس طرح جدید پولیس کا وجود سامنے آیا۔بسا اوقات پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی کا تناسب ان کی آبادی سے بھی زیادہ تھا۔۱۹ ویں صدی سے لے کر ۲۰ویں صدی کی دوسری دہائی تک پنجاب، بامبے اور یونائٹید پروونسز (آج کا اتر پردیش) کی پولیس میں مسلمانوں کی شرح کُل پولیس تعداد کی ۵۰ فی صد تھی۔جہاں تک بات راجے رجواڑوں کی تھی تو وہاں جو راجا ہوتا تھا اس کے پاس ہی پولیس کی تقرری کرنے کا اختیارتوہوتا تھا۔اکثر یہ دیکھا گیا کہ جس مذہب یا فرقے سے راجا کا تعلق ہوتا تھا، پولیسبھی اسی مذہب سے بھرتی کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر جموں اور کشمیر کے راجا نے پولیس میں ڈوگرا اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو بھرتی کر رکھا تھا اور اپنی متعصبانہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا تھا۔مسلمان جموں اور کشمیر میں اکثریت میں ہونے کے باوجود بھی پولیس محکمہ سے دور رکھے گئے تھے اور ان کو دیگر محکموں سے بھی باہر رکھا گیا تھا، جس کے خلاف شیخ عبداللہ کی قیادت میں مسلمان اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر اتر گئے تھے۔حیدرآباد میں صورت حال اس کے مختلف تھی۔ وہاں کا حکمراں نظام ایک مسلمان تھا اور جنتا کی اکثریت ہندوؤں کی تھی۔حیدرآباد میں زیادہ تر پولیس مسلمان تھے، مگر غیر مسلمانوں کے لیے پولیس محکمے کے دروازے بند نہیں تھے۔
آزادی کے وقت مسلمانوں کی نمائندگی فوج اور پولیس میں بہتر تھی۔ کہیں کہیں وہ اپنی آبادی کے آس پاس نمائندگی پائے ہوئے تھے تو کہیںیہ نمائندگی ان کی آبادی سے بھی زیادہ تھی۔انگریزی فوج میں مسلمان ۳۰ سے ۳۶ فی صد تھے جبکہ سکھ ۸ فی صد تھے۔ باقی کی۶۰ فی صد نمائندگی ہندو، عیسائی، گورکھا اور دیگر فرقے پر مشتمل تھی۔جب کہ ۳۰ جون ۱۹۴۷ تک ۵۱۶ انڈین پولیس افسروں میں۶۳ مسلمان تھے جو کہ ان کی آبادی کا ۱۲ فی صد تھا۔ ہندو افسروںکی تعداد مسلمانوں سے دُگنییعنی۱۳۰ تھی، جبکہ اس کا بڑا حصہ یعنی۳۲۳یوروپین ہڑپ کر بیٹھے تھے۔آزادی کے بعد مسلمانوں کے بہت سارے افسران پاکستان چلے گئے جس سے ان کی شرح کم ہو گئی۔
ملک کی بڑی ریاست اتر پردیش میں مسلمان بڑی تعداد میں پولیس میں تھے۔سال ۱۹۲۱ میں ان کی نمائندگی اتر پردیش پولیس میں۴۰ فی صد تھی۔ ۱۵ سال بعد یعنی۱۹۳۵ اور ۱۹۳۶ میں بھی ان کی نمائندگی برقرار رہی اور ان کا شرح ۴۸ فی صد رہا ۔مگر یہ صورت حال ہندو فرقہ پرست نظریہ کے حامل سیاست دانوں کو خواہ وہ کانگریس میں ہو ں یا ہندو مہا سبھا میں، بے چین کیے ہوئی تھی اور اس کے خلاف وہ ایک کے بعد ایک سازش تیار کرنے لگے، جس کے منفی اثرات آج تک نظر آ رہے ہیں۔
آج جب دلّی فسادات میں پولیس معصوم مسلمانوں کو دنگائیوں سے بچانے سے بھاگ جاتی ہے اور الٹے بے قصور مسلمانوں کو مارتی اور پیٹتی ہے اور ان کو فرضی مقدمات میں جیل میں ڈال دیتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کا اسکرپٹ آزادی کے وقت ہی تیار کر لیا گیا تھا۔
(ابھے کمار نے جے اینیو سے پی ایچ ڈی کی ہے۔وہ ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔)
[email protected]