پولیس میں مسلمانوں کی جگہ نہیں!
تعصب و مسلم مخالف ایجنڈہ کو تھوپنے کے لیے پولیس کا استعمال نیا نہیں برٹش انڈیا سے آزادی کے بعد کے حالات کا ایک تحقیقی جائزہ
ابھئے کمار
تقسیم ہند کے وقت ایک بڑی فرقہ وارانہ سازش رچی گئی۔ مسلمانوں کی ملک اور ریاست کے تئیں حب الوطنی اور وفاداری کو مشکوک قرار دے کر ان کی پولیس اور فوج میں تقرری پر پابندی عائد کی گئی۔ آج بھی ملک کے نظام میں یہ مسلم مخالف تعصب جڑ پکڑ کر بیٹھا ہوا ہے، جسے اکھاڑ پھینکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔
آزادی کے وقت پولیس میں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ 19 ویں صدی سے20 صدی کی دوسری دہائی تک برٹش انڈیا کے اہم صوبوں اتر پردیش، پنچاب اور بامبے میں مسلمانوں کی پولیس میں نمائندگی50 فی صد تھی۔ جہاں تک بات اتر پردیش کی ہے تو وہاں آزادی کے وقت تک شرح تھوڑی ضرور کم ہوئی، مگر پھر بھی یہ 40 فی صد کے آس پاس تھی جو مسلمانوں کی آبادی سے زیادہ تھی۔یہ بات ہندو فرقہ پرستوں کے دلوں میں ٹیس مار رہی تھی۔ ان کا مسلم مخالف ایجنڈا دن رات اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو پولیس محکمے سے باہر کیا جائے اور ان کی شمولیت پر پابندی لگائی جائے۔ اس کے لیے وہ کوئی بہانہ تلاش کر رہے تھے۔ حالانکہ فرقہ پرست 1930 کی دہائی سے ہی مسلمانوں کی آبادی سے زیادہ نمائندگی کو ایشوز بنائے ہوئے تھے۔ مگر تقسیم ملک اور قیام پاکستان نے انہیں اپنے ایجنڈے کو نافذ کرانے کا موقع فراہم کر دیا۔
1940 کی دہائی سے ہی ماحول میں جو کشیدگی پیدا ہونی شروع ہوئی تھی وہ 1947 تک پہنچتے پہنچتے پھٹ پڑی۔ ہندو بنام مسلمان کی سیاست کی اونچی اونچی لپٹیں سب کچھ جلا رہی تھی۔ان سب کے لیے بلا شبہ اس وقت کے سیاست داں ذمہ دار تھے۔ برطانوی حکومت، کانگریس، مسلم لیگ اور ہندو اور مسلم فرقہ پرست تنظیموں نے سب کو مایوس کیا۔ مگر سب سے زیادہ قصور وار شاید کانگریس اور مسلم لیگ تھیں، جن کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مل بیٹھ کر فرقہ وارانہ مسئلے کا حل تلاش کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو لاکھوں لوگوں کی جانیں بچا لی جاتیں اور ان سے کہیں زیادہ لوگ زخمی اور بے گھر نہ ہوتے۔ تقسیم ملک کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی۔ جو بھی بڑے افسر تھے اور اثر ورسوخ رکھتے تھے ان میں سے ایک بڑی تعداد ان کو ایک طرح سے بے سہارا چھوڑ کر پاکستان چلی گئی۔ اگر کہا جائے کہ اس وقت مسلمان بہت حد تک بے یار و مدد گار تھے تو غلط نہیں ہوگا۔ ان کے خلاف تعصب ہر طرف کھلے طور پر برتا جانے لگا۔ ہندو فرقہ پرستوں نے ماحول ایسا بنایا کہ ہزاروں سال سے رہ رہے مسلمانوں کو اچانک سے ان ہی کے ملک میں ’’غیر‘‘ تصور کیا جانے لگا۔ ان کی ملک کے تئیں حب الوطنی اور وفاداری پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جانے لگے۔ اس تعصب کو پھیلانے میں ہندو فرقہ پرست طاقتیں ذمہ دار تھیں، مگر سیکولر طاقتوں نے بھی اسے دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی سیکولر قیادت مسلم مخالف جذبات کو دور کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھا پائی۔ بعض اوقات تو فرقہ پرست اور سیکولر طاقتوں کی ملی بھگت بھی سامنے آئی ہے۔ مثال کے طور پر ہندو فرقہ پرست سیاسی تنظیم ہندو مہاسبھا اور سیکولر کانگریس کے بہت سارے اہم لیڈروں نے مل کر کام کیا۔ یہ کڑوی سچائی ہندوستانی سیکولرازم کے اوپر ایک بڑا سوال کھڑا کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اسکالر ہندوستانی سیکولرازم پر اعتراضات ظاہر کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس کے اندر سے ہندو اکثریت پرستی کی بو آ تی ہے۔اسی ہندو اکثریت پرستی کے زیر اثر اس وقت بہت سارے سیکولر کانگریسی رہنما سرگرم تھے۔ اتر پردیش کے ٹاپ کانگریسی لیڈر اور پریمیم پرائم منسٹر وزیر اعلیٰ گوبند بلبھ پنت ایسے ہی ایک فرقہ پرست اور مسلم مخالف رہنما تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے بعد وہ اتر پردیش صوبےمیں بنی حکومت کے پرائم منسٹر بنے۔ ان کے دور حکومت میں بہت سارے ایسے فیصلے لیے گئے جن کی وجہ سے صوبے کے مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں خوف پیدا ہونا شروع ہونے لگا اور ان سے مسلم لیگ کے اس موقف کو تقویت ملی کہ کانگریس ایک ’’ہندو‘‘پارٹی ہے۔
مثال کے طور صوبہ اتر پردیش کے پرائم منسڑ پنت نے 1939 میں پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اپنی آبادی سے کہیں زیادہ پولیس میں نمائندگی حاصل کیے ہوئے ہیں اور اس طرح وہ ہندووں کا حق مار کر بیٹھے ہیں۔ اس طرح واویلا کھڑا کرنے میں پنت کی یہ نیت تھی کہ وہ ہندو فرقے میں اپنی مقبولیت کو بڑھائیں۔ پریس کو انہوں بتایا کہ’’مسلمانوں کی آبادی14 فی صد ہے لیکن ان کی پولیس میں نمائندگی ان کی آبادی سے کہیں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر 56 فی صد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہندو ہیں، جبکہ 28فی صد مسلمان ہیں۔ وہیں پولیس انسپکٹر کے عہدے پر64 فی صد ہندو ہے اور 43 فی صد مسلمان ہیں (حوالہ:عمر خالدی ’خاکی اینڈ ایتھنک وائلنس‘ ٢٠٠٣ ،ص. 72)۔
توجہ طلب ہے کہ جو اعداد وشمار پنت نے پریس کے سامنے پیش کی تھیں وہ کہاں تک صحیح تھیں یہ کہنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی فرقے کی بنیاد پر اطلاعات جمع کرنا ایک آسان کام نہیں ہے۔ مگر اتنا تو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی ان ہندو فرقہ پرست لیڈروں کے لیے بالکل بھی قابل قبول نہیں تھی۔ ان کو اس بات کا ڈر تھا کہ وہ کیسے مسلمانوں کے ہاتھوں میں ملک کی سلامتی کو سونپ سکتے ہیں؟
مگر ان کے سامنے کچھ دشواریاں بھی تھیں۔ اگر مسلمان بڑی تعداد میں پولیس اور فوج میں نوکری کر رہے تھے تو ان کو اچانک کیسے باہر کیا جا سکتا تھا؟ یہی وجہ ہے کہ ان کی یہ کوشش 1930 اور 1940 کی دہائی میں کامیاب نہیں ہوئی۔ آزادی کے وقت ان کو ایک کھلا میدان مل گیا تھا۔ مسلم لیگ آس پاس نہیں تھی۔ بڑے مسلم رہنما اور مسلم متوسط طبقہ کا ایک بڑا حصہ پاکستان ہجرت کر چکا تھا۔ ہر طرف مسلم مخالف ماحول بن چکا تھا۔ کانگریس بھی ہندو فرقہ پرستوں کے ساتھ سمجھوتاکرنے کو تیار تھی۔
ملک کی تقسیم نے فرقہ پرستوں کا کام بڑا اسان بنا دیا۔ ملک کی تقسیم کے لیے بھارت میں مسلم لیگ (مسلمان) کو قصور وار قرار دے دیا گیا۔ اس پروپگنڈے کو پھیلانے میں سیکولر جماعت کانگریس آگے تھی کیونکہ اس سے اس کی کمیاں ڈھکی جا سکتی تھیں۔ یہ وہی گوشہ تھا جہاں سیکولر اور کمیونل کا فرق مٹ جاتا تھا۔ بعد کے دنوں میں سرکاری پروپگنڈے سے ان باتوں کو درسی نصابوں سے لے کر عوام کے ذہنوں تک پھیلا دیا گیا۔ مگر اس کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ رائے عامہ میں مسلمانوں کی شبیہ مسخ کر دی گئی اور آج تک ان کی ملک کے تئیں وفاداری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ بات سننے میں کڑوی لگتی ہے مگر یہ حقیقت ہے۔ ہندوستان کی سیکولر جمہوریت ان حقائق کو نظر انداز کر مضبوط نہیں ہو سکتی۔
ملک کی تقسیم ہونے سے کچھ ہی دن پہلے ہندو مہا سبھا نے اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی سے زیادہ نمائندگی کا مسئلہ پھر چھیڑ دیا۔ اب اس کا رخ پہلے سے کہیں زیادہ جارحانہ تھا۔ صوبے کی کانگریس حکومت کو اس نے یہ دھمکی دے ڈالی کہ اگر اس کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو وہ یکم اگست 1947 سے ’’ڈائریکٹ ایکشن‘‘ احتجاج شروع کر دے گی۔ اس وقت کی کانگریس لیڈرشپ کا موقف بھی ہندو مہا سبھا سے میل کھاتا تھا۔ ہندو مہا سبھا کے مطالبات پر عمل کرنے کی یقین دہانی کے لیے خود حکمراں پنت سامنے ائے اور انہوں نے کہا کہ پولیس محکمے کی ’’خامیوں‘‘ کو دور کیا جائے گا۔ ہندو فرقہ پرستوں کی نظر میں پولیس محکمے میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی یا آبادی سے زیادہ نمائندگی ایک ’’خامی‘‘ تھی۔ اپنے جواب میں پنت نے کہا کہ’’جہاں بھی کمپٹیشن پر مبنی امتحان کے علاوہ انتخاب کیا جائے گا، آبادی کی بنیاد پر مختلف فرقوں کی تقرری کی جائے گی۔خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایک نئی پالیسی نافذ کی جا رہی ہے(عمرخالدی، ص۔ 73 )۔‘‘
اسی دوران پنت نے ایک اور بیان جاری کیا اور کہا کہ پولیس محکموں میں ان کو ترجیح دی جائے گی جن کے اندر ملک کے تئیں ’’وفاداری‘‘ پائی جاتی ہے۔ اپنے ایک انتہائی فرقہ وارانہ بیان میں پنت نے کہا کہ ’’ہم لوگوں نے ملٹری پولیس کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے شروع کر دیے ہیں، جن میں ابھی تک 37 فی صد مسلمان ہیں۔ پولیس کی نئی کمپنیوں کی تشکیل دینے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اور بھی تقرریوں کا کام جاری ہے تاکہ سول ڈیفینس کو مضبوط کیا جائے۔ریاست کے ساتھ وفاداری رکھنا اس سروس کے لیے بنیادی شرط ہوگی(عمرخالدی، ص۔ 74 )۔‘‘
ریاست اور ملک کا وفادار کون ہوگا؟ اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ فرقہ وارانہ بیانیے کا حصہ ہے کہ ملک کے تئیں وفادار اکثرتی طبقے کو سمجھا جاتا ہے اور اقلیتوں اور دیگر محکوم طبقات کو’’وطن دشمن‘‘ کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ہندو مسلم تنازعہ پر دہائیوں سے تحقیق کرنے والے نامور مورخ گیانندر پانڈے نے اپنے ایک مضمون
’’? Can Muslim Be An Indian، 1999 (کیا مسلمان ہندوستانی ہو سکتے ہیں)‘‘ میں انہی سوالوں کو اٹھایا ہے۔ پانڈے کی دلیل ہے کہ جب کبھی بھی کوئی ’’نیشن‘‘یعنی قوم کا وجود کھڑا کیا جاتا ہے تو اس کا ایک ’’Core‘‘ یعنی لازمی، فطری پہلو یا حصہ گڑھا جاتا ہے۔ یہ کور اس قوم کی روح ہے اور مین سٹریم بھی اسی کور کے ہم معنی بتایا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کور میں کون شامل ہیں؟ یا پھر کن لوگوں پر یہ کور مشتمل ہے؟
قومیت کے نظریہ کے زیر اثر کور کسی بھی ’’نیشن اسٹیٹ‘‘ یعنی قومی ریاست میں بسنے والا اکثریتی طبقہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کے ’’مین سٹریم نیشنلزم‘‘ میں کور اکثریتی ہندو قرار دیا جاتا ہے۔ اس عمل کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔جب کور ہوگا تو کور سے باہر بھی ایک گوشہ ہونا لازمی ہے۔ کور سے باہر کا گوشہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ اقلیت، محکوم طبقات، جو اکثریت فرقے سے باہر ہیں، ان کی جگہ اس باہری گوشہ میں ہے۔ اس تقسیم اور درجہ بندی کی وجہ سے اقلیت اور محکوم طبقات پر ہمیشہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے دباو بنایا جاتا ہے۔ اسی نظریہ کے تحت اقلیتوں کو قومی ریاست میں رہنے تو دیا جاتا ہے، مگر وہ کبھی بھی اس کے کور نہیں بن پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ہندووں سے ان کی حب الوطنی کی سند نہیں مانگے گا۔ نہ ہی ان پر ملک کے تئیں وفاداری ثابت کرنی کی ذمہ داری تھوپی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے لیے جاسوسی کرتے ہوئے جب کسی ہندو کو پکڑا جاتا ہے تو یہ ایک چھوٹی خبر بن کر دب جاتی ہے، مگر جب کوئی مسلمان اسی الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے تو اس بہانے کروڑوں مسلمانوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔
آر ایس ایس کے نظریہ ساز اور جن سنگھ کے سابق قومی صدر بلراج مدھوک نے بھی اپنی کتاب’’انڈیانائزیشن‘‘ (1970) میں بھی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے اور ان کے سامنے بہت ساری شرائط رکھیں، جن کو پاس کرنے کے بعد ہی مسلمان سچے معنوں میں ہندوستانی قرار دیے جائیں گے۔ مدھوک مزید کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا وجود ’’قوم کے ادھورے پن‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ اس لیے اقلیتوں پر تب ہی یقین کیا جا سکتا ہے جب وہ پوری طرح سے ہندوستانی ہو جائے۔ مگر ہندوستانی کیسے بنا جا سکتا ہے؟ مدھوک کا سچا ہندوستانی بننے کا ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے مسلمانوں کو اپنی مذہبی تشخص کی بہت ساری چیزوں کو ترک کرنا ہوگا۔ اگر مدھوک کی ان شرائط کو غور سے دیکھا جائے تو یہ سب کچھ ملک کے آئین میں دیے گئے مذہبی اور ثقافتی آزادی کے بنیادی حقوق کو غصب کرنے کی ایک بڑی سازش ہے۔
سال 1947 میں سر سیتا رام کی قیادت میں ’’پولیس ری آرگنائزیشن کمیشن‘‘ کی تشکیل کی گئی۔ اس کمیشن کے سامنے ہندو مہا سبھا کے صدر مہنت دگ وجے ناتھ نے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہندووں کے لیے نمائندگی کا مطالبہ رکھا اور یہ بھی کہا کہ ہندووں کی غیر متناسب نمائندگی کی وجہ سے ان کا پولیس پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر یہ بات آج مسلمان کہتے ہیں کہ ان کی نمائندگی پولیس میں نہیں کے برابر ہے اور پولیس اکثر مسلم مخالف ذہنیت سے کام کرتی ہے تو ان کو’’اینٹی نیشنل‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ میڈیا بھی پولیس میں تنوع کی وکالت کرنے والوں پر ٹوٹ پڑتا ہے اور متناسب نمائندگی کی بات کہنے پر پولیس محکمے کو کمیونل بنانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ مگر ان دنوں ہندو مہا سبھا کے صدر کچھ اسی طرح کی دلیل پیش کر رہے تھے اور ان کی دلیل کسی کو کمیونل یا ’’ملک دشمن‘‘ نہیں لگ رہی تھی۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مہا سبھا کے صدر نے بہت سے حقائق غلط پیش کیے۔ اول یہ کہ پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی 70 فی صد نہیں تھی، جیسا کہ کمیشن کے سامنے وہ بیان کر رہے تھے۔ دوسری بات یہ کہ مسلمان ہندووں کی واجب نمائندگی کے خلاف نہیں تھے۔ مگر جس طرح سے اس پورے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا وہ کافی خطرناک تھا۔ یہ بھی بات بالکل غلط ہے کہ ملک کی آزادی میں صرف ایک قوم نے اہم رول ادا کیا تھا اور دوسرے قوموں کے لوگ انگریزوں کے حامی بنے ہوئے تھے۔ در حقیقت انگریزوں کے معاون ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں کے متعدد لوگ شامل تھے اور ان کی مخالفت میں بھی انہی فرقوں سے لوگ سڑکوں پر اترے ہوئے تھے اور اپنی جان کی قربانیاں دے رہے تھے۔ ہندو مہا سبھا کے صدر مہنت دگ وجے ناتھ نے بڑی آسانی سے مسلمانوں کو انگریزوں کا معاون کہہ تو ڈالا، مگر انہوں نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کی کہ خود ان کی پارٹی تحریک آزادی سے الگ رہی تھی اور ان کی پوری کی پوری توانائی ہندو مسلم جھگڑے کو اور بڑھا کر چڑھا کر پیش کرنے میں لگ رہی تھی تاکہ قومی تحریک کو کمزور کیا جائے اور انگریزوں کی خوشنودی حاصل کی جائے۔پولیس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فوج کے دروازے بھی مسلمانوں کے لیے بند کیے جا رہے تھے۔ فوج میں بھی ملک اور ریاست کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری مشکوک قرار دی گئی تھی۔فرقہ پرست، فوج میں بھی پوری کوشش کر رہے تھے کہ جتنی جلدی ہو سکے فوج سے مسلمانوں کی تعداد کو کم کیا جائے اور اس میں ہندووں کو زیادہ سے زیادہ بھرا جائے۔ 1953میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ فوج میں مسلمانوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ملک کے مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو خطاب کرتے ہوئے، نہرو نے کہا کہ ’’ہماری ڈیفنس سروسز میں شاید ہی کوئی مسلمان بچ گیا ہے۔ اگر اسے روکا نہیں گیا تو اگے چل کر حالات اور بھی خراب ہوں گے۔
جو بات مجھے پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں‘‘۔دریں اثنا مرکزی وزیرمملکت برائے دفاع مہا ویر تیاگی نے بھی قبول کیا کہ فوج میں مسلمانوں کی تعداد 30 سے گر کر 2 فی صد ہو گئی ہے۔’’تقسیم کے وقت فوج میں مسلمانوں کی نمائندگی 30 فی صد تھی جو کم ہو کر 2 فی صد ہو گئی ہے۔ ان حالات کو درست کرنے کے لیے میں نے حکم صادر کیا ہے اور مسلمانوں کی تقرری کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے (خالدی، ص۔ 11 )۔‘‘
مگر یہ افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ سسٹم میں بیٹھے فرقہ پرست لوگوں نے ایسی سازش رچی کہ مسلمانوں کو فوج اور پولیس سے باہر رکھا گیا۔ کشمیر کے سرکردہ رہنما اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبدللہ بھی اس بات پر حیران تھے کہ مسلمانوں کے لیے فوج کے دروازے آزاد اور سیکولر ملک میں بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ ان دنوں ان کے ہاتھ ایک ایسا خفیہ سرکولر آیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کو فوج میں شامل نہیں کرنا ہے۔ اس پورے واقعے کو خود شیخ عبداللہ یوں بیاں کرتے ہیں۔’’کشمیر کے بھارت میں انضمام کے بعد امیدیں بڑھی تھیں کہ مسلمانوں کے خلاف تقرری پر سابقہ پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور وہ فوج میں واجب نمائندگی حاصل کر پائیں گے۔ مگر مجھے کافی حیرت ہوئی جب ایک خفیہ سرکولر میرے علم میں آیا جس میں افسروں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو فوج میں شامل نہ کیا جائے۔(خالدی، ص۔ 12 )‘‘۔ بعد میں شیخ عبداللہ نے اس کے بارے میں بہت سارے افسران سے دریافت کیا۔وزیر دفاع سے بھی بات کی، مگر انہوں نے بھی کہا کہ وہ اس طرح کے سرکولر کے بارے میں نہیں جانتے۔ مگر جب شیر کشمیر نے فیلڈ مارشل کے ایم کَری اَپا سے پوچھا کہ کیوں کارگل کے مسلمانوں کو فوج میں شامل نہیں کیا گیا ہے؟ تو ان فوجی سربراہ کا جواب یہ تھا کہ ان کی بھارت کی تئیں وفاداری مشکوک ہے!
یہ کسی بھی سیکولر ملک کے لیے بڑا سوال ہے کہ ملک کا سب سے بڑا فوجی افسر اقلیتوں کے خلاف اس طرح کے نفرت انگیز خیالات رکھتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمان ملک کے لیے قربانی دینے میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں؟ یہاں تک کہ جب وقت پاکستان کے خلاف جنگ لڑنے کا آیا تب بھی ہندوستانی مسلم فوجوں نے اپنا خون بہا کر ملک کا دفاع کیا۔ مگر ان تمام حقائق سے کری اَپا جیسے فرقہ پرست ذہنیت والوں نے آنکھ بند کر رکھی ہے۔ کری اپا کا یہی فرقہ وارانہ ذہن انہیں آر ایس ایس کی ترجمان میگزین میں خود اپنے قلم سے مضمون لکھنےکے لیے آگے لاتا ہے۔ 15 اگست 1964 کے روز اپنے ایک مضمون میں کری اپا نے مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کیا اور فرقہ پرست طاقتوں کی سیاست کو تقویت پہنچائی۔ان سب حالات کو دیکھ کر اس وقت کے دیگر مسلم رہنما بھی پریشان تھے۔ مثال کے طور پر اتر پردیش کے مسلم لیگ کے رہنما چودھری خلیق الزماں نے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے تعصب کے بارے میں نہرو کا دھیان مبذول کرایا۔ چودھری خلیق الزماں نے کہا کہ اتر پردیش میں 8 ہزار نیشنل گارڈز کی تقرری ہونے جا رہی ہے اور اس میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگرا یسا ہوتا ہے تو مسلمانوں کی نمائندگی کافی کم ہو جائے گی۔ پنڈت نہرو نے خلیق الزماں کو یہ کہ کر تسلی دلائی کہ وہ اس معاملے کو متعلقہ وزیر سردار پٹیل کے سامنے رکھیں گے۔ اس سمت میں سردار پٹیل اور نہرو کے درمیان کیا بات ہوئی یہ مزید تحقیق کا موضوع ہے۔ سردار پٹیل سے متعلق یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے ایک ایسا خفیہ سرکولر جاری کیا تھا اور ریاستی وزرا داخلہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو پولیس محکمے سے دور رکھیں۔ پٹیل کے خلاف اس طرح کے الزامات مسلم لیڈران تب سے لے کر 1970 کی دہائی تک لگاتے رہے ہیں۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟ انڈین پولیس افسر اے کے داس نے نامور اسکالر سٹیون ولکنسوں کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا تھا کہ اتر پردیش کی گوبند بلبھ پنت حکومت نے زبانی احکام جاری کیے تھے کہ مسلمانوں کو پولیس میں شامل نہ کیا جائے۔
مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بھید بھاو کی بات صرف شمالی ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھی۔مدراس پروونس میں بھی آزادی کے بعد مسلمانوں کی پولیس میں تقرری پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ سال 1947 میں یہ معاملہ مدراس قانون ساز اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا۔ جواب میں اس وقت کے وزیر داخلہ ڈاکٹر پی سُبرامنیم نے کہا کہ یہ ریاست کی صوابدید کا حصہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو پولیس میں تقرری نہ کرے۔ 12 دسمبر 1947 کے شمارے میں انگریزی روزنامہ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے مطابق، جب مسلم لیگ کے لیڈر محمد اسماعیل نے پوچھا کہ آخر کیوں مسلمانوں کو پولیس سے باہر رکھا جا رہا ہے، تو وزیر داخلہ کا جواب تھا کہ یہ معاملہ پوری طرح سے حکومت کی صوابدید کے تحت آتا ہے۔ پھر یہ بھی پوچھا گیا کہ جو’’نیشنلسٹ‘‘ مسلمان ہیں کیا ان کو پولیس میں جگہ ملے گی؟ نیشنلسٹ مسلمان سے مراد اس زمانے کے کانگریسی مسلمانوں سے تھا جو مسلم لیگ کی سیاست کے مخالف تھے۔ مگر وزیر موصوف نے اس سوال کا جواب بھی ٹالتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب وہ اس وقت نہیں دے سکتے ہیں۔
یہ بات ایک بار پھر مورخ گیان پانڈے کی دلیل کو تقویت دیتی ہے کہ ہندوستانی قوم کا کور اکثرت ہندو طبقہ ہی ہے اور اقلیت مسلمان اور دیگر محکوم طبقات کو باہری حاشیہ پر ڈھکیل دیا گیا ہے جہاں ان کو ہر وقت اپنی حب الوطنی اور ملک کے ساتھ وفا داری کا امتحان دینا ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آزادی کے وقت مسلمانوں کو جان بوجھ کر فوج اور پولیس سے باہر کر دیا گیا اور اس وقت سے لے کر آج تک اس نا انصافی کو دور کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔
[email protected]
ملک کی تقسیم نے فرقہ پرستوں کا کام بڑا اسان بنا دیا۔ ملک کی تقسیم کے لیے بھارت میں مسلم لیگ (مسلمان) کو قصور وار قرار دے دیا گیا۔ اس پروپگنڈے کو پھیلانے میں سیکولر جماعت کانگریس آگے تھی کیونکہ اس سے اس کی کمیاں ڈھکی جا سکتی تھیں۔ یہ وہی گوشہ تھا جہاں سیکولر اور کمیونل کا فرق مٹ جاتا تھا۔ بعد کے دنوں میں سرکاری پروپگنڈے سے ان باتوں کو درسی نصابوں سے لے کر عوام کے ذہنوں تک پھیلا دیا گیا۔ مگر اس کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ رائے عامہ میں مسلمانوں کی شبیہ مسخ کر دی گئی اور آج تک ان کی ملک کے تئیں وفاداری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔