زعیم الدین احمد، حیدرآباد
تمل ناڈو میں انسانیت کو شرمسار کرنے والا ایک واقعہ پیش آیا جس نے سارے بھارت میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔ پچھلے دنوں اس قسم کے واقعات دنیا کے مختلف ممالک میں بھی پیش آئے۔ جارج فلائیڈ کی موت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن جارج فلائیڈ والے واقعہ کے ردعمل میں امریکی عوام نے جس شعور اور سماجی حساسیت کا مظاہرہ کیا اس کا عشر عشیر بھی ہمارے ملک میں نظر نہیں آیا۔کسی بھی زندہ سماج کے لیے یہ ایک انتہائی شرمناک بات ہے۔ ویسے ہمارے ملک میں پولیس ظلم کے واقعات کا رونما ہونا ایک معمول کی بات ہوچکی ہے۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں روزآنہ 5 افراد کی حراست میں موت ہو جاتی ہے۔ اس میں پولیس حراست اور عدالتی حراست دونوں شامل ہیں۔ سال 2019 میں کل 1731 لوگوں کی حراست میں موت واقع ہوئی ہے۔ درحقیقت جرائم کی تفتیش کے دوران تھرڈ ڈگری کے استعمال کو پولیس اپنا بنیادی حق سمجھتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس کے بغیر وہ حقائق تک نہیں پہنچ سکتی۔ پولیس نے کبھی نکسلائیٹ تحریک کے نام پر دیہی اور قبائلی عوام کے ساتھ اس ظلم کو روا رکھا تو کبھی دہشت گردی کے نام پر ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے اس رویےکے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں ہر موقع پر اپنی آواز اٹھاتی رہی ہیں۔تمل ناڈو میں پیش آئے تازہ ترین واقعہ نے پولیس کے ظلم اور بربریت کی ایک نئی داستان رقم کردی ہے۔ ایک باپ اور بیٹے پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلسل دو روز تک ان کے ساتھ یہ تشدد جاری رہا۔ ان پرپہلے دن مسلسل تین گھنٹوں تک اتنی لاٹھیاں برسائیں گئیں کہ ان کی پیٹھ سے خون نکل آیا پھر ان کے مقعد میں لوہے کی سلاخیں یا لاٹھیاں ڈالی گئیں جس کے سبب مستقل خون رستا رہا۔ کسی مہذب سماج میں اس طرح کے تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی،اس طرح کی حرکتیں شاید جانوروں سے بھی سرزد نہیں ہوتیں۔آخریہ کیسا وحشی پن ہے کہ تفتیش کے نام پر انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جائے، اس بربریت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔حقوق انسانی کی تنظیموں اور سماجی تنظیموں کو اس کا سخت نوٹ لینا چاہیے اور اس کے خلاف پرزور آواز اٹھانی چاہیے۔
2011 کے دوران چھتیس گڑھ میں پیش آئے واقعہ نے بھی پولیس کی کارروائی پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے تھے۔ حکومت نے اس کی جامع جانچ کے لیے اس کو سی بی آئی کے حوالے کیا تھا۔ ساڑھے پانچ سال کی تحقیق کے بعد سی بی آئی نے ایک ایسی چونکا دینے والی رپورٹ پیش کی جس سے پولیس کی بربریت آشکار ہوتی ہے۔
سی بی آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مارچ 2011 میں چھتیس گڑھ کے تڈمتلا گاؤں میں جو 160 مکانات جلائے گئے تھے وہ سیکیورٹی فورسز کا کام ہے جب کہ ریاستی پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ کام نکسلیوں نے کیا ہے۔
جسٹس مدن بی لوکور کی سربراہی میں قائم کردہ بنچ کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ، سی بی آئی نے کہا کہ ’’پولیس آپریشن کے دوران تڈمتلا گاوں میں 160 گھر مکمل طور پر جلا دیےگئے تھے‘‘ وہ سانحہ پولیس ہی کی کارکردگی کا نتیجہ تھا۔ اس نے آٹھ خصوصی پولیس افسران (ایس پی او) پر چارج شیٹ دائر کی۔
سی بی آئی نے سلوا جوڈم کے 26 ارکان پر بھی چارج شیٹ دائر کی کیونکہ اس گروپ نے سوامی اگنی ویش کے قافلے پر حملہ کیا جب کہ وہ امداد فراہم کرنے کے لیے دیہات تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
نکسل ازم سے لڑنے کے لیے چھتیس گڑھ کی حکومت نے قبائلی نوجوانوں پر مشتمل ایک گروہ تشکیل دیا تھااسی کو سلوا جوڈم کہا جاتا ہے۔ انہیں ہتھیار بھی فراہم کیے گئے۔ سلوا جوڈم کے ممبران کو ریاستی حکومت نے مبینہ طور پر مکمل چھوٹ دے رکھی تھی حالاں کہ وہ مبینہ طور پر عصمت دری کے کئی واقعات میں ملوث پائے گئے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی کوئی مقدمہ درج کیا گیا۔5 جولائی 2011 کو سپریم کورٹ نے اس گروہ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کو ختم کرنے کا حکم دیا۔درحقیقت اس جیسی پولیس کارروائیوں سے انسانیت پامال ہورہی ہے اور پولیس پر سے عوام کا رہا سہا اعتماد ختم ہورہا ہے۔ وہ انہیں اپنا محافظ سمجھنے کے بجائے اس سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے مختلف تنظیمیں اور ادارے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ پولیس محکمے میں اصلاحات کی جائیں لیکن ابھی تک اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس محکمے میں اصلاحات کرے اور مہذب معاشرے میں پولیس کو کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اس کی تربیت دے۔ ہمارے ملک کی پولیس میں ابھی بھی وہی برطانوی پولیس ایکٹ کا نظام ہی جاری ہے جو کسی پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے ہے نہ کہ قانون کو نافذ کرنے کے لیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے سارے کالے قوانین کو یکسر ختم کرکے ایسے قوانین مدون کرے جس میں شہریوں کے عزت و وقار کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہو۔
آخریہ کیسا وحشی پن ہے کہ تفتیش کے نام پر انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جائے، اس بربریت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔