پرسکون اجتماعی زندگی کے لیے داخلی ماحول کی اصلاح ضروری
اندرونی برائیاں انسانی وجود کو کھوکھلا بناتی ہیں
ڈاکٹر احمد عروج مدثر، آکولہ
کتنی عجیب بات محسوس ہوتی ہے کہ ایک گھر میں یا ایک ہی فیملی کے افراد اپنے اہل خانہ کے لیے ایسا رویہ اختیار کریں کہ ہر کوئی insecure ہوکر اپنے شب و روز گزارے ۔ ہر ایک کو ڈر ہو کہ مجھ سے کوئی غلطی نہ ہوجائے اور میں ہدف تنقید نہ بن جاؤں۔ بے تکلفی بالکل ختم ہوجائے ۔ ہر ایک سوچ سوچ کر الفاظ کا استعمال کریں ۔ محتاط گفتگو، محتاط رویہ، محتاط انداز ۔۔۔۔ یہ منظر کسی گھر میں نظر آئے تو کتنا عجیب محسوس ہوگا ۔
دراصل یہ المیہ ہے کہ ایسے مناظر ہمیں جگہ جگہ دکھائی دے رہے ہیں ۔ ازدواجی زندگی کا عالم بھی یہی ہے ۔ کاروباری زندگی بھی ایسے ہی گزر رہی ہے ۔ نیز سماجی زندگی کا بھی یہی حال ہے ۔ یہ تکلیف دہ صورتحال داخلی ماحول کے بگاڑ کا سبب ہے ۔ اس لیے داخلی ماحول کی تربیت کے بغیر انفرادی و اجتماعی زندگی میں سکون و اطمینان، excitement ،ولولہ وجوش، سرگرمی محسوس کرنا اور پیدا کرنا ممکن نہیں ہے۔
جب ہم داخلی کہتے ہیں تو یہ انفرادی و اجتماعی ماحول کی وہ کمزوریاں ہوتی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے ۔ یہ کمزوریاں کسی فرد واحد میں بھی ہوسکتی ہے یا اجتماعی زندگی کے کچھ افراد میں بھی پائی جاسکتی ہے ۔ ہر دو صورت میں ان کمزوریوں کی وجہ سے داخلی ماحول تعفن ذدہ ہوجاتا ہے اگر فرد واحد میں کمزوریاں ہوتو وہ دھیرے دھیرے اپنے حلقہ اثر کو متاثر کرتا ہے اور اپنے ناپاک جڑوں کو مضبوط کرتا چلاجاتا ہے اور اگر کچھ افراد میں یہ کمزوریاں موجود ہوتو یہ گروہ اجتماعی ماحول کے لیے زہرِ ہِلاہل ثابت ہوتا ہے جس کا تریاق وقت مناسب پر نہ کیا جائے تو اجتماعی ماحول کو منتشر ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ مولانا ابوالاعلی مودودیؒ تنقیحات میں لکھتے ہیں کہ’’اصلاح اور انقلاب دونوں کا مقصد کسی بگڑی ہوئی حالت کا بدلنا ہوتا ہے لیکن دونوں کے محرکات اور طریق کار میں اساسی فرق ہوا کرتا ہے۔ اصلاح کی ابتدا غور وفکر سے ہوتی ہے ۔ ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچ بچار کر کے انسان حالات کا جائزہ لیتا ہے ۔ خرابی کے اسباب پر غور کرتا ہے ،خرابی کے حدود کی پیمائش کرتا ہے، اس کے ازالہ کی تدبیریں دریافت کرتا ہے اور اس کو دور کرنے کے لیے صرف اس حد تک تخریبی قوت استعمال کرتا ہے ، جس حد تک اس کا استعمال ناگزیر ہو۔ بخلاف اس کے انقلاب کی ابتداء غیظ وغضب اور جوش انتقام کی گرمی سے ہوتی ہے ۔ خرابی کے جواب میں ایک دوسری خرابی مہیا کی جاتی ہے ، جس بے اعتدالی سے بگاڑ ہوا تھا اس کا مقابلہ ایک دوسری بے اعتدالی سے کیا جا تا ہے، جو برائیوں کے ساتھ اچھائیوں کو بھی غارت کر دیتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات ایک اصلاح پسند کو بھی وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جوایک انقلاب پسند کرتا ہے ۔ دونوں نشتر لے کر جسم کے ماؤف حصہ پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ مگر فرق یہ ہے کہ اصلاح پسند پہلے اندازہ کر لیتا ہے کہ خرابی کہاں ہے اور کتنی ہے پھر نشتر کو اس حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک خرابی کو دور کر نے کے لیے ضروری ہے اور نشتر کے ساتھ مرہم بھی تیار رکھتا ہے ۔لیکن انقلاب پسند اپنے جوش غضب میں آ نکھیں بند کر کے نشتر چلاتا ہے ،اچھے برے کا امتیاز کے بغیر کاٹتا چلا جاتا ہے، اور مرہم کا خیال اگر اس کے دل میں آ تا ہے تو اس وقت جب خوب قطع برید کر لینے اورجسم کے ایک اچھے خاصے حصے کو غارت کر چکنے کے بعداسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ ( تنقیحات صفحہ 129)
یوں تو ہم فرد کے اندرونی ماحول کا جائزہ اس اعتبار سے لے نہیں سکتے کہ اس کا دل کیسا ہے کیونکہ اس کیفیت کو صرف الله رب العالمین ہی جان سکتے ہیں لہٰذا عمومی اور مشاہدہ میں آئی کیفیات کا ہی تذکرہ کرنا مناسب ہے ۔ جو داخلی تربیت کے متقاضی نظر آتے ہیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانی طبائع کو جہاں گونا گوں صفاتِ عالیہ سے نوازا ہے وہاں اُس میں کچھ کوتاہیاں بھی رکھ دی ہیں،جو اُس کے بشر ہونےکی دلیل ہیں۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو ان خامیوں کے اِدراک کی صلاحیت بھی بخشی ہے اور دور کرنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے۔ اِنسانی شعور ان کو محسوس کرسکتا ہے اور اسباب کو تلاش کرکے علاج بھی کرسکتا ہے۔ یہ خامیاں جسمانی، روحانی قسم کی ہیں جو نفسیات واخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں، کچھ کو بدلنا انسان کے اختیار میں نہیں، کچھ پر کم وقت اور کم محنت صرف ہوتی ہے اور کچھ اَخلاقی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو خود بخود ختم نہیں ہوتیں بلکہ باقاعدہ محنت کرکے ہی ان کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔ ذیل کی سطروں میں انہی چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے ۔
1) حسد :
حسد کا مطلب ہے کہ ’’کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی نعمت اور خوش حالی دور ہوکر اسے مل جائے۔‘‘حاسد وہ ہے جو دوسروں کی نعمتوں پر جلنے والا ہو۔ وہ یہ نہ برداشت کرسکے کہ اللہ نے کسی کو مال، علم، دین، حسن ودیگر نعمتوں سے نوازا ہے۔ بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آپہنچتی ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آجاتاہے۔ اس کی کیفیات کا اظہار کبھی اس کی باتوں سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا عمل اندرونی جذبات و اِحساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ حسد کو حاسد جب کھلم کھلا ظاہر کرنے لگے تو اس سے پناہ مانگنے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے ۔ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدٍ (الفلق:۵) ۔ ’’(میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے۔‘‘
جب ہم حسد کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برابری کی خواہش حسد کا ایک بڑا سبب ہے ۔
انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند وبرتر رہنا چاہتا ہے۔جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے تاکہ ہم دونوں برابر ہوجائیں۔ یہ حسد کی بنیادی علت ہے۔ حسد عموماً ہمسر اور ہم پلہ اَفراد میں ہوتا ہے۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔ حاسد اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ نعمت جو دوسرے کو عطا کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں ہوں۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اور اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔
تنگ دلی:
دل کی تنگی بھی اسباب حسد میں سے ہے۔ بعض اوقات نہ تو انسان میں تکبر ہوتا ہے اور نہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے، لیکن جب اس کے سامنے کسی پر اللہ کے انعام یا احسان کا تذکرہ کیا جائے تو اسے یہ بات بری معلوم ہوتی ہے اورجب کسی شخص کی بدحالی یا مصیبت کا تذکرہ کیا جائے تو اُسے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لوگوں کی بدحالی اُسے بھلی لگتی ہے اور خوشحالی اُسے غمگین کردیتی ہے۔
اِجارہ داری کا خبط:
غرور و تکبر میں مبتلا شخص ہر چیز پراپنی اجارہ داری سمجھتا ہے۔ خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر کوئی اور انسان اس کے برابر آجائے تو وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بڑا نہ ہوجائے یا اگر اُس سے کم حیثیت کا شخص اس کے برابر آجائے یا اس سے آگے بڑھ جائے تو وہ اس کی بلندی کو برداشت نہیں کر پاتا اور حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اُسے اپنی حیثیت و مقام کھو جانے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے۔ مشرکین مکہ کا رسول اللہﷺ سے حسد اسی نوعیت کا تھا۔
علم وفن میں برتری کی خواہش:
بعض اوقات انسان اپنے فن، علم، حیثیت، عہدے، دین اور صلاحیتوں میں ممتاز ہوتا ہے، اور جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور جگہ اس کی طرح کا ایک اور شخص موجود ہے تو اس کے دل میں حاسدانہ جذبات نمو پانے لگتے ہیں۔
بغض :
بغض و عداوت بھی حسد کی وجہ بن جاتی ہے۔ انسان کسی کے خلاف دل میں غصہ یادشمنی پال لے اور اس کو ختم کرنے پر آمادہ نہ ہو تو وہ کینہ بن جاتا ہے۔ اس سے انتقام کا جذبہ جنم لیتا ہے اور حضرت انسان کو اپنے دشمن کا نقصان اور مصیبت اچھی لگتی ہے اور دشمن کو ملنے والی نعمت یا بھلائی اُسے بری لگتی ہے اور وہ اس کے ختم ہوجانے کی آرزو کرتا ہے اور یہی تو حسد ہے۔ گویا عداوت، کینہ اور حسد لازم و ملزوم ہیں۔
2) منفی سوچ کا غلبہ :
انسان کی زندگی کا ہر زاویہ اس کی سوچ ہی سے جنم لیتا ہے ۔ اسی سوچ سے انسانی جذبات پروان چڑھاتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر انسان کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جیسی سوچ قائم کی جاتی ہے ویسے ہی مناظر سامنے آتے ہیں ۔ مناظر یا افراد کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ نظر جب بن جاتا ہے تو پھر نظر خوبیوں پر کم اور خامیوں پر زیادہ جاکر رکتی ہے ۔ عمومی طور پر کبھی کبھی ہم اپنے داخلی ماحول میں کچھ افراد کے متعلق بعض غلطیوں کی وجہ سے مستقل منفی زوایہ نظر بنا لیتے ہیں جس کے بعد منفی سوچ کا غلبہ ہمارے رویہ، گفتگو نیز، معاملات کو متاثر کردیتا ہے ۔ لیکن بعض دفعہ بغیر غلطیوں کے بھی صرف سنی سنائی باتوں کی وجہ سے ہم اپنا منفی زاویہ نظر بنالیتے ہیں ۔ یہ کیفیت دراصل ایک دھندلے چشمے کی طرح ہے ۔ جب دھندلے شیشے آنکھوں پر لگے ہوتو منظر ہو یا شخص صاف دکھائی نہیں دیتا صرف غلطیاں تلاش کرنے والی نظروں پر دھندلے شیشے لگے ہوتے ہیں ایسی نظریں اپنی ذات سے غافل ہوتی ہے کچھ لوگ حادثاتی طور پر دھندلے شیشے لگاتے ہیں اور کچھ ذہنی مریض ہوتے ہیں ۔ ذہنی مریض اس اعتبار سے کہ ایسے لوگوں کے ذہن پر منفی سوچ کا غلبہ ہوتا ہے ۔ جبکہ مثبت سوچ انفرادی و اجتماعی ماحول کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مثبت سوچ کے حامل افراد ہی اصلاح کا عظیم کارنامہ انجام دیتےہیں کیونکہ جن کی سوچ منفی ہوتی ہے وہ اصلاح نہیں کرسکتے ۔
3) عزت نفس کا خیال نہ رکھنا :
یوں تو ایک مومن دوسرے مومن کی عزت تو کرتا ہی ہے لیکن عزت نفس کا خیال رکھنے کا مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے یا وہ ایسی بات کہہ دے جو موقع و محل سے مناسبت نہ رکھتی ہو یا اجتماعی زندگی میں اختلاف رائے یا کسی قسم کا conflict پیدا ہوجائے ۔ ایسے حالات میں عزت نفس کا لازماً خیال رکھنا چاہیے ۔ ہمارے گھر ، آفس ، سماج یا پھر تحریکات کے داخلی ماحول کی اصلاح کے لیے افراد کی عزت نفس کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے ان کی غلطیوں پر پورے اخلاص کے ساتھ حکیمانہ انداز سے بات کرنا چاہیے۔ اگر مصلح کا انداز مربیانہ، مشفقانہ اور حکیمانہ نہ ہوتو پھر غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ غلطیوں پر اصرار یا بغاوت کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے طریقہ کار کا کرب ناک پہلو یہ ہے کہ ہم اصلاح کے مربیانہ مشفقانہ و حکیمانہ پہلوؤں کو دوسروں کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن داخلی ماحول میں اس کا اطلاق نہیں کرتے ۔عزت نفس کا خیال نہ رکھنے کی ایک اور وجہ اپنی ذات پر غرور و تکبر بھی ہے ۔
4) لوگوں کے مزاجوں کو قبول نہ کرنا :
ہر فرد کا مزاج مختلف ہوتا ہے ۔ وہ اپنی نمو اپنے مزاج کے مطابق کرتا ہے فطرتاً جو مزاج انسان کا develop ہوجاتا ہے اس کو عمومی طور پر بدلنا ممکن نہیں ہوتا لہٰذا ہمیں لوگوں کو ان کے مزاج کے ساتھ قبول کرنا ضروری ہے ۔ ایک گھر میں والدین اور بچوں کے مزاج مختلف ہوسکتے ہیں ۔ شوہر اور بیوی کا مزاج مختلف ہوسکتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح تحریکات و تنظیموں میں جڑنے والے افراد کے بھی الگ الگ مزاج ہوتے ہیں ۔ اپنا مزاج لوگوں پر تھوپنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم لوگوں کے مزاج کو قبول کریں ۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح ہی سوچا جائے، انہیں جو پسند ہے ویسا ہی کیا جائے، یا انہوں نے جو رائے دی ہے اُسے فوراً قبول کرلیا جائے یہ مزاج داخلی ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ایسے مزاج کی اصلاح ہر فرد کو کرنا چاہیے تاکہ ہمارے اپنے داخلی ماحول کی اصلاح ہوسکے ۔
5) تحمل و بردباری کی کمی :
انفرادی و اجتماعی زندگی میں اپنے ماحول کی اصلاح کے لیے تحمل، برداشت اور بردباری کی بہت اہمیت ہے ۔ انسان کا نفس امارہ دراصل مزاج کے خلاف باتوں کو، قبول کرنے تیار نہیں ہوتا ۔ وہ بغاوت اور درعمل پر اکساتا ہے ۔ ایسے حالات میں تحمل، برداشت وہ وصف عالیہ ہے جو فی نفسہ فرد کو رسوائی و ندامت سے بچاتا ہے ساتھ ہی ہر طرح کے داخلی ماحول (خواہ معاشرتی ہو یا تنظیمی) کے لیے مناسب ہوتا ہے ۔ داخلی ماحول کی اصلاح کے لیے برداشت و تحمل کی غیر معمولی اہمیت ہے ۔ لیکن یہ بات بھی ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ تحمل و برداشت کا تقاضا یک طرفہ نہ کریں اگر ہم پرسکون، ولولہ انگیز ، انقلاب آفرین، respectful ماحول بنانا چاہتے ہیں تو یہ وصف عالیہ دونوں جانب اختیار کرنا ضروری ہوگا ۔
داخلی ماحول کی اصلاح کے لیے ان اسباب کے ساتھ ساتھ مزید غور و فکر کرنا چاہیے کہ ایسے کون کون عوامل ہیں جو تربیت کی راہ میں مانع بنے ہوئے ہیں ۔ دراصل انفرادی و اجتماعی ماحول کی داخلی اصلاح کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو باقی رہے تو اندرونی طور پر مکمل وجود کو کھوکھلا کردیتی ہے ۔ ایک تناور درخت اندرونی طور پر کھوکھلا ہوجائے تو وہ ایک تیز ہوا کا جھونکا بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ اگر ہمارا داخلی ماحول خواہ معاشرتی زندگی سے ہویا تحریکی زندگی سے متاثر ہوجائے اور اس کی بروقت اصلاح نہ کی جائے تو اسے اپنے مقصد سے غافل ہوجانے میں دیر نہیں لگتی پھر ہم مقاصد کے حصول کے لیے کم مسائل کے حل کے لیے تگ ودو کرتے رہتے ہیں ۔ جبکہ عظیم مقاصد کے حامل لوگ مقاصد کے حصول کے لیے زندگی گزارتے ہیں ۔ ان کے سامنے مسائل مانع نہیں بنتے ۔ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں اپنے داخلی وجود نیز مقاصد کے حصول کی جستجو کی مثال حضرت یوسفؑ کی سیرت میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
***
***
ایک گھر میں والدین اور بچوں کے مزاج مختلف ہوسکتے ہیں ۔ شوہر اور بیوی کا مزاج مختلف ہوسکتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح تحریکات و تنظیموں میں جڑنے والے افراد کے بھی الگ الگ مزاج ہوتے ہیں ۔ اپنا مزاج لوگوں پر تھوپنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم لوگوں کے مزاج کو قبول کریں ۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح ہی سوچا جائے، انہیں جو پسند ہے ویسا ہی کیا جائے، یا انہوں نے جو رائے دی ہے اُسے فوراً قبول کرلیا جائے یہ مزاج داخلی ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021