پانچ دہائیوں سے بھی پرانی ہے آبادی کی سیاست
آسام:ہندو خطرے میں نہیں، سیاسی لیڈروں کی ساکھ داؤ پر
بڑھتی آبادی نہیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ترقی کی راہ میں روڑا ہے
آج کل ملک میں ’حب الوطنی‘ کا لبادہ اوڑھے رہنے کا چلن بہت زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت کی غلط اور ناکارہ پالیسیوں پر سوال اٹھانے کا مطلب آپ غدار وطن قرار دیے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ’دیش بھکتی‘ کسے کہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اپنے ملک کی خاطر جان ومال قربان کرنے، اس کی عزت وناموس کے لیے جدوجہد کرنے اور ملک کا نام روشن کرنے کی تگ ودو میں لگے رہنے کو ‘حب الوطنی‘ کہا جانا چاہیے۔ 15؍ اگست 2019 میں پی ایم مودی نے ’حب الوطنی‘ کی ایک نئی تعریف لا کر رکھ دی۔ ان کے مطابق چھوٹا خاندان ‘حب الوطنی کی نشانی‘ ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے جب محب وطن کا نیا پتہ دے دیا تو پھر کیوں کر بہتر وسائل کی فراہمی، تعلیم وروزگار کی فراہمی اور غربت وافلاس کی بیخ کنی کے حوالے سے غور وفکر ہو؟
یوں تو ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام تقریباً 45 سال سے بھی زیادہ پرانا ہے، کہا جاتا ہے کہ 1975 میں ایمرجنسی کے دوران لوگوں کو زبردستی بسوں سے اتار کر ان کی نس بندی کی گئی تھی۔ اس وقت شہری، انسانی اور باقی تمام طرح کے حقوق بالائے طاق رکھ دیے گئے تھے۔ دیکھا جائے تو جمہوریت میں سارا کھیل تعداد کا ہے اور اسی سیاسی کھیل کا شکار ملک کے باشندے بنتے آئے ہیں۔ حال ہی میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے دو بچہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کی بعض فلاحی اسکیموں کا فائدہ انہی لوگوں کو مل سکے گا جن کے صرف دو بچے ہیں۔ واضح ہو کہ آسام اسمبلی نے ستمبر 2017ء میں ‘ٹو چائلڈ پالیسی‘ کی منظوری دی تھی۔ اس پالیسی میں چھوٹے خاندانوں کی حوصلہ افزائی کی بات کی گئی ہے۔ اس پالیسی کے مطابق حکومتی ملازمتوں کے لیے ایسے افراد نااہل قرار دے دیے جائیں گے جن کے بچوں کی تعداد دو سے زیادہ ہو گی۔ دوسری طرف اتر پردیش میں لا کمیشن کے چیئرمین نے بھی آبادی کی وجہ سے ریاست میں بعض مسائل پیدا ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی کے رکن پارلیمان راکیش سنہا نے 2019 میں ‘ٹو چائلڈ پالیسی‘ کے حوالے سے ایک پرائیویٹ ممبر بل پارلیمان میں پیش کیا تھا۔ اس بل میں بلدیاتی اداروں سے لے کر غریبوں کو سستے سرکاری راشن دینے کے ساتھ دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ تاہم یہ بل منظور نہیں ہو سکا۔ وہیں دلی میں بی جے پی ترجمان اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کے چین کی طرز پر ہی بھارت میں ٹو چائلڈ پالیسی نافذ کرنے کی درخواست دی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق 1992ء میں بھارتی آئین میں 73ویں ترمیم میں خاندان کو دو بچوں تک محدود رکھنے کی بات کہی گئی تھی۔ تاہم اس قانون کے نفاذ کا اختیار صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ دو بچوں کی حد کے حوالے سے سپریم کورٹ نے 2018 میں مفاد عامہ کے تحت دائر کردہ ایک درخواست مسترد کر دی تھی۔
اس وقت راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے دو بچوں کا قانون موجود ہے جب کہ تلنگانہ، آندھرا پردیش، اتر اکھنڈ، کرناٹک اور اڈیشہ میں تو دو سے زائد بچوں والے شہریوں کے مقامی اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہائیوں سے ملک کے شہریوں میں یہ ڈر پیدا کیا جاتا رہا ہے کہ عنقریب مسلمان تعداد میں زیادہ ہو جائیں گے تو ملک کی باگ ڈر مسلمانوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ خاص طور پر آسام کے حوالے سے دیکھا جائے تو 2011ء کی مردم شماری کے مطابق آسام کی مجموعی آبادی تین کروڑ 11 لاکھ 69 ہزار تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 67 لاکھ نو ہزار تھی۔ یعنی مسلمانوں کی آبادی ریاست کی کل آبادی کی ایک تہائی سے زیادہ 34.22 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 33 اضلاع میں سے نو میں وہ اکثریت میں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آبادی میں اضافے کے دعووں کے برعکس آسام میں آبادی کی شرح میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 16-2015 کے مطابق گزشتہ دہائی میں آسام میں شرح پیدائش میں کمی کا رجحان دیکھا گیا تھا۔ 06-2005 میں ‘فرٹیلیٹی ریٹ‘ 2.4 تھا جو 16-2015 میں کم ہو کر 2.2 ہو گیا۔
آسام میں آبادی میں اضافے کی شرح قومی شرح پیدائیش سے کم ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق 2001 اور 2011 کے دوران آبادی میں اضافے کی قومی شرح 17.64 تھی جب کہ آسام میں یہ شرح 16.93 فیصد تھی۔
لیکن پھر بھی بی جے پی اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کے لیے غیر مسلموں میں مسلمانوں کے تئیں ڈر اور خوف پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اسی خدشہ کے پیش نظر بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنی ایک کتاب The Population Myth: Islam, Family Planning and Politics in India میں آبادی کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اخبار ’قومی آواز‘ نے 25 جون 2021 کو ایس وائی قریشی کی کتاب سے ایک اقتباس نقل کیا ہے: ”ساٹھ برسوں میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً چار فیصد تک کم ہوئی ہے جو دوسرے مذاہب میں تقسیم ہو گئی۔ مسلمانوں میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ساٹھ برس میں چار فیصد آبادی بڑھی تو اس حساب سے آبادی کو 40 فیصد بڑھنے میں چھ سو برس لگیں گے تب جاکر مسلمان بھارت کی آبادی کا پچاس فیصد ہو پائیں گے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ فیملی پلاننگ کے طریقے نہ اپنائیں۔ یعنی جو لوگ روزانہ یہ خوف دکھاتے ہیں کہ جلد ہی مسلمانوں کا ملک پر قبضہ ہوجائے گا ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ملک کی بعض دیگر ریاستیں آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے ‘تادیبی‘ اقدامات کے منصوبے بنارہی ہیں وہیں دوسری طرف ملک کی شمال مشرقی ریاست میزورم میں نوجوانوں کے امور، اسپورٹس اور سیاحت کے وزیر رابرٹ روماویا روئٹے نے گزشتہ دنوں باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے انتخابی حلقے میں سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو فی کس ایک لاکھ روپے نقد انعام کے طور پر دیں گے اور سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے مرد یا عورت کو ایک سند اور ٹرافی بھی دی جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ’میزورم میں آبادی کا تناسب صرف 52 افراد فی مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2018 کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی آبادی کا قومی اوسط 454 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی 10,91,214 تھی۔ یہ ملک کی دوسری سب سے کم گنجان آبادی والی ریاست ہے۔ سب سے کم ترین گنجان آبادی والی ریاست اروناچل پردیش ہے جہاں فی مربع کلومیٹر 17 افراد آباد ہیں‘۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک میں دو بچہ پالیسی (two child policy) کا نفاذ ہو جائے تو کہیں میزورم جیسی صورت حال نہ پیدا ہو جائے کیوں کہ معاشرے میں پہلے سے ہی فیملی پلاننگ کا چلن عام ہے۔ آپریشن (Caesarean section) کی وجہ سے ویسے بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ کئی ایسے جوڑے ہیں جنہیں اولاد نصیب نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کے نقصانات کے حوالے سے دیے جانے والے دلائل گمراہ کن ہیں اور جن شعبوں میں دو بچہ پالیسی نافذ ہے وہاں فائدے کے بجائے نقصانات زیادہ ہیں۔
***
ایس وائی قریشی کی کتاب سے ایک اقتباس نقل کیا ہے: ”ساٹھ برسوں میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً چار فیصد تک کم ہوئی ہے جو دوسرے مذاہب میں تقسیم ہو گئی۔ مسلمانوں میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ساٹھ برس میں چار فیصد آبادی بڑھی تو اس حساب سے آبادی کو 40 فیصد بڑھنے میں چھ سو برس لگیں گے تب جاکر مسلمان بھارت کی آبادی کا پچاس فیصد ہو پائیں گے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ فیملی پلاننگ کے طریقے نہ اپنائیں۔ یعنی جو لوگ روزانہ یہ خوف دکھاتے ہیں کہ جلد ہی مسلمانوں کا ملک پر قبضہ ہوجائے گا ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021