پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

ریاضی داں گیری ملر کا قبول اسلام کلام الٰہی میں خامیاں نکالنا چاہتے تھےلیکن قرآن کےانداز بیان نے گرویدہ بنالیا

جعفر تابش ،جموں و کشمیر

ہمارے بڑے بزرگ اکثر موقعوں پر ایک بات دہراتے نظر آتے ہیں کہ ” ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے”
اور پھر جب ہم ﷲ کی اس وسیع وعریض دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں جنہیں دیکھ کر ﷲ پر ہمارا ایمان بڑھ جاتا ہے۔اﷲ نے جب حضرت محمدﷺپر قرآن مجید کو نازل فرمایا تو پہلا لفظ اقرا تھا جس کے معنی ہیں ’’پڑھو‘‘ مسلمانوں کو سب سے پہلے پڑھنے اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ وہ اپنے آپ کو دیکھیں اپنے آس پاس کو دیکھیں غور وفکر کریں اور اپنے خالقِ حقیقی کو پہچانیں۔اور پھر جب انسان علم حاصل کر لیتا ہے تو اپنے آس پاس موجود بہت ساری چیزوں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔کچھ چیزیں اس کی عقل وفہم کے مطابق اسے سمجھ آجاتی ہیں اور کچھ چیزوں کو وہ Natural Phenomenon کہہ کر ان سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔
دنیا کی تمام کتابوں کے مصنفین اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دیتے ہیں کہ اگر پڑھنے والوں کو اس کتاب کے اندر کوئی خامی یا غلطی نظر آئے تو وہ مصنف یا شائع کرنے والے ادارے کو مطلع کریں تاکہ اگلے شمارے میں اسے درست کیا جا سکے۔لیکن اب ہم بات کریں گے ایک ایسی کتاب کی جس کے بارے میں ایک ذی شعور شخص کا خیال تھا کہ اس کتاب میں محمدﷺ کے بارے میں چند باتیں اور عرب کے ریگستانوں کی چند کہانیاں ہوں گی۔ سو اس نے اس کتاب میں خامیاں ڈھونڈنے کے لیے اسے پڑھنا شروع کیا تاکہ وہ ان خامیوں کو اس کتاب کے ماننے والوں کے سامنے ہیش کرے اور ان سے جواب طلب کرے۔
غور طلب بات یہ کہ اس شخص نے ایسا پہلی بار نہیں کیا تھا بلکہ کئی بار اس نے انجیل (Bible) کی عبارتوں پر بھی سوال کھڑے کیے تھے۔ جب کہ وہ خود بھی 15 سال سے کرسچین مشنری کے طور پر عیسائیت کو اپنی خدمات فراہم کر رہا تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ شخص کون ہےاور یہ کتاب کون سی ہے؟ دراصل یہ شخص مشہور ریاضی دان Garry Miller ہے۔ جس نے کینیڈا میں ایک رومن کیتھولک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 1977 میں گیری ملر نے قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا تاکہ اس میں بھی چند خامیاں نکال سکے۔ 1977 میں گیری ملر اور مشہور مبلغ اسلام احمد دیدات کے درمیان ایک مشہور مباحثہ ہوا۔
اپنی مشہور کتاب The Amazing Quran میں گیری ملر نے لکھا ہے کہ جب اس نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا تو پہلی آیت جس نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا وہ سورہ البقرہ کی یہ آیت تھی۔
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾
"اگر تمھیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے ، یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک سورت ہی بنا لاؤ ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو ، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو ، مدد لےلو ، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ” (2:23)
گیری ملر اپنی زندگی میں پہلی ایسی کتاب دیکھ رہا تھا جس میں مصنف پڑھنے والوں کو یہ چیلنج دے رہا تھا کہ وہ اس کتاب میں کوئی غلطی نکال کر دکھائیں۔اور پھر جب وہ قرآن کا مطالعہ کرتے کرتے سورہ نساء پر پہنچے تو ان کی حیرانگی اپنی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔قرآن کی جو آیت اس وقت ان کی نظر سے گزری وہ سورہ النساء کی یہ آیت تھی۔
اَفَلَا یتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا ﴿۸۲﴾
"کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی” (4:82)
گیری ملر کے بقول انہیں شک تھا کہ قرآن میں محمد کی ذاتی زندگی کے بارے میں لکھا ہوگا لیکن ان کا یہ گمان اس وقت غلط ثابت ہوا جب انہیں قرآن میں حضرت مریم کے نام سے ایک مکمل سورت تو ملی لیکن حضرت فاطمہ یا حضرت عائشہ کے نام سے کوئی سورت نہیں ملی۔گیری ملر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہیں قرآن کے اندازِ بیان نے بے حد متاثر کیا۔
اور پھر ان آیات کے بعد ان کے لیے ہدایت کا راستہ اس قدر آسان ہوتا گیا کہ 1978 میں انہوں نے اسلام قبول کر کیا۔
احمد دیدات کے ساتھ 1977 کے مشہور مباحثے کے بعد لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو یقین تھا کہ گیری ملر اسلام قبول کرلے گا۔
اور پھر ﷲ نے 1978 میں اس بات کو سچ کر دکھایا۔ گیری ملر نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام بدل کر "عبدالاحد عمر” Abdul Ahad Omar رکھ لیا۔
گیری ملر نے 1990 میں کینیڈا کی کوئن یونیورسٹی سے ریاضی (Math) میں Msc کی ڈگری حاصل کی۔ اور پھر 1994 میں پی ایچ ڈی کا امتحان پاس کیا۔
قبولِ اسلام کے بعد کئی سالوں تک کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور پھر سعودی عرب چلے گئے۔
سعودی عرب میں کچھ سال تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو دعوتِ دین کے کام کے لیے وقف کر دیا۔
گیلری ملر ایک کامیاب ریاضی داں کے علاوہ ایک کامیاب مصنف بھی ہیں اور 1992 میں شایع ہونے والی اپنی شاہکار کتاب
"The Amazing Quran”
کے علاوہ کئی مشہور کتابیں قلمبند کر چکے ہیں۔
جن میں مندرجہ ذیل کتب شامل ہیں۔
The Rats are in the cheese 2007
Here comes the son 2014
SUDOKU summer 2016
Talk less pray more 2017
گیلری ملر کے قبولِ اسلام کے پیچھے دراصل ان کی شفاف نیت کار فرما تھی کیونکہ دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں دیگر مذاہب کے لوگ ہیں جو قرآن کا علم رکھتے ہیں لیکن سب اسلام قبول نہیں کرتے۔
گیلری ملر نے بھلے ہی قرآن کا مطالعہ اس نیت سے شروع کیا ہو کہ اس میں خامیاں نکال سکیں لیکن جب انہیں محسوس ہوا کہ حق تو ان کے سامنے آشکار ہو چکا ہے تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔
لیکن آج جب ہم اپنے اوپر ایک سرسری سی نگاہ بھی ڈال لیں تو ہم جان سکتے ہیں کہ آخر ہم کتنا حق کو قبول کرنے والے ہیں۔
ہم بعض دفعہ اپنے فائدے کے لیے حق کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور باطل کو اپنے سینے سے لگا کر پھرنے میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔
بڑے عہدے، بڑی گاڑی، اور بڑے سے گھر کی لالچ میں ہمیں اپنے رب سے انتہا کی دوری اختیار کر لینے میں تھوڑی بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔جب کہ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ:”ہم سب ﷲ کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے” القرآن

***


گیری ملر کی بھلے ہی قرآن کا مطالعہ اس لیے شروع کیا ہو کہ اس میں خامیاں نکال سکے لیکن جب انہیں لگا کہ حق ان کے سامنے ہے تو انہوں نے ایک دم اسے قبول کر لیا۔