زعیم الدین احمد، حیدرآباد
’کانگریس ٹول کٹ‘ تنازع کیا ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کانگریس پارٹی پر ایک ’ٹول کٹ‘ بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ملک کو بدنام کرنا اور وزیر اعظم کی شبیہ کو داغ دار کرنا ہے۔ بی جے پی کے مشہور ومعروف (جنہیں جھوٹ کی مشین بھی کہا جاتا ہے) قومی ترجمان سمبت پاترا نے کہا کہ ٹول کٹ پراپرٹیز سے پتہ چلتا ہے کہ اسے بنانے والی خاتون کوئی اور نہیں بلکہ کانگریس قائد راجیو گوڑا جو تحقیقاتی شعبہ کے ذمہ دار ہیں ان کے لیے کام کرتی ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’دوستو کل کانگریس نے جاننا چاہا کہ ٹول کٹ کا مصنف کون ہے۔ برائے مہربانی ان کاغذات کی خصوصیات کو جانچیں۔ مصنف: سومیا ورما۔ یہ سومیا ورما … کون ہیں؟ یہ کانگریس کے لیے کام کرتی ہیں۔ انہوں نے شواہد کے طور پر کچھ تصاویر بھی ڈالیں اور کہا کہ شواہد اپنے آپ بولتے ہیں۔ کیا سونیا گاندھی اور راہول گاندھی جواب دیں گے؟‘‘
کانگریس نے اس طرح کی کوئی ٹول کٹ بنانے سے صاف انکار کر دیا اور بی جے پی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جعلی ٹول کٹ ہے جسے بی جے پی بنایا ہے۔ پارٹی کےتحقیقی شعبہ نے ایک ٹول کٹ بنایا جو سنٹرل وسٹا پروجیکٹ پر ہے لیکن بی جے پی اسے غلط پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ گوڈا نے کہا کہ ’’پاترا حقیقی ٹول کٹ کا میٹا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے اسے جعلی دستاویز کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ ہم نے سنٹرل ویسٹا پر تحقیقاتی کتابچہ تیار کیا جو حقائق پر مبنی ہے جبکہ کویڈ-۱۹ ٹول کٹ جعلی ہے جسے بی جے پی نے تیار کیا ہے پاترا حقیقی مصنف کا نام بتا کر جعلی دستاویز شیئر کر رہے ہیں‘‘۔
یہ تنازعہ ۱۸؍مئی کو اس وقت شروع ہوا جب کچھ بی جے پی رہنماؤں نے ٹول کٹ اسکرین شاٹ ٹویٹر پر شیئر کیے اور لکھا کہ اس کو کانگریس پارٹی کے ایک تحقیقاتی شعبہ نے تیار کیا ہے جس کی سربراہی راجیو گوڑا کرتے ہیں۔ منگل کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاترا نے مبینہ ٹول کٹ کے مندرجات شیئر کیے جس میں ’مودی نمونہ (اسٹرین)‘ اور ’سپر اسپریڈر کمبھ‘ جیسے فقرے استعمال کیے گئے تھے اور ساتھ ہی وزیراعظم کیرس، وزیر داخلہ امیت شاہ پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ پاترا نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’’دوست وبائی امراض کے دوران ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں کانگریس ٹول کٹ کو دیکھیے! یہ صرف رابطہ عامہ کے کام کے علاوہ اور کچھ نہیں جسے چند دوستانہ صحافت اور کچھ بااثر لوگوں کی مدد کے ساتھ کی گئی ایک بے روح سعی‘‘۔ لیکن اس ٹویٹ کو ٹویٹر نے مینوپلیٹیڈ میڈیا کا ٹھپا لگا دیا یعنی جوڑ توڑ کی صحافت قرار دے دیا۔ یہ ٹھپا اس وقت لگتا ہے جب کوئی جھوٹی یا جعلی تصاویر یا مواد شیئر کرتا ہو۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ ٹویٹر نے پاترا کے ٹویٹ پر اس قسم کا ٹھپا لگایا ہو، اس سے قبل دسمبر ۲۰۲۰ میں کسانوں کے احتجاج کے موقع پر امت مالویہ کے ایک ٹویٹ کو بھی ’’جوڑ توڑ کی صحافت‘‘ کا ٹھپا لگ چکا ہے۔
ایک کے بعد دیگرے بی جے پی قائدین نے اس پر ٹویٹ کیا یہاں تک کہ پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’معاشرے کو تقسیم کرنا اور دوسروں کے خلاف زہر اگلنا… کانگریس اس میں ماہر ہے۔ بھارت کانگریس کی عداوتیں دیکھ رہا ہے جبکہ قوم کوویڈ-19 سے لڑ رہی ہے۔ میں کانگریس سے گزارش کروں گا کہ وہ ’ٹول کٹ ماڈل‘ سے آگے بڑھ کر کچھ تعمیری کام کریں۔‘‘پی یم کیر پر سوال، ماہرین پر شک وشبہ، ویکسین لینے میں ہچکچاہٹ کی حوصلہ افزائی، وینٹیلیٹرس تنازعہ کے موجد۔ تاریخ ان کی کم بختی پر ضرور سوال کرے گی‘‘۔
اس کے جواب میں کانگریس نے کہا کہ بی جے پی جن دستاویزات کے بارے شور وغل مچا رہی ہے وہ ٹول کٹ دستاویزات ’’جعلی‘‘ ہیں اور کانگریس نے ساتھ ہی بی جے پی قائدین نڈا اور ایرانی کے خلاف پولیس میں شکایت درج کی ہے۔ چھتیس گڑھ پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف آئی آر درج بھی کرلیا ہے۔ کانگریس نے اپنی شکایت میں یہ بھی الزام لگایا کہ پاترا نے جعلی سرنامہ (لیٹر ہیڈ) جو کانگریس کے تحقیقاتی شعبہ کا ہے اس کا استعمال کیا ہے۔
یہ دستاویزات دو حصوں میں شیئر کی گئی ہے پہلے چار صفحات کوویڈ-۱۹ ٹول کٹ پر مشتمل ہیں اور دوسرا سنٹرل وسٹا منصوبہ پر تحقیقاتی مطالعہ پر مشتمل چار صفحات ہیں۔ اس مبینہ ٹول کٹ کے ذریعہ سے کانگریس نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ ’سپر اسپریڈر کمبھ‘ کی اصطلاح استعمال کریں اور ‘عید کے اجتماعات پر تبصرہ نہ کرنے اور کوویڈ-۱۹ ایس او ایس پیغامات کا جواب دینے کی تاکید کی ہے اور اگر کوئی فرد یوتھ کانگریس ہینڈل کو ٹیگ کرتا ہے تو اسے لاشوں کے جنازوں کے خوف ناک تصاویر شیئر کرنے کی بات کہی۔ اور ساتھ ہی سوشل میڈیا کارکنوں کو یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ’مودی نمونہ اسٹرین‘ کی اصطلاح کو کوویڈ-۱۹ کا بھارت میں شروع ہونے والی نئی شکل کے لیے استعمال کریں۔دستاویز کا دوسرا حصہ
وزیر اعظم مودی کے سنٹرل وسٹا کے منصوبے کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس حصے میں اس منصوبے کی لاگت پر اس کے موقع پر بات کی گئی ہے۔ اس دستاویز میں سنٹرل وسٹا سے ماحولیات پر ہونے والے منفی اثرات اور اس کی فن تعمیر پر بحث کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’ٹول کٹ‘ پر مذکور سوشل میڈیا حکمت عملیوں کے نفاذ کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے۔
آخر یہ ٹول کٹ ہے کیا چیز ؟ یہ ایک دستاویز ہے جو مستقبل میں کرنے کے کام کے متعلق ہے۔ کیا کرنا ہے کیوں اس کام کی ضرورت ہے اور کیسے کرنا ہے یہ ساری باتیں اس میں درج ہوتی ہیں۔ کوویڈ-۱۹ ٹول کٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر پیغام رسانی کیسے کرنی ہے کیا پیغام ہونا چاہیے وغیرہ اور اس سے متعلق زمینی طور پر کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
وزارت الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی جانب سے ٹویٹر کو ایک خط لکھا گیا جس میں بی جے پی کے ترجمان سمبیت پترا کے ٹویٹ کو ‘جوڑ توڑ کی صحافت’ ٹھپا (ٹیگ) لگانے پر ٹویٹر سے احتجاج کیا گیا۔ بڑے سخت الفاظ میں یہ بات کہی گئی کہ ٹویٹر اس ٹیگ کو فوری طور پر نکال دے۔ وزارت نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے پر اپنا فیصلہ دے جس کی تحقیقات جاری ہوں۔ عالمی مواصلاتی ٹیم کو لکھے گئے اپنے خط میں آئی ٹی وزارت نے کہا کہ ٹویٹر نے اس معاملے میں یکطرفہ طور پر نتیجہ اخذ کیا ہے اور من مانی کرتے ہوئے ’’ٹویٹس اور ان کے مواد کو جوڑ توڑ کی صحافت” کا ٹیگ لگا دیا۔ اس طرح کی ٹیگنگ ’’قبل از وقت متعصبانہ‘‘ عمل کو ظاہر کرتا ہے اور یہ "مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تحقیقات کو متاثر کرنے کی دانستہ کوشش ہے‘‘ وزارت نے مزید کہا کہ یہ کارروائی نہ صرف ٹویٹر کی ساکھ متاثر کرتی ہے بلکہ اس کی غیر جانبدارانہ پالیسی کی حیثیت کو بھی کمزور کرتی ہے۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ بی جے پی اور مودی حکومت صرف اور صرف جھوٹ اور پروپیگنڈے کے سہارے ہی چل رہی ہے۔ اس صفائی کے ساتھ اس کے قائدین جھوٹ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اسے پھیلاتے ہیں جس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ ان کے جھوٹ نے ملک کے وقار کو بین الاقوامی طور پر اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب ان کی حقیقی اور سچے مسائل کو بھی صحیح نہیں مانا جارہا ہے۔ بین الاقوامی صحافت میں تو ان کی ایسی بد نامی ہو رہی ہے کہ ان کے نام کو اسٹرین بھی بنا دیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو کویڈ-۱۹ سے زیادہ مودی اسٹرین نے تباہ کر دیا ہے۔ اب اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
***
مودی حکومت صرف اور صرف جھوٹ اور پروپیگنڈے کے سہارے ہی چل رہی ہے۔ اس صفائی کے ساتھ اس کے قائدین جھوٹ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اسے پھیلاتے ہیں جس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ ان کے جھوٹ نے ملک کے وقار کو بین الاقوامی طور پر اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب ان کی حقیقی اور سچے مسائل کو بھی صحیح نہیں مانا جارہا ہے۔ بین الاقوامی صحافت میں تو ان کی ایسی بد نامی ہو رہی ہے کہ ان کے نام کو اسٹرین بھی بنا دیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو کویڈ-۱۹ سے زیادہ مودی اسٹرین نے تباہ کر دیا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021