وزیر اعلیٰ کے پوسٹرز لگانے پر مقدمہ درج

(دعوت نیوز نیٹ ورک)

اترپردیش کی راجدھانی لکھنو میں ان دنوں پوسٹرز وار چھڑی ہوئی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ میں پرتشدد واقعات کے لیے قصور وار ٹھہرائے گئے ملزمین کے پوسٹرز لگائے جانے کے بعد سیاسی پارٹیاں اس میدان میں کود پڑی ہیں۔
کانگریس کے دو کارکنوں کی جانب سے راجدھانی میں کئی مقامات پر پوسٹرز لگائے گئے ۔ ان میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نائب ، وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کے ساتھ سنگیت سوم، سریش رانا، اومیش ملک ، سنجیو بالیان اور سادھوی پراچی کے فوٹو لگاکر یہ پوچھا گیا ہے کہ ’’جنتا مانگے جواب، ان دنگائیوں سے وصولی کب؟ یہ پوسٹرز کانگریس کے دو کارکن سدھانشو واجپئی اور لالو کنوچیا کے نام سے لگائے گئے ہیں۔ ان میں وزیر اعلیٰ اور ان کے دیگر کابینی رفقا پر دنگا فساد بھڑکانے سمیت دیگر سنگین دفعات میں پہلے سے درج مقدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔
لکھنو پولیس انتظامیہ ان پوسٹرز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پوسٹر لگانے اور چھاپنے والے افراد پر مقدمہ درج کرلیا اورپھرکارکنوں کی گرفتاری بھی عمل آئی۔
کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر اجے کمار للو نے ان پوسٹرز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں غلط کیا ہے یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ قانون ساز اسمبلی کے ممبر ہیں لیکن وہ خود کو جج سمجھ رہے ہیں۔ ان پر بھی دنگے بھڑکانے کا الزام ہے اس لیے سب سے پہلے انہیں اپنا پوسٹر لگانا چاہیے۔ واضح رہے کہ ان پوسٹرز میں شامل سنگیت سوم، سنجیو بالیان اور سریش رانا پر مظفر نگر فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
اس سے پہلے سماج وادی پارٹی لیڈ،ر آئی پی سنگھ بھی بی جے پی کے دو بڑے لیڈروں کے پوسٹرز لگاچکے ہیں۔ ان میں سابق مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ سوامی چنمیا نند اور اناو کے سابق رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگرکے نام شامل ہیں۔ سینگر کو عصمت دری کیس میں سزا ہوچکی ہے جبکہ چنمیاں نند پر عصمت دری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ آئی پی سنگھ کہتے ہیں جب مظاہرین کی کوئی پرائیویسی نہیں ہے اور ہائیکورٹ و سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی یوگی سرکار ملزمین کے ہورڈنگس نہیں ہٹارہی ہے تو میں نے بھی لوہیا چوراہے پر عدالت کے ذریعہ نامزد ملزموں کے پوسٹرز چسپاں کروادیئے تاکہ ہماری بیٹیاں ان سے ہوشیار رہیں ۔ آئی پی سنگھ نے لکھنو ضلع انتظامیہ کی جانب سے لگائے گئے پوسٹرز کے برابر میں پوسٹرز لگائے تھے جنہیں بعد میں ہٹادیا گیا۔ کانگریس کارکنوں کے پوسٹرز لگانے کے بعد پورے علاقے میں سیکوریٹی بڑھادی گئی ہے۔
(سلسلہ صفحہ 3 پر )
(سلسلہ صفحہ 2 سے آگے)
ریاستی حکومت بدلہ پالیسی پر عمل پیرا
ریاستی حکومت سی اے اے، این آر سی و این پی آر کی مخالفت کرنے والے مظاہرین پر سختی بنائے ہوئے ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود پرتشدد واقعات کے ملزمین سے وصولی کے لیے لگائے گئے پوسٹرس ابھی تک نہیں ہٹائے گئے ہیں اس کے برعکس یوگی کابینہ نے ملزمین سے وصولی کے لیے یو پی ریکوری پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی آرڈیننس پاس کردیا ہے۔ ریاستی حکومت کے ترجمان سدھارتھ سنگھ نے اس کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ریاستی گورنر کی منظوری ملتے ہی یہ ایکٹ بن جائے گا اور اس کے تحت مظاہروں و احتجاجوں میں سرکاری و غیر سرکاری املاک کے نقصان کی بھر پائی قصور واروں سے کی جائے گی۔ ریاست کے وزیر پارلیمانی امور سریش کھنہ نے اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ آرڈیننس سپریم کورٹ کے اس ریمارک کی روشنی میں منظور کیاگیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے پوچھا تھا کہ احتجاج کے دوران نقصان کی بھر پائی کے لیے وصولی کا کیا قانون ہے؟
آرڈیننس پر قانونی ماہرین کی رائے
سپریم کورٹ کے وکیل امجد سلیم یو پی کابینہ کے اس آرڈیننس کے بارے میں کہتے ہیں ’’ایسا لگتا ہے کہ یو پی سرکار نے یہ آرڈیننس جلد بازی میں الہ آباد ہائیکورٹ کے لکھنو پوسٹرز سے متعلق حکم سے نمٹنے کے لیے تیار کیا ہے اگر ایسا ہے تو سرکار کو اپنے پوسٹرزکو قانونی بنانے کے لیے اس ایکٹ کو ؟
سے نافذ کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق اس طرح کے قانون بنانے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے لیکن پھر بھی انہیں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ یو پی کے معاملے میں بھی اسے پرانی تاریخ سے نافذ کیا جاسکتا ہے لیکن سرکار کو اس کے لیے ایک حتمی تاریخ بتانی پڑے گی اور پھر اس تاریخ کے بعد کے تمام معاملوں کے پوسٹرز بغیر کسی امتیاز کے عوامی جگہوں پر لگانے پڑیں گے۔ سابق آئی پی ایس ایس آر دارا پوری سے جب اس معاملے میں فون پر بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کی جو مرضی آئے وہ کرے ہم قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں‘‘۔ لکھنو میں پوسٹرز میں شامل ملزمین کو سمودیھان سینائی، یعنی دستور کا حافظ قرار دے کر آئی سپورٹ مہم چلائی جارہی ہے۔ ان میں سے کچھ دستور محافظ کو گھنٹہ گھر اور اجریاوں کے احتجاجی دھرنوں میں عوامی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ قصہ مختصر اب یہ پورا معاملہ سرکار بنام عوام بنتا جارہا ہے۔