’ والد مرحوم نے جو پیغام پیش کیا پہلے اس پر خود عمل کیا‘
گھریلو ،سماجی ، ذاتی ،صحافتی ہر جگہ مثالی نقوش چھوڑے
معین دین خالد
کھلے ذہن کے ساتھ جدید تکنیکی وسائل کا استعمال کرنے کی وکالت کرتے تھے
مولانا یوسف اصلاحی کی وراثت کے امین و پاسدارڈاکٹر سلمان اسعد کے ساتھ خاص بات چیت
موت العالِم، موت العالَم یعنی ایک عالِم کی موت ایک دنیا کی موت کے مترادف ہے۔ یہ عربی کہاوت مرحوم محمد یوسف اصلاحی صاحب پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ ہفت روزہ دعوت نے جب مولانا کے فرزند ڈاکٹر سلمان اسعد سے ان کےبارے میں گفتگو کے آغاز میں ان سے جاننا چاہا کہ ان کو کہاں کہاں سے تعزیتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں تو انہوں نے تصدیق کی کہ ’’مولانا کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اس وقت پوری دنیا میں جو کیفیت طاری ہے وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مولانا یوسف صاحب اپنے رب کے یہاں بہت مقبول ہوئے ہیں۔ جس آسان زبان میں مولانا نے دین کو پیش کیا اس کا وہ خود ایک چلتا پھرتا اخلاقی نمونہ بنے۔ اس سے دنیا بھر کے لوگ ان کی شخصیت سے متاثر ہوکر قریب آئے۔ ان کی تحریروں کی اثر انگیزی، پیغام اور حقانیت کے گرویدہ ہوتے چلے گئے اور اسے تسلیم کیا۔ جب داعی خود اپنے پیغام پر عمل پیرا ہوتا ہے تبھی یہ کیفیت اور اثر انگیزی دیکھی جاتی ہے۔ فرزند سلمان بتاتے ہیں کہ ’’مرحوم والد محترم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے جو پیغام پیش کیا خود اس پر عمل کیا۔ مولانا نے جو سطر بھی لکھی ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی ایک ذخیرہ علم و عمل ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی موت ملت کا ایک ناقابل تلافی خسارہ ہے۔‘‘
مولانا یوسف صاحب کی تحریریں اور تقریریں اس بڑے پیمانے پر مقبول اور مشہور ہوئیں۔ اس کا راز بتاتے ہوئے ڈاکٹر سلمان اسعد نے وضاحت کی کہ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انبیا کے پاس اپنے پیغام کو ان اقوام کی زبان میں بھیجا۔ ذہنی کیفیتوں ، ماحول، انداز و اطوار اور سماجی حالات کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے دل سوزی کا اندازِتحریر ہی تھا جو ان کا ایک ایک جملہ لوگوں کے دلوں میں اترجاتا بلکہ یاد ہوجاتا تھا۔ ڈاکٹر سلمان نے ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ کو ایک واقعہ بتایا کہ وہ آٹھویں جماعت میں تھے جب انہیں مولانا کے ساتھ ایک سیرت کے جلسہ کے لیے غازی آباد سفر کرنا پڑا۔ ’’مختلف مکاتب فکر کی موجودگی میں ابّو کو جماعت اسلامی ہند کی نمائندگی کرنی تھی۔ مولانا کی تقریر کے بعد جلسہ کی منتظمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مولانا کو اگلے سال بھی خطاب کے لیے بلایا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مولانا نے اس آسان انداز میں گفتگو کی کہ سامعین کو ان کے جملے تک یاد ہوگئے۔ یہ اللہ کا خصوصی احسان اور توفیق کے ساتھ ممکن ہوا کہ لوگ ان کی تحریر اور تقریر سے جملے ازبر کرلیا کرتے تھے۔ مولانا نے اس بارے میں خود یہ بات کہی کہ یہ میں نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کرواتا ہے۔‘‘
اُن دنوں مرکزی درسگاہِ اسلامی کے پرنسپل جاوید اقبال صاحب نے ایشیاڈ گیمس ۱۹۸۲ میں ہاکی میچ دیکھنے کے لیے مولانا یوسف صاحب کے مکان پر بچوں کو بھیجا تھا۔ اس کے علاوہ آںجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی آخری رسومات کی لائیو نشریات دوردرشن پر دکھانے کے لیے درسگاہ اسلامی کے طلبا کو مولانا یوسف صاحب کے مکان میں لے جایا گیا تھا۔ ڈاکٹر سلمان سے جب پوچھا گیا کہ آج بھی جب کئی علما، مدارس اور تحریکی خاندان اپنے گھروں میں ٹی وی سیٹ نہیں رکھتے تو مولانا یوسف صاحب نے خود کو حالات حاضرہ سے واقفیت کی غرض سے جدید آلات اور تکنیک سے خود کو کیسے جوڑے رکھا تھا؟ ڈاکٹر سلمان فوراً جواب دیتے ہیں کہ مولانا یوسف صاحب بہت زیادہ جدید زمانے کے تقاضوں سے واقف رہنا چاہتے تھے۔ ان کے 16سالہ پوتے لَمعان نے مولانا کے انتقال کے بعدہی کہا کہ
Maulana Yousuf wants the people to follow the Deen in the modern age.
یعنی مولانا لوگوں کو یہ سکھانا چاہتے تھے کہ جدید معاشرے میں دین پر عمل آوری کے گُر لوگوں کو سکھائے جائیں جو تکنیک کے ذریعہ دین سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ جو بھی ذرائع وسائل ہوں ان کے استعمال سے ہم اپنی بات کو اچھے طریقہ سے لوگوں تک پہنچا سکیں۔ وہ اس بارے میں بہت کھلے ذہن کے تھے کہ جائز حدود میں تمام وسائل کو اختیار کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر سلمان نے مزید بتایا کہ جب کسی بھی مدرسے میں کمپیوٹر نہیں تھا تب مولانا نے رامپور کی جامعۃ الصالحات میں کمپیوٹر نصب کروائے اور اس کی تعلیم کا انتظام کیا۔ اس زمانے میں صالحات میں کمپیوٹر کا نصاب سی بی ایس ای کے نصاب سے بھی اونچا رکھا۔ اس سے مولانا کی روایتی طرز تعلیم سے آنے کے باوجود اس انقلابی سوچ کا حامل ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ان کی زندگی کا ایک بہت اہم پہلو ہے کہ انہوں نے مسلمانوں اور خاص طور پر خواتین کو دینی شعور کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ اور زمانے کی جدید ترین تکنیک کے ساتھ جوڑنے کا سوچا یہاں تک کہ اس رخ میں عملی اقدامات بھی کیے۔
’’کیا مولانا محمد یوسف صاحب کی زندگی جس رخ پر گزری اس سے ہٹ کر وہ کوئی اور کرئیر بنانا چاہتے تھے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں ان کے فرزند کہنے لگے کہ مولانا کی ابتدائی زندگی میں وہ علما کی زندگیوں کو دیکھ کر دین بیزار سے ہوگئے تھے۔ اس بارے میں مولانا نے اور بھی موقعوں پر ذکر کیا ہے کہ انہیں یہ بات ہمیشہ کھٹکتی رہی کہ علما کی کہنی اور کرنی میں فرق پایا جاتا ہے۔ شاید مولانا کو مسلمانوں کی زندگی کے منافقانہ رویہ نے دین سے دور کیا ہو۔ بریلی میں ایک تحریکی کارکن کے ذریعہ دی گئی مشہور زمانہ کتاب ’ تنقیحات’ کو مولانا نے یکبارگی پڑھ ڈالا اور پھر ان کی زندگی میں ایک نمایاں انقلاب رونما ہونےلگا۔ نوجوان محمد یوسف نے محسوس کیا کہ ’’کرنے کا کام تو یہی ہے۔ اور میں جو سوچتا اور کرتا ہوں وہ اصل چیز نہیں ہے بلکہ اب میرے لیے صحیح دین کا علم حاصل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔‘‘
مولانا کی زندگی کا کونسا پہلو انہیں غالب نظر آتا ہے صحافت، خطابت ، ایک سرگرم جماعتی کارکن ، بہت سفر کرنے والا، بہت پڑھنے والا یا ایک بہت گھریلو انسان؟ ڈاکٹر سلمان جواباً کہتے ہیں کہ یوسف صاحب کی زندگی کا نچوڑ امت کا درد مند ہونا ہے۔ امت کی آخرت اور بھلائی کی فکر مندی خود ان کی اور انسانوں کی عاقبت سنوارنے کی فکر مندی سے وہ سفر و حضر میں کبھی غافل نہ رہے۔ وہ بہت مشفق اور شاندار باپ تھے۔ ’’ہماری معمولی سے معمولی ضرورت ان کے لیے بہت اہم ہوا کرتی تھی۔ وہ ایک بہت اچھے شوہر ، ایک بہت اچھے خسر تھے۔ اگر میری اہلیہ سے بات کریں تو اندازہ ہوگا کہ اِس وقت مولانا کے چلے جانے سے ان کی کیفیت ناقابل بیان ہے، بس اس خیال سے کہ انہوں نے اپنا نہایت قیمتی سرمایہ کھودیا ہے۔ میرے بچے بھی مولانا کے گرویدہ تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھنا، باتیں کرنا، میرے بچوں کا مشغلہ تھا۔ اب بھی بچوں پر کیفیت طاری نظر آتی ہے۔ مولانا سامنے والوں کے معیار کے مطابق گفتگو کرتے اور اس کی پسند کے الفاظ میں کرتے۔ یہی ان کی بڑی خوبی تھی۔ مولانا نے یہ بات کہی کہ ’آدابِ زندگی کو پہلے میں نے اپنے اوپر نافذ کرنے کی کوشش کی۔’ ان کی زندگی اسی بات کا مظہر ہے۔‘‘
مولانا خواتین کی اصلاح پر خاصا زور دیا کرتے تھے۔ اس بارے میں مولانا کی سوچ کی وضاحت سلمان اسعد نے یوں کی کہ ہمارے معاشرہ اور ہمارے بزرگوں نے ایک عرصہ دراز تک خواتین پر کماحقہ توجہ نہیں دی۔ اس طبقہ کی تربیت کے فائدے کو بھی ہم سمجھ نہیں پائے تھے۔ مولانا کہتے تھے ’’جس گود میں بچے پلتے ہیں وہ اگر سنور گئیں تو نسلیں سنور جائیں گی۔‘‘ دینی خطوط پر بچیوں کی تربیت مولانا کو بہت عزیز تھی۔ ان کی تحریریں اور تقریریں مرد و خواتین کے لیے تھیں لیکن خواتین کی تربیت کو نظر انداز کیے جانے کو وہ بہت تشویش کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور دینی درسگاہ جامعۃ الصالحات سے ان کو بڑا لگاو رہا اور وہاں کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے انہوں نے ملت کی بچیوں کی دینی اٹھان کے لیے کوششیں کیں اور اس بڑی خامی کو دور کیا۔
جب ہم نے یہ جاننا چاہا کہ کیا مولانا کو اپنے آخری ایام میں کبھی ایسا احساس ہوا کہ کوئی کام ابھی ادھورا ہے؟ تو ڈاکٹر سلمان کہنے لگے کہ ایک تشنگی ضرور رہی کہ مولانا نے بعض سورتوں کی تفسیر کی تھی اور کچھ قرآنی سورتوں کی تفسیر کا کام جاری تھا جو ادھورا رہ گیا۔ دوسری بڑی خواہش تھی کہ ’آسان فقہ‘ میں نئے دور کے مطابق بہت سے نئے مسائل کو درج کرکے کتاب کو ازسر نو شائع کیا جائے جس کا ذکر مولانا اپنے بیٹے کے سامنے بھی کیا کرتے تھے۔ ’’مولانا کی ایک اہم تحریر جو وہ مکمل نہیں کرسکے ’تعمیر معاشرہ کی 14بنیادیں‘ ہے جو وہ قرآن کی روشنی میں لکھ رہے تھے جس کی 10بنیادوں پر وہ کام کرچکے تھے اب بقیہ چار نکات پر مجھے کام کرنے کے لیے کہہ گئے ہیں۔ کچھ کاموں کے لیے مجھے کہتے کہ کس پہ لکھا جانا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ جو آدمی دعوتی کام میں لگا ہوگا اس کی آخری سانس تک کاموں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کچھ چھوٹ بھی سکتا ہے۔’’ قرآنی بنیادوں پر اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے موضوع پر باقی ماندہ 4بنیادوں پر ڈاکٹر سلمان اسعد نے گزارش کی کہ ان کو مکمل کرنے کی توفیق کی دعا کی جائے۔ مولانا ایک کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے، ہمہ جہت مصروفیات تھیں، پھر بھی وہ پاکستان میں آبائی وطن گئے۔ اپنے بھائی بہنوں، بھتیجوں وغیرہ سے ملاقاتیں کیں جن سےرابطہ بھی بنائے رکھا۔
مولانا یوسف صاحب امریکہ، آسٹریلیا، یوروپ اور جاپان کے کافی دورے کرتے تھے۔ امریکہ کی تنظیم ICNA کی سرپرستی کرتے رہے۔ نامی ایک منصوبے Why Islamمولاناکے تمام اسفار دعوتی اور دینی مقاصد کے لیے ہوئے ہیں۔ دنیاوی غرض سے کبھی کوئی سفر نہیں کیا۔ مولانا کو جب لوگ ایک بار سن لیتے تو بار بار سننا چاہتے۔ اسی لیے دنیا بھر میں مختلف کانفرنسوں کے انعقاد پر مقررین کی فہرست میں والد صاحب کا نام ہمیشہ منتظمین شامل کرلیتے۔ مولانا نے ان ممالک کے طریق، احوال اور ماحول کو جان سمجھ کر وہاں کےباشندوں کو کچھ ایسے مشورے دیے تھے کہ آپ فلاں کام کریں اور فلاں طریقے سے دعوت کو پہنچائیں جس پر عمل کرنے کے نتیجے میں لوگوں کے سامنے ان باتوں کی افادیت اجاگر ہوئی تو اپنی تربیت و رہنمائی کے لیے بار بار مولانا کو بلایا کرتے تھے۔
2019میں آسٹریلیا سے میرے پاس بار بار فون آتے تھے کہ کم از کم ایک ہفتہ ہی مولانا کو بھیج دیا جائے چونکہ میں ہی مولانا کے سفری شیڈول کو دیکھا کرتا تھا تو مجھے ان لوگوں کی کیفیت کا فون اور ای میل کی زبان سے ہی اندازہ ہوجایا کرتا تھا۔
سلمان بھائی نے بتایا کہ مولانا ابتدائی زندگی میں اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کاروبار اور پبلیکیشن وغیرہ سے کرتے رہے۔ لیکن دین کی خدمت ہی مولانا کی زندگی کا اصل اوڑھنا بچھونا بنا رہا۔ اگر دین اور تحریک کا تقاضا ہوتو مولانا اپنی کاروباری مصروفیت کو بھی بالائے طاق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر سلمان والہانہ طور پر ذکر کرتے ہیں کہ مولانا یوسف صاحب جماعت اسلامی ہند سے بے انتہا محبت رکھتے تھے اور اس کی ترقی اور خوشحالی ان کی زندگی کا مشن تھا۔ ’جماعت’ کی چاہے مقامی سطح کی چھوٹی سے چھوٹی میٹنگ ہی کیوں نہ ہو مولانا اسے بھی بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ان کی زندگی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت کا بہت بڑا دخل پایا جاتا ہے۔ وہ افراد خاندان کی تربیت کے طور پر بھی مولانا مودودیؒ کے قصے اپنی اولاد کو بار بار سنایا کرتے تھے۔
مولانا یوسف صاحب نے گھر والوں کی اصلاح و تربیت کا کیا طریقہ اختیار کیا تھا؟ ڈاکٹر سلمان اس سوال پرفوراً کہتےہیں کہ ’’مولانا جو ہم سے کہتے تھے وہ خود بھی کیا کرتے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے خود کچھ کیا، اور ہم سے کچھ اور کرنے کو کہا ہو۔ یہاں تک کہ جب ہم سے کہتے کہ ’اپنے کپڑے خود دھو اور امی پر بوجھ نہ ڈالو’ تو وہ خود اپنے کپڑے دھوتے ہوئے دیکھے گئے۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ’ابو ہمارے ساتھ ہر طرح کے بچوں کے کھیل کھیلتے تھے۔ انہوں نے ایمانداری اور سچائی کا سبق بھی کھیل کھیل میں ہمیں سکھایا۔ کہتے کہ جھوٹ تمام خبائث کی جڑ ہے۔ وہ خود بھی صاف اور شفاف شخصیت کے مالک تھے۔‘ ڈاکٹر سلمان نے گواہی دی کہ ان کے قول و عمل میں کبھی تضاد نہیں پایا گیا۔
جب دریافت کیا گیا کہ ان کو یا ان کے بھائی بہنوں کو کبھی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا ؟ تو جھٹ سے فرزند سلمان کہنے لگے کہ ’’ہم سب انسانی معاشرہ میں رہتے ہیں اور غلطیوں پر ہمیں بھی ڈانٹیں پڑی ہیں۔ وہ نماز کی پابندی پر بہت سختی کرتے تھے۔ آخر عمر تک بھی مولانا ہم کو فجر کے وقت فرداً فرداً فون کرتے اور صرف اتنا پوچھتے کہ سب خیریت تو ہے ، کوئی پریشانی تو نہیں۔ ہم سمجھ جاتے کہ مولانا کا یہ فون صرف اس لیے آیا ہے کہ وہ جان لیں کہ ہم سب نے فجر کی نماز پڑھ لی ہے۔ البتہ ان کی ڈانٹ اور ناراضگی صرف اتنی دیر تک ہوتی کہ وہ بات بچوں کی سمجھ میں آجائے۔ اس کے بعد وہ پوری شفقت اور محبت کے ساتھ کھانا کھاتے ، ہمارے کھیل کود میں شامل ہوتے۔ یہاں تک کہ بچوں کے ساتھ خود بچہ بن جاتے تھے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ ہر طرح کا کھیل کھیلا ہے۔ کیا کہانی، کیا لطیفے ہمارے گھر میں وہ ہر طرح کا خوشگوار ماحول بنائے رکھتے تھے۔‘‘
معروف مدارس سے روایتی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے ہم عصروں کی طویل تقریروں اور بھاری بھرکم زبان کے مقابلے میں مولانا نے انتہائی آسان زبان کو اختیار کیا۔ رامپور کی اونچی مسجد میں مولانا کا خطبہ جمعہ انتہائی مختصر ہوا کرتا تھا جب پوچھا گیا کہ مولانا خطبہ اور تقریروں کے لیے کبھی تیاری کرتے؟ تو سلمان بھائی نے بتایا کہ ’’میں نے ہمیشہ دیکھا کہ کوئی بھی نشست ہوتی تو وہ تیاری کرکے اپنے پوائنٹس مرتب کرتے، کتابوں کے حوالے بھی اس میں درج کرتے، چاہے وہ یاد ہوں تب بھی یقینی بنانے کے لیے وہ کتابیں دیکھ لیتے‘دس منٹ کی چھوٹی سی تقریر ہو یا گھنٹے دیڑھ گھنٹے کا خطاب کیوں نہ ہو اس کے نوٹس مولانا ایک کاغذ اپنے شیروانی کی اوپر والی جیب میں ضرور رکھتے تھے۔ جس سے وہ گفتگو میں مدد لیتے‘‘۔ مولانا کا مطالعہ اتنا وسیع اور گہرا تھا کہ وہ چھوٹے اور آسان الفاظ میں بڑی بڑی باتیں پیش کرنے کے ماہر تھے۔ مولانا یوسف صاحب کا یہ خاصہ تھا کہ وہ بڑے موضوعات کو بھی نہایت مختصر گفتگو میں سمیٹ لیا کرتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عوام ان کی گفتگو کے بیچ کبھی نہیں اکتاتے بلکہ مزید سننے اور بار بار آنے کی جستجو بنی رہتی تھی۔
ڈاکٹر سلمان مزید بتاتے ہیں کہ جب وہ ماہنامہ ذکریٰ میں کوئی مضمون لکھتے تو مولانا اس میں سخت الفاظ کے استعمال پر ٹوک دیتے کہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کا یہ انداز نہیں ہوتا۔ مولانا خاص طور پر کہتے ’’اپنا علم ثابت کرنے کے لیے مت لکھو، جہاں الفاظ کی سادگی سے بات کہی جاسکتی ہو وہاں جتنے الفاظ کی ضرورت ہو اور جس سے بات سمجھائی جاسکتی ہو اتنے ہی الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ وہ گفتگو میں سلیقہ اور شائستگی سکھاتے۔ مولانا نے کبھی اپنا علم ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔مولانا ہم لوگوں کے سامنے بھی خود کو ایک طالب علم کی طرح پیش کرتے۔ ہم سے سوال بھی کچھ اس انداز سے کرتے کہ گویا وہ ہم سے گفتگو میں شریک ہورہے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سلمان نے بتایا کہ محمد یوسف اصلاحی صاحب نے ہمیشہ اردو میں لکھا حالانکہ ان کی اکثر کتابوں کے سینکڑوں زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’قرآنی تعلیمات‘‘ کا انگریزی ترجمہ خود فرزند سلمان اسعد نے ’’دی ہولی قرآن‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ کچھ اور تراجم کی اشاعت ہنوز باقی ہے۔ مولانا انگریزی سے بھی بخوبی واقف تھے۔ عربی بہت اچھی تھی لیکن اردو سے انہیں والہانہ محبت تھی۔
مولانا کی صحافت، دینی خدمات، خواتین کے بارے میں ان کی تڑپ کے ساتھ ساتھ وہ نئی نسلوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ’’تمہیں اس دنیا میں عزت کے ساتھ رہنا ہے، ایمان پر اپنا خاتمہ کرنا ہے، اور ایمان کی کیفیت کو لوگوں تک پہنچانا ہے، یہی اپنی پیدائش کا مقصد ہے جسے جتنا جلدی سمجھ لو اور عمل کرلو تو وہی توشہ آخرت ہے‘‘۔ واضح ہو کہ مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کہا کرتے تھے کہ میں ہندوستان سےوابستہ ہوں، جس کے نام میں ’ہندو‘ ہے ۔ رام پور میں رہائش ہےجس کے نام میں ’رام‘ ہے لیکن میں اپنی مکمل اسلامی شناخت کے ساتھ جینا اور مرنا چاہتا ہوں۔ آج کل کے بدلے سیاسی اور سماجی ماحول میں نوجوان جب جذباتیت کی طرف جارہے ہیں اور اسلاموفوبیا کے سبب ہیجانی کیفیت پیدا ہورہی ہے اس سلسلہ میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مولانا نے کبھی کوئی نصیحت کی؟۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سلمان بتاتے ہیں کہ ’’مولانا ہمیشہ مثبت سوچتے تھے، منفی سوچ کبھی نہیں رہی، وہ بہت ہی خوش امید آدمی تھے کہ اللہ نے ان کو جب اس زمین پر پیدا کیا ہے تو وہ اس زمین پر دین کے ساتھ زندہ رہیں اور دین کی دعوت بھی دیں تو یہ سلسلہ انشا اللہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہ دین غالب ہوکر رہے گا۔ وہ کبھی حالات سے گھبرائے نہیں۔ انہوں نے بڑی مصیبتیں جھیلی ہیں یہاں تک کہ ایمرجنسی کے دوران جماعت اسلامی ہند پر پابندی کے زمانے میں مولانا نے سنت یوسفی کی ادائیگی کرتے ہوئے جیل میں بھی جانا گوارا کیا۔ حالات کی سختی ان کی نظر میں کوئی ’رکاوٹ‘ نہیں ہوتی۔ قوموں پر سختیاں رسولوں کی سنت ہے جس میں ثابت قدم رہتے ہوئے خود کو اور دین کو اور نسلوں کو باقی رکھنے کا چیلنج قبول کرنا ہے۔ اس طرح مولانا قرآن اور سیرت سے یہ ثابت کرتے تھے کہ حالات کتنے ہی مایوس کن کیوں نہ ہوں صبر استقلال اور امید کا دامن تھامے ہوئے دعوت دین اور اقامت دین کی ڈگر پر چلتے رہنا ہے‘‘۔
مرحوم محمد یوسف اصلاحی صاحب کے فرزند ڈاکٹر سلمان اسعد کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کی اس خاص بات چیت کے دوران مولانا کی خانگی ، سماجی ، دینی زندگی کو سمجھنے کے لیے مختلف گوشے اجاگر ہوئے جس میں قدیم و جدید کا بہترین سنگم اور ملک، ملت اور عالم میں غلبہ دین کی راہیں بھی واگزار ہوئیں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 02 جنوری تا 08 جنوری 2022